چومسکی اور بعد از کورونا زندگی

وسعت اللہ خان  منگل 21 اپريل 2020

نوم چومسکی کا شمار بیسویں اور اکیسویں صدی کے ان گنے چنے روشن خیال دانشوروں میں ہوتا ہے جن کے سیاسی ، سماجی و اقتصادی تجزیات و خطابات کو عالمی سطح پر ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے۔اگر جدید سرمایہ دارانہ نظام کے کھلائے گئے شگوفوں، سپر پاورز بالخصوص امریکا کے فیصلہ سازی کے ظاہری و باطنی نظام اور اس نظام کی ڈوریاں ہلانے والوں کو سمجھنا ہو۔

یا پھر یہ سمجھنا ہو کہ کلاسیکی اور جدید نوآبادیاتی دور نے تیسری دنیا کو کس طرح قیادتی و اقتصادی طور پر بانجھ کیا اور عالمگیریت ( گلوبلائزیشن) کے نام پر کیسے کیسے  فطرت کی دودھیل گائے کا آخری قطرہ نچوڑ کر اسے اندھا دھند لالچ کے بینک اکاؤنٹس میں بھرنے اور پھر اس دولت سے مزید استحصال کے لیے ٹیکنالوجی کی مدد سے شکنجہ سازی ہو رہی ہے اور کس طرح عالمگیریت کے تابوت میں انسانی و قدرتی وسائل کو لٹا کر اس تابوت کو طفیلی کہاروں کے کندھے پر رکھ کے آخری جنازہ گاہ کی جانب لے جایا جا رہا ہے ؟

یہ سب سمجھنے کے لیے نوم چومسکی ان گنے چنے دانشوروں میں بچ گئے ہیں جن کا مطالعہ ازبس ضروری ہے۔فی الحال پیشِ خدمت ہے کورونا اور بعد از کورونا زندگی سے متعلق چومسکی کے خیالات کی تلخیص ۔

’’ اس وائرس کوپھیلنے سے روکا جا سکتا تھا۔ وبا پھیلنے سے لگ بھگ دو ماہ پہلے گذشتہ برس اکتوبر میں امریکا کی جان ہاپکنز یونیورسٹی کے سینٹر فار ہیلتھ سیکیورٹی میں عالمی اقتصادی فورم اور بل اینڈ ملنڈا فاؤنڈیشن کے تعاون سے ایک ممکنہ عالمی وبا سے نمٹنے کے لیے ایونٹ دو سو ایک کے نام سے کمپیوٹرائزڈ مشق کی گئی۔

اس مشق سے جو نتائج اخذ کیے گئے ان کو کسی سیاسی فیصلہ ساز نے نہ دھیان سے پڑھا نہ کوئی حکمتِ عملی بنانے کا تکلف کیا۔مگر فیصلہ ساز اب یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ انھیں پیشگی خبردار نہیں کیا گیا تھا اور مصیبت ان پر اچانک ٹوٹی۔

اکتیس دسمبر کو چین نے عالمی ادارہِ صحت کو ایک نامعلوم وائرس سے پھیلنے والے نمونیہ جیسے مرض کے بارے میں خبردار کیا۔ایک ہفتے بعد کچھ چینی سائنسدانوں نے اسے کورونا وائرس کے طور پر شناخت کیا اور اس بارے میں انھیں جتنا بھی معلوم تھا متعلقہ ماہرین کو آگاہ کر دیا۔لیکن جب چین سے باہر وائرولوجی کے ماہرین تک یہ تفصیل پہنچی تو کیا انھوں نے یا ان کی حکومتوں نے کوئی تدبیر سوچی ؟

چین کے علاوہ جنوبی کوریا، تائیوان اور سنگاپور نے کم از کم وائرس کے پہلے ہلے کو روکنے کے لیے احتیاطی اقدامات شروع کر دیے۔یورپ کو پہلے تو حالات کی سنگینی کا احساس نہ ہوا اور جب ہوا تو ہر کسی نے انفرادی طور پر جو مناسب سمجھا کرنا شروع کر دیا۔ جرمنی کو تیزی سے ادراک ہوا اور اس نے ہنگامی طور پر عمومی ٹیسٹنگ کی صلاحیت بڑھانا شروع کر دی۔مگر جرمنی نے ہمسائیہ ممالک سے تعاون اور معلومات کے تبادلے کے بجائے ان اقدامات کو خود تک محدود رکھا اور وائرس کو محصور کرنے میں بہت حد تک کامیاب بھی رہا۔

باقی ممالک اسے نظرانداز کرتے رہے اور قیمتی وقت ضایع ہوتا رہا۔اس معاملے میں یورپ کی حد تک سب سے ناقص پالیسی برطانیہ کی اور اس سے بھی بدتر پالیسی امریکا کی رہی۔ایک دن ٹرمپ نے کہا یہ تو معمولی سا فلو ہے۔اس سے کوئی بڑا بحران پیدا نہیں ہو گا اور اگلے دن اسی ٹرمپ نے کہا یہ ایک بدترین بحران ہے اور میں تو پہلے دن سے جانتا تھا اور پھر چند روز بعد یہی ٹرمپ کہہ رہا تھا ہمیں پھر سے معمولات بحال کرنے ہوں گے کیونکہ مجھے الیکشن لڑنا ہے۔ٹرمپ کو سن سن کر میرے لیے کورونا سے بھی زیادہ خوفناک یہ تصور ہے کہ یہ دنیا اس وقت کن مسخروں کے ہاتھوں میں ہے اور ان کے سبب ہم سب عالمی تاریخ کے سب سے بڑے بحران کی کگار سے جھول رہے ہیں۔

نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔امریکا اس وقت کورونا سے متاثر سب سے بڑا ملک ہے اور ایک سو نوے سے زائد ریاستوں میں یہ وائرس پنجے گاڑ چکا ہے۔

ٹرمپ اور اس کے چیلوں میں دوڑ لگی ہوئی ہے کہ کون سب سے پہلے خاتمے کے دہانے تک پہنچتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ دو نہائیت سنگین خطرے ہمارے سروں پر پہلے ہی سے تلوار جیسے لٹک رہے ہیں۔جوہری تصادم اور عالمی درجہِ حرارت میں اضافہ۔ کورونا تباہی کے نشانات چھوڑ کے ایک دن رخصت ہو جائے گا مگر اس تباہی کی آگے چل کر بھرپائی ممکن بھی ہے۔البتہ باقی دو خطرے ایسے ہیں جن سے واپسی ممکن نہ ہو گی۔

سفاکی کی انتہا یہ ہے کہ اس وقت بھی ٹرمپ ایران پر سے اقتصادی شکنجہ ڈھیلا کرنے کے لیے تیار نہیں۔بدقسمتی سے آج بھی امریکا کے ہاتھ میں اتنی طاقت ہے کہ جو نہ مانے اسے عالمی مالیاتی نظام سے باہر کیا جا سکتا ہے۔

مگر امید کی کرن بھی ہے۔ ہو سکتا ہے یہ بلا ٹلنے کے بعد عالمی سطح پر ایسی سوچ پروان چڑھے کہ آخر ہم کیسی دنیا میں محفوظ رھ سکتے ہیں۔پندرہ برس پہلے جب سارس نامی وائرس نے سر اٹھایا تھا، اس وقت طبی لیبارٹریوں میں اسی خاندان کے اگلے وائرس سے نمٹنے کے لیے ویکسین کی تیاری کا کام شروع ہو سکتا تھا۔مگر بڑی بڑی دوا ساز کمپنیاں چونکہ منافع کی دوڑ میں شامل نجی ہاتھوں میں ہیں لہذا ان کور چشموں کو ویکسین کی تیاری پر پیسہ لگانے سے زیادہ فوری دمڑی بنانے کے لیے نئی باڈی کریم کی مارکیٹنگ میں زیادہ دلچسپی ہوتی ہے۔

ذرا سوْچئے اگر سن پچاس کی دہائی میں پولیو ویکسین کسی سرکاری امریکی لیبارٹری میں بننے کے بجائے کسی نجی کمپنی کی لیبارٹری میں بنتی اور اس کے جملہِ حقوق پوری دنیا کے نام ہونے کے بجائے کسی ایک شخص کے نام ہوتے تو آج دنیا میں پولیو کی کیا صورت ہوتی ؟

آج بھی ضرورت ہے کہ کورونا کے لیے جو بھی ویکسین تیار ہو اس کے حقوق کرہِ ارض کے تمام باسیوں کے نام ہوں۔ورنہ کورونا کروڑوں زندگیوں کی قیمت پر چند لوگوں کے لیے ایک اور سونے کی کان بن جائے گا۔

اس وبا کے ٹلنے کے بعد دنیا میں دو تبدیلیاں آسکتی ہیں۔ یا تو لوگوں کے تحفظ کے نام پر آمریت کا شکنجہ اور کس جائے گا یا پھر عالمی سماج کو اندھے منافع کے وائرس سے آزاد کرکے ایک زیادہ انسان دوست سماج کی تعمیر کی تحریک زور پکڑ جائے گی۔فی الحال امکانات ففٹی ففٹی ہیں‘‘۔

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔