کراچی کی فریاد کون سنے گا؟

ایڈیٹوریل  ہفتہ 11 جولائی 2020
کراچی کو مسائلستان پکاراجائے تو بے جا نہ ہوگا،

کراچی کو مسائلستان پکاراجائے تو بے جا نہ ہوگا،

کراچی کو مسائلستان پکاراجائے تو بے جا نہ ہوگا،کیونکہ اس وقت شہرناپرساں کے باسی جس اذیت وکرب سے دوچار ہیں، ان کو الفاظ کا روپ دینا یا بیان کرنا انتہائی مشکل امر ہے۔ بارش برسی، تو شہریوں کے مسائل میں مزید اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، ندی نالوں کی صفائی نہ ہونے کے سبب شہر میں جگہ جگہ پانی جمع ہوجاتا ہے،گٹر ابلنے لگتے ہیں، یہ سب اس تواتر سے ہوتا ہے تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ  اس شہرکا کوئی وارث نہیں ہے، کوئی ضلع، صوبائی اور وفاقی انتظامیہ وجود نہیں رکھتی ہے۔

صرف دو تین روزکی ہلکی پھلکی بارش کے نتیجے میں کرنٹ لگنے کے واقعات میں متعدد قیمتی جانوں کا ضیاع ہوجاتا ہے اور مرے پر سو درے کے مصداق بجلی کی پندرہ سے سولہ گھنٹے کی غیر علانیہ لوڈشیڈنگ شہریوں کا جینا دو بھرکردیتی ہے۔ یہ سب کچھ ہوتا ہے، تو سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کا سلسلہ بھی شدومد سے شروع ہوجاتا ہے، قومی اسمبلی میں اس کی گونج سنائی دیتی ہے،الزامات در الزامات کا سلسلہ درازہوجاتا ہے۔ تحریک انصاف اور اس کے اتحادی جماعتوں کے اراکین اسمبلی کراچی میں مشترکہ دھرنا دیتے ہیں تو ایم کیوایم پاکستان اسلام آباد میں دھرنے دینے کا اعلان کرتی ہے۔

یہ سب ایک طرف،دوسری جانب ایک عام شہری کے روزمرہ معمولات بری طرح متاثر ہوتے ہیں،گھر میں پانی ہے نہ بجلی۔ کورونا کے جو مریض آئسولیٹ ہیں یا دیگر سنگین بیماریوں میں مبتلا ہیں وہ تڑپ رہے ہیں۔کراچی کے عوام کس در پر جائیں؟ کس سے فریاد کریں ان کے مسائل کون حل کرے گا، یہ ایک ایسا چبھتا ہوا سوال ہے جس کا جواب ہماری سیاسی قیادت نے دینا ہے۔ صوبائی اور وفاقی حکومتیں کراچی کے عوام کے مسائل کو حل کرنے کے لیے مشترکہ طور پر ایک لائحہ عمل طے کریں تاکہ شہریوں کو ریلیف مل سکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔