کووڈ 19 کے بعد معیشت بحالی کی راہ پر گامزن ہوسکے گی، اسٹیٹ بینک

کاشف حسین / سلمان صدیقی  جمعـء 31 جولائی 2020
مہنگائی معتدل رہی، معاشی سست روی اور بیروزگاری میں اضافے سے اخراجات کی ضرورت بڑھی، سہ ماہی رپورٹ۔ فوٹو : فائل

مہنگائی معتدل رہی، معاشی سست روی اور بیروزگاری میں اضافے سے اخراجات کی ضرورت بڑھی، سہ ماہی رپورٹ۔ فوٹو : فائل

کراچی: اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے ’پاکستانی معیشت کی کیفیت‘ پر مالی سال 2019-20کی تیسری سہ ماہی رپورٹ جاری کردی ہے۔

اسٹیٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق استحکام کے لیے کیے گئے کامیاب اقدامات نے، جن سے جولائی تا فروری مالی سال 20ء میں معاشی بہتری کو فروغ ملا تھا، کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے بعد مارچ 2020ء کے اواخر اور اس کے بعد آنے والی کساد بازاری کے خلاف کافی تحفظ فراہم کیا۔

خاص طور پر جولائی تا فروری مالی سال 20ء کی مدت کے دوران مالیاتی اور جاری کھاتے کے خساروں پر قابو پانے میں خاصی پیش رفت ہوئی جس کا سبب محاصل کی مضبوط نمو، مارکیٹ کا تعین کردہ ایکسچینج ریٹ اپنانے کی پالیسی اور زر ِمبادلہ کے بفرز میں اضافہ تھا۔

ضروری استحکام کی اس مدت کے بعد برآمدات سمیت حقیقی معیشت میں بحالی کی حوصلہ افزا علامات پائی گئیں۔ اس کے باعث معیشت کسی بیرونی دھچکے سے نمٹنے کے لیے اْس سے بہتر طور پر لیس ہوگئی جتنی بصورت دیگر ہوتی۔

پاکستان کی مبادیات میں کووڈ 19 سے قبل کے عرصے میں آنے والی اِس مضبوطی اور وبا کے پھیلاؤ کے بعد دور اندیشی پر مبنی پالیسی اقدام کی بنا پر پاکستان اس قابل ہوگیا ہے کہ وبا کا زور کم ہونے کے بعد بحالی کے اس راستے پر پھر گامزن ہوسکے گا جس پر چل رہا تھا۔

عالمی معیشت پر کورونا وائرس کے حملے کے بعد دنیا کے دیگر علاقوں کی طرح یہاں بھی حقیقی، مالیاتی اور بیرونی شعبے نمایاں طور پر دباؤ میں آگئے جبکہ کمزور ملکی طلب اور تیل کی پست قیمتوں کے باعث مہنگائی کا منظر نامہ بہتر ہوگیا۔

کووڈ 19 کے دھچکے کی شدت کا اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عبوری تخمینوں کے مطابق 68 سال میں پہلی بار پاکستان کی حقیقی جی ڈی پی نمو مالی سال 20ء میں سکڑ جائے گی۔ تاہم 0.4 فیصد کا سکڑاؤ اتنا شدید نہیں جتنا کووڈ 19 کے باعث دنیا کے بیشتر دیگر علاقوں میں متوقع ہے۔

رپورٹ میں یہ بات زور دے کر کہی گئی ہے کہ جی ڈی پی میں تخمین شدہ سکڑاؤ کی بڑی وجہ صنعتوں اور خدمات کے شعبے کی سرگرمیوں میں کمی ہے۔ بڑے پیمانے کی اشیا سازی (ایل ایس ایم) میں جنوری تا فروری مالی سال 20ء کے دوران بہتری درج کی گئی جس کا بنیادی سبب برآمدی شعبے ہیں جبکہ بہتری میں کچھ حصہ غذائی اشیا اور کھاد کے شعبوں کا تھا۔ تاہم یہ ابتدائی بحالی کووڈ 19 کی بنا پر آنے والے تعطل سے متاثر ہوئی اور ایل ایس ایم کی نمو مارچ میں ماہ بہ ماہ بنیاد پر 22 فیصد گر گئی۔

زراعت کا شعبہ کووڈ 19 سے متاثر نہیں ہوا اور اہم فصلیں پچھلے سال کی نسبت بہت اچھی ہوئیں۔ بہرکیف، ناسازگار موسمی حالات اور کیڑوں اور ٹڈی دَل کے حملوں کے باعث کچھ سالانہ اہداف پورے نہ ہوسکے۔

رپورٹ کے مطابق مالیاتی شعبے میں بھی اسی طرح کا رجحان ہے، جہاں جولائی تا مارچ مالی سال 20 ء کے دوران ابتدائی بجٹ میں مجموعی لحاظ سے فاضل  رقم درج کی گئی جو 2016ء کے بعد سے پہلا موقع ہے۔ تاہم  کورونا وائرس کی وجہ سے تیسری سہ ماہی کے دوران یہ فاضل رقم خسارے میں بدل گئی۔ ایک طرف، لاک ڈاؤن نے محاصل کو بری طرح متاثر کیا اور مارچ 2020 ء میں ایف بی آر کے تمام زمروں کی محاصل کی نمو منفی ہوگئی۔

دوسری طرف معاشی سرگرمیوں میں سست روی اور بے روزگاری میں اضافے کی وجہ سے زیادہ اخراجات کی ضرورت پیدا ہوگئی۔ حکومت نے  مالی سال 20ء کی تیسری سہ ماہی  کے اختتام پر 1.24 ٹریلین روپے کے تحرکاتی پیکیج کا اعلان کیا  جس میں براہ ِراست امداد اور زراعت، تعمیرات، اور برآمدات جیسے شعبوں کے لیے مختص اخراجات شامل ہیں۔

اسٹیٹ بینک کی رپورٹ میں یہ نوٹ کیا گیا ہے کہ ملکی اور عالمی سطح پر کووڈ 19 کے پھیلاؤ کے بعد مہنگائی کی صورتِ حال میں بہتری آئی۔ ملکی طلب میں نمایاں کمی، غذائی مہنگائی میں استحکام اور تیل کی قیمتوں میں تاریخی کمی نے وسط مدت میں مہنگائی کے امکانات کو اعتدال بخشا۔ زری پالیسی کمیٹی نے اس کے جواب میں سرعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے وسط مارچ تا آخر جون 2020ء تک اپنے پانچ اجلاسوں میں پالیسی ریٹ کو مجموعی طور پر 625 بیسس پوائنٹس کم کیا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ  اسٹیٹ بینک کی جانب سے کیے گئے حالیہ سروے میں  شدید غیریقینی سامنے آئی۔ مئی 2020 کے صارف اعتماد سروے میں صارف کے اعتماد اور  متوقع معاشی حالات کے بارے میں غیریقینی  کی سطح مارچ کی نسبت زیادہ تھی۔ اسی طرح  اپریل 2020ء  کے  کاروباری اعتماد سروے  میں بزنس کانفیڈنس سے متعلق  غیریقینی عروج پر تھی۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔