فلسطین دو ملکی فارمولا

ظہیر اختر بیدری  پير 3 فروری 2020
ڈونلڈ ٹرمپ نے جس دو ریاستی منصوبے کو ایک بار پھر پیش کیا ہے، اس میں فلسطینی ریاست کے قیام کی بات ضرور شامل ہے لیکن اس کے علاوہ اسرائیلی نوآبادیوں کو تسلیم کرنے کی بات بھی اشارتاً کی گئی ہے

ڈونلڈ ٹرمپ نے جس دو ریاستی منصوبے کو ایک بار پھر پیش کیا ہے، اس میں فلسطینی ریاست کے قیام کی بات ضرور شامل ہے لیکن اس کے علاوہ اسرائیلی نوآبادیوں کو تسلیم کرنے کی بات بھی اشارتاً کی گئی ہے

ایرانی صدر روحانی نے امریکا کی موجودہ حکومت کو تاریخ کی بد ترین حکومت قرار دیا ہے۔  امریکی وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ ہمارے صبر کا مزید امتحان نہ لیا جائے۔ ٹرمپ نے مسئلہ فلسطین کے حوالے سے دو ریاستی منصوبے کا اعلان کیا ہے، جسے فلسطین نے مسترد کر دیا ہے۔ ٹرمپ منصوبے میں دو ریاستی بات شامل ہونے کے ساتھ ساتھ ، یروشلم کو اسرائیل کا غیر منقسم دارالحکومت رکھنے کا عہد بھی شامل ہے ۔ ٹرمپ نے کہا ہے کہ اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے بے دخل نہیں کیا جائے گا۔

سب سے پہلے روحانی کی اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے جس میں انھوں نے امریکا کی موجودہ حکومت کو تاریخ کی بدترین حکومت قرار دیا ہے۔ ایران سے دشمنی امریکا کی خارجہ پالیسی کا ایک اہم حصہ ہے اور یہ پالیسی امریکا کی کوئی نئی پالیسی نہیں بلکہ اسرائیل کے قیام کے ساتھ ہی یہ پالیسی امریکا کے پالیسی سازوں نے بنائی، جس پر عملدرآمد آج تک جاری ہے۔ ٹرمپ کے دور حکومت میں اس میں اتنا اضافہ ہوا ہے کہ یہ پالیسی اور سخت ہو گئی ہے۔  اس حوالے سے سب سے پہلے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایران کی امریکا سے براہ راست دشمنی یا مخالفت ہے؟ ایران ایک چھوٹا ملک ہے، اس کے مقابلے میں امریکا دنیا کی ایک بڑی سپر پاور ہے، یوں دونوں ملکوں میں دشمنی کا کوئی جواز ہی نہیں بنتا۔ لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ جب سے ٹرمپ امریکا کے سربراہ منتخب ہوئے ہیں۔ اسرائیل کی سرپرستی میں قابل ذکر اضافہ ہوا ہے اور فلسطینیوں کے خلاف جارحانہ کارروائیاں بہت بڑھ گئی ہیں۔

آج کی دنیا سائنس اور ٹیکنالوجی کی دنیا ہے، اس بدلی ہوئی دنیا میں اقتصادی مفادات میں تصادم تو ملکوں کے درمیان اختلافات بلکہ دشمنی کا سبب بن سکتا ہے لیکن مذہبی تفاوت کو اگر کوئی ملک یا کسی ملک کا حکمران اختلاف یا دشمنی کا سبب بناتا ہے تو ہم اسے ’جاہل‘ کے علاوہ کیا نام دے سکتے ہیں لیکن آج کی دنیا کے تعلیم یافتہ حکمرانوں نے مذہب کو اختلاف کی بنیاد بنا کر جس فکری پسماندگی کا مظاہرہ کیا ہے اس پر سوائے افسوس کے اور کیا، کیا جا سکتا ہے۔ اسرائیلی اگر اپنے مذہب کی پابندی کرتے ہیں تو یہ کوئی قابل اعتراض بات نہیں لیکن اگر دوسرے مذاہب سے عداوت کرتے ہیں اور دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کو نقصان پہنچاتے ہیں تو نہ صرف یہ مذہب کا بدترین استعمال ہے بلکہ یہ فکر قابل ملامت بھی ہے۔

برطانیہ اور اس کے اتحادیوں کو اسرائیلیوں پر ہٹلرکے مظالم کا بڑا شدید احساس تھا، کیونکہ ہٹلر نے یہودیوں کے ساتھ بہت زیادتیاں کیں اور انھیں ایک طرح سے بے وطن بھی کر دیا۔ برطانیہ اور ساتھی یہودیوں کی آبادکاری اور یہودیوں کو ایک وطن دلانا چاہتے تھے یہ ایک نیک خواہش تھی لیکن اس کے لیے انھوں نے صدیوں سے آباد فلسطینیوں کو بے وطن کر کے جو ظلم کیا وہ ہٹلرکے ظلم کا ازالہ تو نہیں ہوا بلکہ فلسطینیوں پر وہی ظلم کیا گیا، جو ہٹلر نے یہودیوں کو بے وطن کر کے کیا تھا آج فلسطینی اس ناانصافی اور ظلم کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں تو ان کی بات اس لیے نہیں سنی جاتی کہ وہ کمزور ہیں اور یہودی اسرائیل کی وجہ سے طاقتور ہو گئے ہیں۔

ٹرمپ ایک عرصے سے فلسطین کے مسئلے کا دو ریاستی حل پیش کر رہے ہیں۔ اول تو یہ ایک مبہم خیال ہے جس کی جزیات طے ہونی چاہئیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ صرف دو ریاستی حل کی اصطلاح سے فلسطین کا مسئلہ حل نہیں ہو سکتا، البتہ اس حل سے ٹرمپ یہ نیک نامی ضرور سمیٹ سکتے ہیں کہ انھوں نے اس مسئلے کے حل میں ایک مثبت پیشرفت کی ہے حالانکہ یہ مثبت پیشرفت ابھی تک زبانی کلامی سے آگے بڑھ کر ایک ٹھوس اور بامعنی شکل اختیار نہ کر سکی۔ اس حقیقت کے پیش نظر ہم اسے ایک پروپیگنڈا مہم سے زیادہ اہمیت نہیں دے سکتے۔ ٹرمپ دو ریاستی حل پر مخلص اور سنجیدہ ہیں تو سب سے پہلے دو ریاستوں کے حدود اربع کا واضح تعین ہونا چاہیے جس میں اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ کسی مذہبی مقامات کا تقدس مجروح نہ ہو جو مزید فسادات اور دشمنیوں کا سبب بن سکتا ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے جس دو ریاستی منصوبے کو ایک بار پھر پیش کیا ہے، اس میں فلسطینی ریاست کے قیام کی بات ضرور شامل ہے لیکن اس کے علاوہ اسرائیلی نوآبادیوں کو تسلیم کرنے کی بات بھی اشارتاً کی گئی ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ یروشلم کو اسرائیل کا ’’غیر منقسم‘‘ دارالحکومت رکھنے کا عہد بھی شامل ہے جو نہایت اہم شق کہلا سکتی ہے۔ ٹرمپ اگر فلسطین کے مسئلے کو حل کرنے میں سنجیدہ ہے تو دونوں ملکوں کے متنازعہ امور کی ایک فہرست بنانی چاہیے اور فریقین کو بٹھا کر اس فہرست پر سنجیدگی سے غور کر کے کسی نتیجے پر پہنچنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ اصل اور فائنل مذاکرات میں مشکلات پیش نہ آ سکیں۔ اس قسم کی احتیاطی تدابیر اس پیچیدہ اور دیرینہ یعنی 70 برس سے پرانے مسئلے کو حل کرنے کے لیے نہایت ضروری اور اہم ہے۔

ماضی کے شاہی دور میں جنگیں صرف سپاہیوں اور ہتھیاروں سے لڑی جاتی تھیں مذاکرات اور بلیک میلنگ بھی ان جنگوں کا حصہ ہوتے تھے لیکن آج کی جنگوں میں ڈپلومیسی بہت بڑا حصہ بن گئی ہے اور یہ کام بڑے بڑے تجربہ کار ڈپلومیٹ کر رہے ہیں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ طاقت ہر جگہ سب سے اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ امریکا اور فلسطین کے ڈپلومیٹ اگر مذاکرات کر رہے ہوں گے تو دلائل زیادہ طاقتور نہیں ہوں گے بلکہ امریکا کی بگ پاوری یعنی طاقت زیادہ اہم ہو گی۔ ماضی بعید میں طاقت ہی سب سے اہم فیکٹر ہوا کرتا تھا لیکن اس دور کو ہم دور جاہلیت کہتے ہیں اور موجودہ دور کو تاریخ کا سب سے مہذب دور کہتے ہیں۔ لیکن اسے ہم اپنی بدقسمتی کہیں کہ تاریخ کا یہ مہذب دور تاریخ کا سب سے بڑا جہالت کا دور کہلا رہا ہے۔

فلسطینی مسلمان ہیں اور پورے مشرق وسطیٰ میں مسلم ریاستیں ہیں لیکن کیا آپ کو یہ بات حیرت انگیز نہیں لگے گی کہ دنیا کے 57 مسلم ملکوں کو فلسطین سے رسمی ہمدردی کے علاوہ کوئی خاص ہمدردی نہیں ہے بلکہ اس کے برعکس اسرائیل سے زیادہ قربت ہے۔ یہ بات ہم مذہبی جذبات کے زیر اثر نہیں کہہ رہے ہیں بلکہ حق اور انصاف کے حوالے سے کہہ رہے ہیں۔ سامراجی ملکوں کے لیے مذہب کوئی اہمیت نہیں رکھتا لیکن جہاں سالمیت آ جاتی ہے وہاں بے تکلف مذہب کا استعمال کیا جاتا ہے۔ آج ہم مذہب کے حوالے سے جو دلیلیں دے رہے ہیں بحث کر رہے ہیں مستقبل کے معاشرے میں مستقبل کے لوگ آج کی ہماری ذہنیت کو جہالت سے تعبیر دیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔