کوچۂ سخن

عارف عزیز  اتوار 21 جون 2020
ہم ایسے لوگ ہنر جانتے ہیں چاہت کے۔ فوٹو: فائل

ہم ایسے لوگ ہنر جانتے ہیں چاہت کے۔ فوٹو: فائل

غزل


عجب معاملہ کل رات بھر رہا مرے ساتھ
چراغ میرا مخالف تھا اور ہوا مرے ساتھ
نگہ سے دل میں اترنا بھی کتنا مشکل ہے
ذرا سی دیر میں کیا کیا نہیں ہوا مرے ساتھ
میں اس کے سامنے جانے سے خوف کھاتا تھا
پھر ایک روز مرا آئینہ لڑا مرے ساتھ
اگرچہ شہر بڑا ہے، بہت حسین بھی ہے
مگر وہ گاؤں جہاں تُو پلا بڑھا مرے ساتھ
یہ میرا نیند میں چلنا بھی ایک قصہ ہے
کسی نے ہاتھ بڑھا کر کہا تھا ،آ مرے ساتھ
(نذر حسین ناز۔چکوال)

۔۔۔
غزل


یہی تدبیر قہر ڈھاتی ہے
نیند سولی پہ چڑھ کے آتی ہے
پہلے میں دربدر بھٹکتا ہوں
پھر کوئی روح مجھ کو بھاتی ہے
جس طرف خواب جا رہے ہیں مرے
اک پری اس طرف بلاتی ہے
جو بدلتا ہے موسموں کو وہ گیت
مدھر آواز میں وہ گاتی ہے
خود سے مایوس ہونے لگتا ہوں
جب کبھی عاجزی ستاتی ہے
کیا ہماری رضا سے دنیا بھی
آپسی رابطے بڑھاتی ہے
(نعیم رضا بھٹی۔ پاہڑیانوالی)

۔۔۔
غزل


اتار لیں گے بدن کی تھکان چلتا جا
پڑے ہیں دُور زمان و مکان چلتا جا
شجر کا سایہ میسر ضرور ہوتا ہے
کسی سے ہوتے نہیں بدگمان چلتا جا
ازل سے تیری محبت کا ایک مرکز ہے
وہ منتظر ہے سوئے لامکان چلتا جا
ہم اک جہان کو تسخیر کرنے نکلے ہیں
جہاں نوردی نہیں رائگان چلتا جا
زمانہ یادکرے گا دلیر لوگوں کو
بنا کے دشت میں اپنے نشان چلتا جا
گرے پڑے کو سہارا کوئی نہیں دیتا
پکارتا ہے تجھے کاروان چلتا جا
یہی نجات کے رستے کی اک نشانی ہے
خدا کے دین پہ اے نوجوان چلتا جا
(ساجد جاوید ساجد۔گوجرانوالا)

۔۔۔
غزل


اوج پر آئے ہوئے چاند کی اس رات کا رنگ
شہرِ انکار پہ چھاتا ہوا اثبات کا رنگ
میں تو خوشبو کی زباں ایسے سمجھ لیتا ہوں
جیسے پھولوں نے چرایا ہو تری بات کا رنگ
یہ فقط تیرے بدلنے سے کُھلا ہے مجھ پر
کیسے پل بھر میں بدلتا ہے سماوات کا رنگ
ایسے اشکوں کی روانی سے دھلے خال و خد
جیسے برسات میں نکھرا ہو نباتات کا رنگ
تُو نے جانی ہی نہیں طرزِ پزیرائی مری
تُو نے دیکھا ہی نہیں میری مدارات کا رنگ
ایسے چھینا ہے ترے ہجر نے سب میرا جمال
جیسے کھا جائیں مہ و سال عمارات کا رنگ
میرے ماتھے سے رواں سیلِ ندامت نے اسد ؔ
کہیں چھوڑا ہی نہیں کوئی عبادات کا رنگ
(اسد رحمان خان ۔میانوالی)

۔۔۔
غزل


خواب لکّھوں یا کسی خواب کے ارماں لکھوں
داستاں تیری میں کیا دیدۂ حیراں لکھوں
سوزِ فرقت میں ترے ڈوبتے سورج دیکھوں
چاک پھر صحرا نَوردوں کے گریباں لکھوں
زرد موسم میں تجھے آس کا بادل سمجھوں
دشتِ ہجراں میں تجھے سبزۂ درماں لکھوں
تو جو خاموش ہو چھا جائے دو عالم میں سکوت
تو جو بولے تو تجھے شورشِ اِمکاں لکھوں
تو ہی محور ہے مرے دائرۂ ہستی کا
جان ہر خط کی تجھے جلوۂ جاناں لکھوں
میں نے سرمد اُسے لکھّا تو بہت ہے لیکن
جی میں آتا ہے ذرا اور نمایاں لکھوں
(شاہ نواز سرمد۔محمد پور دیوان ،ضلع راجن پور)

۔۔۔
غزل

کبھی رنجشوں، کبھی بندشوں، کبھی گردشوں سے جڑی رہی
مِری سمت آتی بہارِ جاں کئی سازشوں سے جڑی رہی
وہ کمی، وہ حزن و ملال سب، جو عیاں کسی پہ نہیں کیا
وہی ہست و بود کی بے کلی جوستائشوں سے جڑی رہی
ہے عجیب دور ِ جدیدیت، یہ صدی نَمودورِیا کی ہے
ہے یہ زیست بھی کسی فلم سی جو نمائشوں سے جڑی رہی
وہی جیسے خواب و خیال سی، کوئی آرزو ،کوئی چاہ سی
وہ طلب جو دل میں بسی ہوئی، مِری خواہشوں سے جڑی رہی
یہ نگہ سبیلہ! ہے منتظر، کسی چاپ کی، کسی دید کی
یہی بن کے رب سے دعا مِری تو گزارشوں سے جڑی رہی
(سبیلہ انعام صدّیقی۔ کراچی)

۔۔۔
غزل


بعد تیرے دوستا کوئی نہیں
زندگی سے واسطہ کوئی نہیں
میں یہاں سے کب کا اٹھ کے جا چکا
اب یہاں میرے سوا کوئی نہیں
کال پر پوچھا جب اس نے کون ہو
میں نے جھٹ سے کہہ دیا کوئی نہیں
وہ چراغِ دل جلاتے جائیں گے
جن کے ہاتھوں میں دیا کوئی نہیں
اِس جہانِ خواب کی تعبیر میں
کون ہے کیوں ہے پتہ کوئی نہیں
اپنے اندر آ گیا ہوں اور اب
واپسی کا راستہ کوئی نہیں
زندگی بھر سانس لینے کا عذاب
اور جینے کی سزا کوئی نہیں
(احمد اویس۔فیصل آباد)

۔۔۔
غزل


لاکر زہر کا گھونٹ مجھے یار دیجیے
میں مرنا چاہتا ہوں مجھے مار دیجیے
ہم کو تو صرف آپ سے الفت کی آس تھی
کب آپ سے کہا تھا کہ گھر بار دیجیے
کل آپ چھوڑ جائیں گے معلوم ہے ہمیں
جی بھر کے آج ہم کو صنم پیار دیجیے
چھٹکارا پانے آیا ہوں ساجن کی یاد سے
کیا ہوگا ایک جام سے،، دو چار دیجیے
دیکھا نہ زیست سے برا کچھ بھی ارے حمیدؔ
سر سے اتار زیست کا یہ بھار دیجیے
(حمید راہی۔کوٹ مومن، ضلع سرگودھا)

۔۔۔
غزل


سانسوں کے ساتھ تازہ ہوا کا وجود ہے
ماں کے وجود میں ہی خدا کا وجود ہے
اب مجھ کو یار تیری ضرورت نہیں رہی
اب میرے ساتھ میری انا کا وجود ہے
میں اس کی اور وہ ہے کسی کی تلاش میں
اور درمیان صرف دعا کا وجود ہے
وحشت کی شام اور کوئی ناتمام دکھ
وہ گلبدن وجود،جفا کا وجود ہے
وہ ہے سیاہ رات میں جلتا ہوا دیا
میرا وجودکالی گھٹا کا وجود ہے
احمدؔ ہمارے دل کو دکھایا تھا جس نے، وہ
کہتا پھرے گا سب سے، وفا کا وجود ہے
(احمد نیازی۔ لاہور)

۔۔۔
غزل


بڑی لمبی مسافت کی تھکن لپٹی ہے پیروں میں
ابھی کچھ دیر سونے دے ابھی نہ چھیڑ خوابوں میں
کبھی تو پوچھ حالِ دل میری وحشت کے چارہ جو
کبھی تو آ کے مجھ سے مل مری دل سوز راتوں میں
یہاں پر تو ہواؤں کا بھی یارو دم نکلتا ہے
کہاں کوئی ٹھہرتا ہے میرے خستہ مکانوں میں
بہانہ کر کے پڑھنے کا لگا کے کنڈی کمرے کی
کسی کی یاد میں رو ئے چھپا کے منہ کتابوں میں
مری اولاد کے دکھ نے جھکائی ہے کمر میری
سمے سے پہلے ہی اتری ہے چاندی سر کے بالوں میں
(عدنان چوہدری،لونگو۔کھاریاں)

۔۔۔


’’اندھا شاعر اب دیکھنا چاہتا ہے‘‘
لازمی تو نہیں
سانحہ دیکھ کر اس پر نظمیں لکھوں
دلخراشی،
مناظر کی بھرمار ہو
آنسوؤں سے بھری ایک تصویر ہو
خون ہو
شور!!
آزردگی!!
نارسائی میں ڈوبا رہے یہ جہاں
رنگ بے رنگ ہوں
چاہے جیسا بھی ہو
کیوں ہمیشہ میں اوروں پہ نظمیں لکھوں
میں بھی موجود ہوں
تھک گیا ہوں مناظر کی افراط سے
اپنے دکھ سے بڑا کوئی موضوع نہیں
اک نئی نظم لکھنے کی مہلت تو دو
دیکھنے دو مجھے!
(عادل ورد۔ گوجر خان)

۔۔۔
غزل


یزداں سے تھوڑی دور بلایا ہوا تھا میں
منصب پہ اپنے گویا بٹھایا ہوا تھا میں
بے کار کوستے ہیں مجھے یہ مشینی لوگ
دنیا میں ایک سیر کو آیا ہوا تھا میں
پہچان کھو رہے تھے محلات دل فریب
کٹیا میں اک چراغ جلایا ہوا تھا میں
اس غدر آخریں نے اثاثہ گنوا دیا
اک عمر سے کسی کا کمایا ہوا تھا
راز و نیاز کہنے کو محرم بجائے شخص
مٹی کا اک کھلونا بنایا ہوا تھا میں
(شہزاد بزمی۔دولت نگ

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔