- کوہلو میں خراب سیکیورٹی کے باعث ری پولنگ نہیں ہوسکی
- 9 ماہ کے دوران 9.8 ارب ڈالر کا قرض ملا، وزارت اقتصادی امور ڈویژن
- نارووال: بارات میں موبائل فونز سمیت قیمتی تحائف کی بارش
- کراچی کے مختلف علاقوں میں زلزلے کے جھٹکے
- کوئٹہ: برلن بڈی بیئر چوری کے خدشے کے پیش نظر متبادل جگہ منتقل
- گجرات میں اسپتال کی چھت گرنے سے خاتون سمیت تین افراد جاں بحق
- سعودی فرمانروا طبی معائنے کیلیے اسپتال میں داخل
- امریکی سیکریٹری اسٹیٹ سرکاری دورے پر چین پہنچ گئے
- ہم یہاں اچھی کرکٹ کھیلنے آئے ہیں، جیت سے اعتماد ملا، مائیکل بریسویل
- پچھلے میچ کی غلطیوں سے سیکھ کر سیریز جیتنے کی کوشش کرینگے، بابراعظم
- امریکا میں ٹک ٹاک پر پابندی کا بل سینیٹ سے بھی منظور
- محمد رضوان اور عرفان خان کو نیوزی لینڈ کے خلاف آخری دو میچز میں آرام دینے کا فیصلہ
- کے ایم سی کا ٹریفک مسائل کو حل کرنے کیلئے انسداد تجاوزات مہم کا فیصلہ
- موٹروے پولیس اہلکار کو روندنے والی خاتون گرفتار
- ہندو جیم خانہ کیس؛ آپ کو قبضہ کرنے نہیں دیں گے، چیف جسٹس کا رمیش کمار سے مکالمہ
- بشری بی بی کو کچھ ہوا تو حکومت اور فیصلہ سازوں کو معاف نہیں کریں گے، حلیم عادل شیخ
- متحدہ وفد کی احسن اقبال سے ملاقات، کراچی کے ترقیاتی منصوبوں پر تبادلہ خیال
- کراچی میں سیشن جج کے بیٹے قتل کی تحقیقات مکمل،متقول کا دوست قصوروار قرار
- غزہ کے اسپتالوں میں اجتماعی قبروں نے اقوام متحدہ کو بھی خوفزدہ کردیا
- ایکس کی اسمارٹ ٹی وی ایپ متعارف کرانے کی تیاری
لاک ڈاؤن سے گھریلو لیڈیز ٹیلرنگ کا کام شدید متاثر
کراچی: کورونا وبا سے بچاؤ کیلیے لاک ڈاؤن کے سبب رواں سال رمضان میں بازاروں کے ساتھ گھریلو سطح پر لیڈیز ٹیلرنگ کا کام بھی شدید متاثر ہوا ہے۔
جو خواتین اور بچیاں عید الفطر کے لیے ماضی میں کئی کئی سوٹ تیار کراتی تھیں اب ان میں سے50فیصدیا اس سے بھی کم خواتین اپنے مالی حالات خراب ہونے کی وجہ سے رواں عید کے لیے اپنے کپڑے تیار نہیں کراسکیں گی، باقی20 فیصد خواتین تیار شدہ ملبوسات خریدنے کوترجیح دیں گی، 20 فیصدخواتین گھریلو سطح پر گھریلو ٹیلرز اور10فیصد بازاروں میں موجودکمرشل ٹیلرز سے اپنے عید ملبوسات تیار کرارہی ہیں۔
کورونا اور لاک ڈاؤن کے سبب بازاروں کی صورتحال اور کام کے تجربے کی بنیاد پر یہ ایک اندازہ ہے تاہم حالات کے مطابق اس میں ردوبدل ہوسکتا ہے، 20 برس سے گھریلو سطح پر خواتین کے ملبوسات تیار کرنے والی خاتون ٹیلر صبیحہ شاہد نے گفتگو میں بتایا کہ کراچی کے تمام علاقوں میں خاتون ٹیلرز موجود ہیں اس شعبے سے وابستہ 80فیصد خواتین اپنے گھروں میں ہر عمر کی خواتین اور بچیوں کے کپڑے سیتی ہیں۔
کچھ خواتین کمرشل سطح پر مختلف فیکٹریوں اور بوتیک کے سادے،مختلف ڈیزائن اور شادی بیاہ کے ملبوسات تیار کرتی ہیں زیادہ تر گھریلو سطح پر کمرشل ملبوسات کی سلائی کا کام شیر شاہ،اورنگی ، کورنگی ، لانڈھی،شاہ فیصل،لیاقت آباد اور نیوکراچی سمیت مختلف علاقوں میں ہوتا ہے،کئی علاقوں میں سادہ اور ڈیزائن والے ملبوسات کی قمیضوں کی سلائی ہوتی ہے،کئی علاقوں میں شلواریں سی جاتی ہیں اور پھر منظور کالونی میں اور دیگر علاقوں میں ان سوٹوں کی پیکنگ ہوتی ہے۔
گھریلوخواتین اوربچیوں میں ٹیلرنگ سیکھنے کارحجان بڑھ گیا
صبیحہ شاہد نے بتایا کہ گھریلو سطح پر خواتین اور بچیوں میں ٹیلرنگ سیکھنے کارحجان بڑھ گیا ہے، گھریلو سطح پر زیادہ تر خواتین اپنے محلوں یا علاقے میں تمام عمر کی خواتین اور بچیوں کے کپڑے سیتی ہیں ایک گھریلو خاتون درزن دن میں 5 سے6 سوٹ سلائی کرلیتی ہے انھوں نے کہا کہ اس طرح ان کو گھر بیٹھ کر اضافی آمدنی ہوجاتی ہے جس سے وہ اپنے مالی مسائل کو کم کرلیتی ہیں، بہت سی گھریلو خواتین ٹیلرز اس آمدنی سے اپنے بیسی ڈال کر اپنی بچیوں کا جہیز یا دیگر گھریلو سامان خریدلیتی ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ ایک نوجوان بچی کو ٹیلرنگ کاکام مکمل سیکھنے میں دو سال کا عرصہ لگتا ہے تاہم اس میں سیکھنے والی بچی کی دلچسپی بھی شامل ہونی چاہیے،انھوں نے بتایا کہ زیادہ تر خواتین لیڈیز ٹیلرز سے اپنے کپڑوں کی سلائی کو ترجیح دیتی ہیں کیونکہ لیڈیز ٹیلر کو خواتین اور بچیوں کو اپنے کپڑوں کاناپ دینے میں آسانی ہوتی ہے۔
ہرعلاقے میں خواتین کی سلائی کے سوٹ کے ریٹ الگ ہیں
طبقہ اشرافیہ کی خواتین تو آن لائن یا دیگر بڑے بازاروں سے تیار شدہ جدید اسٹائل کے ملبوسات خرید لیتی ہیں انہوں نے کہا کہ ممکن ہے زیادہ تر خواتین وبچیاں مالی حالات کی خرابی کی وجہ سے ایک سوٹ ہی بنواسکیں، انھوں نے کہا کہ ہر علاقے میں گھریلو سطح پر خواتین کی سلائی کے سوٹ کے ریٹ علیحدہ ہیں کم ازکم سوٹ 400روپے سے لے کر 1500یا ا س سے زائد میں سلائی ہوتا ہے ہر سوٹ کی سلائی کے ریٹ اس کے اسٹائل اور ڈیز ائن کے مطابق ہوتے ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ سوٹ تیار کرنے سے پہلے اس کی پانی سے شیلنگ کی جاتی ہے اور سوکھ جانے کے بعد ناپ کے مطابق اس کی کٹائی اور پھر سلائی ہوتی ہے ایک سوٹ میں دھاگا،بکرم،بٹن اور دیگر خام مال استعمال ہوتا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ اب دستی سلائی مشین کا زمانہ چلاگیا ہے اور اب الیکٹرک سلائی مشین پر سلائی ہوتی ہے،اور کمرشل سطح پر اب جدید چھوٹی موٹر والی الیکٹرانک مشین سے کپڑے سلائی کیے جاتے ہیں انھوں نے بتایا کہ رواں سیزن نے کورونا کی وجہ سے خراب ہوگیا ہے، خواتین اور بچیوں کی اکثریت جدید اسٹائل کے عبایہ پہنے کو بھی ترجیح دیتی ہیں۔
بازارکھل جانے کے بعدخواتین بغیرسلے کپڑے خریدنے لگیں
عام طور یہ دیکھا گیا ہے جن خواتین کی رنگت سانولی ہوتی ہے وہ ہلکے رنگ کے ملبوسات اور جن کی رنگت گوری ہوتی ہے وہ گہرے رنگ والے ملبوسات پہنے کو ترجیح دیتی ہیں، بچیاں کرتیاں اور ٹراؤزرشوق سے پہنتی ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ اب بازار کھل جانے کے بعد خواتین بغیر سلے کپڑے خریدرہی ہیں اور لیڈیز ٹیلرز سے گھریلو سطح پراپنے سوٹ تیار کرانے کے لیے رجوع کررہی ہیں اس کی وجہ سے گھریلو سطح پر لیڈیز ٹیلرنگ کے کام میں اضافہ ہوجائے گا، بازاروں میں موجود ٹیلرز بھی ناپ لے کر گھروں میں سلائی کررہے ہیں،تاہم کورونا کی وجہ سے عوام کے مالی حالات خراب ہیں، غریب طبقہ کی خواتین کے لیے تو نئے کپڑے خریدنا بہت مشکل ہے،متوسط طبقہ کی خواتین 1500روپے یا اس سے زائد مالیت تک کے بغیر سلائی کے کپڑے خریدرہی ہیں اور پھر ان کی سلائی کرارہی ہیں۔
کمرشل سطح پرلان، کاٹن سلک، ریشمی جارجٹ کے ملبوسات تیارکیے جاتے ہیں
صبیحہ شاہد نے بتایا کہ کمرشل سطح پر زیادہ ترکئی اقسام کے لان،کاٹن،سلک،ریشمی،جارجٹ اور دیگر کپڑوں کے ملبوسات تیار کرائے جاتے ہیں اس کے علاوہ شادی بیاہ کے لیے دلہنوں کے شرارے، غرارے، میکسی،فراک اور دیگر مہنگے ملبوسات بھی کمرشل سطح پرتیار ہوتے ہیں جو زیادہ تر پیشہ وار مرد درزی سیتے ہیں۔
لاک ڈاؤن سے پہلے خواتین کو کپڑوںکی سلائی کا بہت کام ملتا تھا
پاکستانی کپڑے کی نسبت چائنا کا کپڑا تھوڑا سستا ہے،انھوں نے بتایا کہ لاک ڈاؤن سے پہلے کمرشل سطح پر خواتین کو مختلف اقسام کے کپڑوں کی سلائی کا بہت کام ملتا تھا یہ کام بولٹن مارکیٹ کے دکاندار دیتے تھے ایک بورے میں 12قمیض اور شلواریں کٹنگ ہوئی مختلف پیمانوں کی ملتی ہیں ایک قمیض اور شلوار کی سلائی کے 30 روپے فی کس ملتے ہیں،خام مال دھاگہ،بٹن اور بکرم وغیرہ آرڈر دینے والوں کی ہوتی ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ایک دن میں ایک خاتون ٹیلر دوسے تین بوروں میں موجود ملبوسات کی سلائی کرالیتی ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔