گلشن اقبال میں مصنوعی بحران کے باعث شہری پانی خریدنے پر مجبور

سید اشرف علی  منگل 19 مئ 2020
لاک ڈاؤن میں صنعتی اور تجارتی سرگرمیاں محدود،پانی کی قلت بڑا سوال بن گئی،موسم گرما اور رمضان میں بحران پیدا ہوتا ہے۔ فوٹو : فائل

لاک ڈاؤن میں صنعتی اور تجارتی سرگرمیاں محدود،پانی کی قلت بڑا سوال بن گئی،موسم گرما اور رمضان میں بحران پیدا ہوتا ہے۔ فوٹو : فائل

کراچی: سندھ حکومت اور واٹر بورڈ کے حکام کی ملی بھگت سے گلشن اقبال میں پانی کا مصنوعی بحران پیدا کردیا گیا ہے۔

رمضان المبارک میں شہریوں کو سخت پریشانی کاسامناکرنا ہے اور وہ مہنگے داموں پانی کے ٹینکرز خریدنے پر مجبور ہیں، واٹر بورڈ گلشن اقبال کے رہائشی علاقوں کے حصے کا پانی چوری کرکے نیپا چورنگی ہائیڈرینٹ کو فراہم کررہا ہے جو 24 گھنٹے چل رہا ہے، ماہ رمضان میں ٹینکرز مافیا شہریوں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہی ہے۔

مکینوں کا کہنا ہے کہ لاک ڈاؤن نے صنعتی اور تجارتی سرگرمیاں محدود کردی ہیں ایسے میں پانی کی قلت بڑا سوالیہ نشان ہے، اصل حقیقت یہ ہے کہ واٹر بورڈ کا محکمہ ٹرنک مین گلشن اقبال کے حصے کا پانی چوری کرکے نیپا چورنگی پر ہائیڈرینٹ کو فراہم کررہا ہے جہاں 24گھنٹے پانی کے ٹینکرز بھرے جارہے ہیں جس سے پانی کا مصنوعی بحران جاری ہے۔

محکمہ واٹرٹرنک مین میں رشوت ستانی عروج پرہے، واٹر بورڈ افسر

ادارہ فراہمی و نکاسی آب کراچی کے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ویسے تو واٹر بورڈ کا پورا نظام ہی خستہ حال اور کرپٹ زدہ ہے لیکن محکمہ واٹر ٹرنک مین میں رشوت ستانی عروج پر ہے، شہر میں پانی کی فراہمی کے دو نظام ہیں جس کے علیحدہ علیحدہ سپرنٹنڈنٹ انجینئرز اور عملہ ہے، واٹر ٹرنک مین دریائے سندھ اور حب ڈیم سے آنے والی کینالوں اور شہر میں قائم بلک لائنوں کی نگرانی کرتا ہے۔

محکمہ واٹر ٹرنک مین شہر میں پانی کی بلک فراہمی کا نظام ہے، واٹر ٹرنک مین جس دوسرے سسٹم کو پانی فراہم کرتا ہے وہ لوکل واٹر ڈسٹری بیوشن سسٹم کہلاتا ہے ا س سسٹم کے تحت رہائشیوں کے گھروں تک پائپ لائنوں، والو آپریشن اور گریویٹی کے ذریعے پانی فراہم کیا جاتا ہے، جب محکمہ واٹر ٹرنک مین ہی لوکل واٹر ڈسٹری بیوشن سسٹم کو پانی فراہم نہیں کرے گا تو کسیے شہریوں کے گھروں تک پانی فراہم ہوگا۔

اصل میں ہر سال گرمیوں بالخصوص رمضان میں پانی کی طلب بڑھ جاتی ہے اور ان ہی تین سے چار ماہ میں ٹینکرز مافیا کے کاروبار عروج پر ہوتا ہے، اس وجہ سے پانی کا یہ مصنوعی بحران پورے شہر میں پھیل جاتا ہے اور اس گھناؤنے کاروبار کے پیچھے صرف واٹر واٹر بورڈ کے افسران شامل نہیں ہیں بلکہ سندھ حکومت کے اعلیٰ حکام کی بھرپور حمایت رہتی ہے اور وہ شہری جو واٹر بورڈ کا بل بھی بھرتے ہیں پانی کے مصنوعی بحران کے سبب مہنگے داموں پانی کے ٹینکرز خریدنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔

محکمہ واٹر ٹرنک مین گلشن اقبال کوحصے کاپانی نہیںدے رہا،یوسی چیئرمین 

گلشن اقبال کی یوسی 21کے چیئرمین محمد عدنان خان نے ایکسپریس کو بتایا کہ محکمہ واٹر ٹرنک مین گلشن اقبال کے حصے کا پانی مکمل طور پر فراہم نہیں کررہا ہے بلکہ اس کا بیشتر حصہ نیپا ہائیڈرینٹ کو فراہم کیا جارہا ہے جس کی وجہ سے گلشن اقبال بلاک ون ، بلاک ٹو ، بلاک فائیو، 13D-1،2،3بلاک تیرہ جی، جمالی کالونی، بلوچ گوٹھ، ضیاالحق کالونی، وسیم باغ اور رحمتیہ کالونی میں پانی کا شدید بحران جاری ہے۔

گلشن اقبال کا پانی نیپا ہائیڈرینٹ نہیں دیا جاتا،ترجمان واٹربورڈ

ادارہ فراہمی و نکاسی آب کے ترجمان نے اس بات کی تردید کی ہے کہ محکمہ واٹر ٹرنک مین گلشن اقبال کے حصے کا پانی نیپا ہائیڈرینٹ کو فراہم کررہا ہے ایسا تکنیکی طور پر ممکن نہیں ہے ان علاقوں میں پانی کے بحران کی اصل وجہ گرمی کی شدت ہے، طلب زیادہ اور سپلائی کم ہے، نیپا چورنگی ہائیڈرینٹ 24گھنٹے نہیں چلایا جارہا بلکہ 18گھنٹے چلایا جارہا ہے۔

کمرشل واٹر ٹینکر کی سپلائی مکمل طور پر بند ہے، صرف سرکاری ریٹس پر پانی کے ٹینکرز فروخت کیے جاتے ہیں، ایک ہزار گیلن پانی کا ٹینکر ایک ہزار روپے، 2 ہزار گیلن پانی کا ٹینکر 1400 روپے اور 3 ہزار گیلن پانی کا ٹینکر 1800روپے میں فروخت ہوتا ہے۔

رمضان کے آغاز کے ساتھ ہی پانی غائب ہوگیا،مجتبیٰ علی 

گلشن اقبال کے رہائشی سید مجتبیٰ علی بتاتے ہیں کہ ماضی میں موسم گرما کے دوران گلشن اقبال میں پانی کا بحران ہوتا تھا اور واٹر بورڈ کے شکایتی مراکز پر جب بھی شکایات درج کرائی جاتی تھی تو یہی جواب ملتا تھا کہ شہر کی آبادی بڑھنے کی وجہ سے پانی کی طلب زیادہ اور فراہمی انتہائی کم ہے لیکن لاک ڈاؤن نے واٹر بورڈ کے اس جھوٹے دعوے کی قلعی کھول دی ہے،ہفتہ 4 دن یومیہ 6 گھنٹے پانی فراہم کیا جارہا تھا لیکن رمضان کے آغاز کے ساتھ ہی جو پانی غائب ہوا ہے وہ آج تک بحال نہیں ہوا۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔