ڈینگی اور زیکا وائرس کو علیحدہ علیحدہ شناخت کرنے کےلیے نینوسینسر تیار

ویب ڈیسک  بدھ 5 اگست 2020
برازیل کے ماہرین نے زیکا اور ڈینگی وائرس شناخت کرنے کےلیے سونے کے نینوذرات والا سینسر تیار کیا ہے۔ (فوٹو: سائنس فار ڈیویلپمنٹ نیٹ ورک)

برازیل کے ماہرین نے زیکا اور ڈینگی وائرس شناخت کرنے کےلیے سونے کے نینوذرات والا سینسر تیار کیا ہے۔ (فوٹو: سائنس فار ڈیویلپمنٹ نیٹ ورک)

ریو ڈی جنیرو: سونے سے بنے ایک بالکل نئے قسم کے نینوسینسر کی بدولت بہت درستگی سے ڈینگی اور زیکا وائرس کو آسانی سے شناخت کیا جاسکتا ہے۔ اس اختراع کی تفصیلات ریسرچ جرنل ’’سائنٹفک رپورٹس‘‘ میں شائع ہوئی ہیں، جن میں بتایا گیا ہے کہ نینوذرات کسی بھی وائرس کو ایٹمی اور سالماتی (مالیکیولر) پیمانے پر شناخت کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

برازیل کی یونیورسٹی آف میناس گیریئس کے سائنسدانوں نے یہ نینوذرات بنائے ہیں، کیونکہ برازیل کو بہ یک وقت ڈینگی اور زیکا کا سامنا ہے۔ یہ دونوں وائرس فلیوی ویرائڈائی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں اور اگر امائنو ایسڈ کی سطح پر دیکھا جائے تو ان دونوں میں 50 فیصد تک مماثلت ہوتی ہے۔ مچھر ہی ان دونوں کی وجہ ہیں اور یہ طویل عرصے تک انسان کو متاثر کرسکتے ہیں۔

نینوسینسر کےلیے مہنگے کیمیکل اور ایلیسا تشخیصی آلات کی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ دونوں وائرسوں سے زیادہ تر غریب ممالک ہیں جہاں وسائل کی شدید قلت ہے۔ ان میں پاکستان بھی شامل ہے جہاں ہرسال کسی موسم کی طرح ڈینگی کا گراف اوپر ہوجاتا ہے۔ اس لیے ان دونوں امراض اور وائرس کی شناخت بہت ضروری ہے۔

صرف شمالی اور جنوبی امریکا میں اس سال ڈینگی کے 18 لاکھ مریض سامنے آئے ہیں جن میں سے چارہزار شدید کیس ہیں جبکہ اموات کی تعداد سات سو ہے۔ تاہم عالمی ادارہ برائے صحت کے مطابق سالانہ 10 سے 40 کروڑ افراد ڈینگی سے متاثر ہوتے ہیں۔

ڈینگی کا مرض اگر اموات کی وجہ بنتا ہے لیکن ذیکا وائرس حاملہ ماؤں کے جنین کو متاثر کرکے نومولود کو ہمیشہ کےلیے معذور بناسکتا ہے۔ اسی لیے ان دونوں امراض کی بروقت اور درست شناخت بہت ضروری ہے۔

تجرباتی طور پر ماہرین نے پہلے چاروں اقسام کے ڈینگی وائرس کی شناخت کےلیے چار طرح کے نینوذرات تخلیق کئے اور ہر ایک کو متعلقہ ڈینگی پروٹین سے ڈھانپا گیا۔ اس کے بعد انہوں نے ایلیسیا سیرم تکنیک سے خون کے نمونوں کا اطلاق کیا۔ ماہرین نے نوٹ کیا کہ چاروں میں سے ہر طرح کی ڈینگی نے سونے کے نینوذرات کی ترتیب کو تبدیل کردیا۔ اس بنا پر ڈینگی کی ہر قسم کی شناخت میں بہت آسانی ہوئی۔

طلائی نینوذرات کا ٹیسٹ روایتی طریقوں کے مقابلے میں بہت حساس ہے اور اس کم خرچ سینسر کو بڑے پیمانے پر تیار کرنا بھی بہت آسان ہے۔ تاہم یہ عمل خودکار انداز میں نہیں ہوتا اور ماہرین کو اس کی خصوصی تربیت فراہم کرنا پڑے گی جس کےلیے ضروری ہدایات مرتب کی جارہی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔