ہم بھی یک جہتی کریں گے

سعد اللہ جان برق  ہفتہ 22 فروری 2020
barq@email.com

[email protected]

سمجھ میں نہیں آتا کہ لکھیں تو کیا لکھیں کہ کالم کے لیے موضوعات کاکال اور لکھنے کے لالے پڑے ہوئے ذہن پر تالے اور قلم کے پیروں میں چھالے پڑے ہوئے ہیں۔وہ کیا دن ہوتے تھے کہ ہرطرف موضوعات کی قطاریں لگی ہوتی تھیں اور ہاتھ بڑھاکر ’’رغداً قد شما‘‘کرلیتے تھے یا بقول مرشد کہ

پہلے آتی تھی حال دل پہ ہنسی

اب کسی بات پر نہیں آتی

ایک کرپشن نام کی ملکہ حسن جمع ملکہ پاکستان جمع ملکہ عالم ہوا کرتی تھی وہ بھی نہ جانے کہاں غائب ہوگئی ہے کہ اسے دیکھ یا سوچ کردل لگی کی آگ بجھا لیتے تھے لیکن سنا ہے بے چاری صاف وشفاف بلکہ نصف نصف پھر نصف نصف اور پھر ’’نصفُ‘‘کی ونصفُ’’ تک‘‘ہوکر انصاف درانصاف ہوگئی۔اتنی شفاف کہ ہوتے ہوئے بھی دکھائی نہیں دیتی، پکڑائی نہیں دیتی، سنائی نہیں دیتی تو لکھائی کیا دے گی۔اس کے بعد اس کی دوسری بہن مہنگائی تھی وہ بھی اب اتنی اوپر جاچکی ہے، ہوا ہوچکی ہے، فضاء میں خلا ہوچکی ہے کہ سر سے پگڑی یا ٹوپی گرائے بغیر دیکھنا ممکن نہیں رہا جب کہ اپنے سر پر نہ ٹوپی ہے نہ پگڑی، کوئی کیا دیکھے

ترے جواہر طرف کلہ کو کیا دیکھیں

ہم اوج طالع لعل وگہر کو دیکھتے ہیں

بلکہ اوج طالع پیاز وٹماٹر کودیکھتے ہیں،یادش بخیر وہ جو اپنا ’’روپیہ‘‘تھا جس کے روپ نرالے تھے، سروپ دل لبھانے والے تھے وہ بھی نہ جانے کیسے اپنے ہی گھر میں کھوگیا ہے حالانکہ ہم نے بازار میں جاکر اسٹریٹ لائٹ کے نیچے تلاش بھی کیاہے لیکن وہ ناجانے کس جہاں میں کھوچکاہے۔اور اس باباجی کے بارے میں تو ہم اپنا رونا رو چکے ہیں جو شہاب ثاقب کی طرح آیا اور ڈیموں پر نثارہوگیا۔ایک گھونسلہ تھا لیکن وہ بھی ایک سیزن کا تھا۔صرف ایک انڈہ دینے اور اس سے چوزہ نکالنے کے لیے۔وہ بھی نہیں رہا اس گھونسلے نے اپنا کام کردیا ہے ’’انڈے‘‘کو چوزہ بنادیا ہے اور وہ چوزہ بھی اب مرغ بلکہ اصیل کلنگی مرغ بن چکا ہے اور باقاعدہ بانگیں دے رہا ہے جس کی بانگ میں سارے گاؤں کے سارے مرغ اپنی بانگیں ملاتے رہتے ہیں، ایسے میں لکھا جائے تو کیا لکھاجائے کوئی موضوع ہی نہیں رہاہے

پہلے ہرچیز تھی اپنی مگر اب لگتاہے

اپنے ہی گھر میں کسی دوسرے گھر کے ہم ہیں

لے دے کر کالانعاموں کا یہ ریوڑ بچاہے تو اس پر ہرکوئی کہاں تک لکھے کہ سارے ایک جیسے ہیں ایک جیسے تھے اور ایک جیسے رہیں گے نہ کوئی امنگ ہے نہ کوئی ترنگ ہے وہی ایک دل ہے جو تنگ ہے خشت وسنگ ہے اور زنگ ہی زنگ ہے

بیداد عشق سے نہیں ڈرتا ولے اسد

جس دل پہ ناز تھا مجھے وہ دل نہیں رہا

سب سے زیادہ مایوسی کی بات یہ ہے کہ جب میں کچھ بھی نہیں سوچتا تھا تو کشمیر کے ساتھ یک جہتی یک جہتی کھیل لیتے تھے گھونسے دکھا دکھا کر کچھ روزی روٹی کرلیتے تھے،کہ جاگتے رہو ہم آرہے ہیں

بچوں پہ چلی گولی ماں دیکھ کے یوں بولی

میں آئی ہوں میں آئی، میں آئی ہوں میں آئی

ہم کچھ زیادہ تونہیں کرسکتے تھے اتنا تو کرلیتے تھے جتنا ایک چرسی نے دوسرے کے لیے کیاتھا، وہ دونوں رات کو خوب ’’بوغ‘‘لگاکر’’تھا‘‘میں چل رہے تھے کہ ان میں سے ایک کنوئیں میں گر گیا۔ دوسرے نے پوچھا تم کہاں ہو بھائی، ایک نے کنوئیں کی تہہ سے آواز دی، میں کنوئیں میں گرگیا ہوں۔

جان نثار دوست نے کہا، ٹھیک ہے بھائی جہاں رہو خوش رہو،  شاد رہو، آباد رہو، سری نگر رہو یا مظفرآباد رہو۔ ہاں سری نگر اور مظفرآباد سے یاد آیا کہ ایک کشمیر کا مسئلہ تھاوہ بھی سنا ہے چند ہی روز میں مودی پلیٹ میں سجاکر ہمیں دینے والا ہے۔ مودی اتنا اچھا ہرگز نہیں پکاپکا مودی ہے وہ تو ہم نے جب اپنے ٹرمپ انکل کو کشمیریوں کا بتایا تو پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔بیک وقت آٹھ آٹھ آنسو بہانے لگا۔آنکھوں سے کانوں سے نتھنو اور ہونٹوں سے۔ گلوگرفتہ آواز میں بولا۔میرے ہوتے ہوئے کشمیریوں پراتنا ظلم۔

دیکھ سکتا ہوں کچھ بھی ہوتے ہوئے

نہیں میں نہیں دیکھ سکتا تجھ کو روتے ہوئے

پھر ٹیلیفون اٹھایا اور مودی سے گرجدار آواز میں بولا،سن! بندے کا پتر بن، اسی وقت اسی’’شن‘‘کشمیر کو حوالے کردے۔مودی ویسے بھی موڈی ہونے کے باوجود بڑا بزدل ہے ڈرپوک ہے انکل کا یہ دھمکی آمیز حکم سن کر کانپنے لرزنے لگا ، قدم رکھتا ایک جگہ پڑتا دوسری جگہ، غلطیاں پر غلطیاں کرنے لگا اور اتنا تنگ آگیا کہ سنا ہے کچھ ہی دنوں میں وہ ہاتھ جوڑ کر مکھ موڑ کر اور ساری ضد چھوڑ کر کشمیر کو ہمارے حوالے کرنے والا ہے۔اب آپ ہی بتائے کہ اب ہم کیاکریں کہ وہ شاخ بھی نہیں رہی جس کی کسی نہ کسی شاخ پرکوئی نہ کوئی ’’اُلو‘‘ہم بٹھا دیتے تھے، اب کریں تو کیا کریں۔کہ اغل بغل میں کوئی پاجامہ بھی دستیاب نہیں جسے ادھیڑ کرسیا کریں۔

ایک بار سوچا تھا کہ ہم بھی دانا دانشور نہ سہی دانا دانشوروں کی کھال پہن کربڑے بڑے معاملات پر منہ ماری کریں لیکن پھر ڈر گئے کہ کہیں بڑے بڑے لوگوں کو کوئی غلط سلط مشورہ دیا تھا ہم نے۔ اپنے گاؤں کے لطاف گل کا وہ حشرنشریاد تھا جو اس تھانیدار سے گپ شپ بنانے کی کوشش میں ہوئی تھی۔

تھانیدار گھوڑے پرسوار تھا گھوڑا گابھن لگ رہاتھا۔لطاف گل نے سلام کے بعد کہا گھوڑے جی آپ کا خانہ تو گابھن لگ رہاہے، لے دے کر ہمارے پاس صرف ایک آپشن رہ جاتاہے  کہانیاں سنانے کا جو خوش قسمتی سے ہمارے پاس  بہت ہیں۔ پاکستان میں اتنی پارٹیاں نہیں ہوں گی پارٹیوں میں اتنے لیڈر نہیں ہوں گے لیڈروں کے پاس اتنے بیان نہیں ہوں گے اور بیانوں میں اتنی ’’پہلی ترجیحیں‘‘نہیں ہوں گی جتنی ہمارے پاس کہانیاں ہیں، سنی ہوئی بھی دیکھی ہوئی بھی اور سامنے اسٹیج کی ہوئی بھی۔ سو اب ہم نے ٹھان لیاہے صرف کہانیاں ہی سنائیں گے جھوٹی ہی سہی۔بلکہ ہمارے پاس ایک پوری’’جنگل بک‘‘ یا کلیلہ دمنہ ہے ویسے بھی ا س ملک میں کہانیوں اور ’’یک جہتیوں‘‘کے سوا رکھا ہی کیاہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔