- کچے کے ڈاکوؤں سے رابطے رکھنے والے 78 پولیس اہلکاروں کا کراچی تبادلہ
- ایک ہفتے کے دوران 15 اشیا کی قیمتیں بڑھ گئیں
- بھارت میں پاکستانی 19 سالہ لڑکی کے دل کا ٹرانسپلانٹ کردیا گیا
- ڈی جی ایس بی سی اے نے سنگین الزامات کا سامنا کرنے والے افسر کو اپنا اسسٹنٹ مقرر کردیا
- مفاہمت یا مزاحمت، اب ن لیگ کا بیانیہ وہی ہوگا جو نواز شریف دیں گے، رانا ثنا
- پی ایس کیو سی اے کے عملے کی ہڑتال، بندرگاہ پر سیکڑوں کنٹینرپھنس گئے
- ڈھائی گھنٹے میں ہیرے بنانے کا طریقہ دریافت
- پول میں تیزی سے ایک میل فاصلہ طے کرنے کے ریکارڈ کی کوشش
- پروسٹیٹ کینسر کی تشخیص کے لیے نیا ٹیسٹ وضع
- غزہ پالیسی پر امریکی وزارت خارجہ کی خاتون ترجمان نے احتجاجاً استعفی دیدیا
- راولپنڈی: خاکروب کی لیڈی ڈاکٹر کو جنسی ہراساں کرنے اور تیزاب پھینکنے کی دھمکی
- یومِ مزدور: سندھ میں یکم مئی کو عام تعطیل کا اعلان
- منفی پروپیگنڈا ہمیں ملک کی ترقی کے اقدامات سے نہیں روک سکتا، آرمی چیف
- پاکستان میں افغانستان سے لائے غیر ملکی اسلحے کے استعمال کے ثبوت پھر منظرِ عام پر
- بھارتی ٹیم کے ہیڈکوچ کی ووٹ کاسٹ کرنے کی ویڈیو وائرل
- وزیرداخلہ کا غیر قانونی مقیم غیر ملکیوں کے خلاف آپریشن تیز کرے کا حکم
- سندھ حکومت نے 54 نجی اسکولوں کی رجسٹریشن روک دی
- عدت پوری کیے بغیر بیوی کی بہن سے شادی غیر قانونی قرار
- حکومت سندھ کا ٹیکس چوروں کے نام اخبارات میں شائع کرانے کا فیصلہ
- ضمنی انتخابات: کامیاب امیدواروں کے نوٹیفکیشن جاری، نئی پارٹی پوزیشن سامنے آگئی
گرمی کا شکارجیکب آباد انسانوں کے لیے ناقابلِ رہائش بن رہا ہے ، بین الاقوامی ماہرین
لندن: برطانوی اور امریکی ماہرین نے کہا ہے کہ دنیا کے بہت سے ممالک اور مقامات ایسے ہیں جو ایک ساتھ گرمی اور رطوبت بڑھنے سے انسانی رہائش کے لیے تیزی سے غیرموزوں ہوتے جارہے ہیں۔ ان میں پاکستان کا جیکب آباد اور متحدہ عرب امارات کا شہر راس الخیمہ سرِ فہرست ہیں۔
اپنی نوعیت کے پہلے مطالعے میں ماہرین نے کہا ہے کہ اوپر بیان کردہ دونوں شہروں کا درجہ حرارت اب 24 گھنٹے میں ایک یا دو مرتبہ کم ازکم ایک یا دو گھنٹے کے لیے اس حد تک جاپہنچتا ہے جسے ٹی ڈبلیو پیمانے سے ناپا جاتا ہے۔ اس کے لیے ماہرین نے دنیا بھر کے موسمیاتی اسٹیشن کا بغور مطالعہ کیا ہے۔
اس مظہر کو ویٹ بلب ٹمپریچر (ٹی ڈؓبلیو) کہا جاتا ہے جس میں ایک ہی ساتھ کسی علاقے میں گرمی اور نمی دونوں کو ناپا جاتا ہے۔ یہ درجہ حرارت ایسے تھرمامیٹر سے ناپا جاتا ہے جو گیلے کپڑے میں لپٹا ہوتا ہے۔ اگر اس صورتحال میں ٹی ڈبلیو 35 ہوجائے تو جسم پسینہ بہاکر خود کو ٹھنڈا نہیں رکھ سکتا ۔ لیکن اس سے کم مقدار بھی جان لیوا ثابت ہوسکتی ہے جس میں 2003 کی یورپی ہیٹ ویو قابلِ ذکر ہے۔ 17 سال قبل یورپ میں ٹی ڈبلیو صرف 28 تھا لیکن اس کے باوجود ہزاروں افراد ہلاک ہوئے تھے۔
امریکی اور برطانوی ماہرین نے پوری دنیا میں ٹی ڈبلیو کا تجزیہ کیا ہے۔ ان کا اصرار ہے کہ 1979 کے بعد سے دنیا کے کئی خطوں یں ویٹ بلب ٹیمپریچر کے 27 اور 35 ٹی ڈبلیو پہنچنے کی شرح دوگنی ہوچکی ہے۔ جبکہ طبی ماہرین کا اصرار ہے کہ 35 ڈی ڈبلیو ایک آخری حد ہے جس کے بعد جسم کو شدید نقصان پہنچتا ہے اور موت بھی واقع ہوسکتی ہے۔
ماہرین نے کہا ہے کہ پاکستان میں بالخصوص جیکب آباد، جبکہ خلیجِ فارس، بھارت اور شمالی امریکا کے بعض حصے ایسے ہیں جہاں پہلی مرتبہ 35 درجے سینٹی گریڈ ٹی ڈبلیو ریکارڈ کیا گیا ہے۔ یہ سب اعدادوشمار اب حتمی دریافت کے بعد سائنسی ریکارڈ کا حصہ بن چکے ہیں۔
’ ان تمام حدود کو پھلانگتے ہوئے ہم انسانی صحت و بقا کے خطرات کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ اگرچہ دن میں یہ کیفیت کم وقت کے لیے ہورہی ہے لیکن پوری دنیا میں ہم اس حد کو تیزی سے عبور کررہے ہیں،‘ ٹام میتھیوز نے تبایا جو لوبورو یونیورسٹی، برطانیہ کے سائنسداں ہیں۔
ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اس کیفیت سے یہ تمام علاقے ان موسمیاتی پیشگوئیوں سے کہیں تیزی سے گرم ہورہے ہیں جو عالی ماڈلنگ کے تحت کی گئی ہیں۔ ڈاکٹر میتھیوز نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ بالخصوص پاکستان اور بھارت کے مزید کئی علاقے گرمی کی اس حد میں آسکتے ہیں ۔ انہوں نے ان علاقوں میں گھروں اور دفاتر کو ٹھنڈا رکھنے پر بطورِ خاص زور دیا۔
دوسری جانب اس مطالعے سے الگ تھلگ ایک اور موسمیاتی ماہر اسٹیون شیروڈ کہتے ہیں کہ اگرچہ پیمائشیں درست ہیں لیکن انسانی جسم اس سے بھی زیادہ گرمی برداشت کرسکتا ہے۔ اس کا عملی مظاہرہ افریقہ اور دیگر کئی ممالک میں دیکھا جاسکتا ہے۔ اسی بنا پر یہ تحقیق عالمی آبادی کے لیے انتہائی خطرناک قرار نہیں دی جاسکتی۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔