سجاول، 1999 کے طوفان میں گم 450 ماہی گیر تاحال لاپتہ

نامہ نگار  منگل 19 مئ 2020
لاپتہ ماہی گیروں کی بیویاں انتظارمیں بوڑھی ہوگئیں،جاں بحق افراد کے ورثا تاحال امداد سے محروم۔ فوٹو: فائل

لاپتہ ماہی گیروں کی بیویاں انتظارمیں بوڑھی ہوگئیں،جاں بحق افراد کے ورثا تاحال امداد سے محروم۔ فوٹو: فائل

سجاول: 1999 کو سندھ کی ساحلی پٹی پر آنے والے خطرناک اور مہلک طوفان (ٹو اے) نامی سپر سائیکلون کو 21 برس بیت چکے، سمندری طوفان میں ہلاک شدگان اور  450 کے قریب لاپتہ ماہی گیروں کے ورثا ابھی تک اپنے پیاروں کی راہ تکتے تھک گئے ہیں جبکہ طوفان میں بچ جانے والے ساحلی پٹی کے باشندے جدید دور میں غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔

1999 میں آنے والے اے ٹو نامی مہا طوفان کی تبا کاریوں کے اثرات تاحال یہاں کے مکینوں کے ذہنوں میں تازہ ہیں۔ مسلسل 24 گھنٹوں سے ہونے والی بارش اور 195 کلو میٹر فی گھنٹے کی رفتار سے چلنے والی طوفانی ہواؤں اور سمندر کی کئی فٹ اونچی بپھری ہوئی موجوں نے تباہی مچادی تھی، سمندری طوفان کے باعث سیکڑوں انسان اور مویشی اپنا توازن قائم نہ رکھ کر زمین پر تھم نہ سکے اور طوفانی ہواؤں نے انھیں اٹھاکر درختوں سے لٹکا دیا تھا جن کی لٹکی لاشیں بعد میں درختوں سے اتار کر دفنائی گئیں۔

سیکڑوں ماہی گیر بھٹک کر ہندستان کی سمندری حدود میں چلے گئے تھے جو آج تک وہاں کی جیلوں میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں جبکہ ان کی مائیں ان کی یاد میں رو رو کر خالق حقیقی سے جا ملی ہیں،بچے جوان اور بیویاں جوانی کی دہلیز پار کرتے ہوئے بڑھاپے میں داخل ہوچکی ہیں مگر ان کا انتظار ابھی تک ختم نہ ہوسکا ہے اور نہ ہی حکومت کی جانب سے آفت زدہ ماہی گیروں کو وطن واپس لانے کی طرف کوئی توجہ دی گئی ہے۔

ساحلی علاقوں میں آنے والی اس تاریخی تباہی کے بعد حکومت کی جانب سے سب سے زیادہ متاثر ہونیوالے تحصیل جاتی کے گاؤں عبدالرحمان دھاندل کو ماڈل بنانے کا اعلان کیا گیا اور طوفان میں جاں بحق ہونے والے ماہی گیروں کے ورثا کو فی کس ایک لاکھ روپے ادا کرنے کا اعلان کیا گیا مگر وہ وعدہ آج تک صرف اعلان تک ہی محدود رہا اور ساحلی پٹی کے لوگ ابھی تک بنیادی سہولتوں کے بغیر اور غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

اس سلسلے میں ماہی گیروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم فشر فوک فورم رہنما نور محمد تھہیمور نے بتایا کہ سندھ میں 1999 کے طوفان سے متاثرہ لوگوں کے لیے سندھ حکومت نے ایک لاکھ روپے دینے کا اعلان کیا تھا لیکن صرف30 ہزار روپے دے کر معاملے کو ختم کر دیا گیا تھا۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔