…نہیں چھوڑونگا

ذوالفقار احمد چیمہ  بدھ 5 اگست 2020
zulfiqarcheema55@gmail.com

[email protected]

لوگ پوچھتے ہیں سلیمان خان نے میڈیا سے ملنا کیوں چھوڑ دیا ہے، اس کی وجہ جاننا چا ہتے ہیں تو پور ی کہانی سن لیں۔

مقابلے کا امتحان پاس کر کے سلیمان خان سول سروس میں شامل ہوگیا،والد صاحب واپڈا میں انجینئر تھے اور والدہ ایک عبادت گذار خاتون تھیں ۔ سروس کے آغاز میں سلیمان نے رشوت اور حرام خوری کی بجائے ایمانداری کی راہ اختیار کی۔ وہ مختلف صوبوں اور شہروں میں ایک نیک نام افسر کے طور پر اسسٹنٹ کمشنر اور پھر ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر کے طور پر اپنے فرائض نبھاتا رہا۔وہ ڈپٹی کمشنر بنا تو اس کے ایک سال کے بعد اس کے والدین دنیا سے کوچ کر گئے۔

بڑے بڑے کروڑپتی، ہاؤسنگ کالونیوں کی اجازت لینے کے لیے ڈپٹی کمشنروں کو قیمتی  پلاٹ پیش کرتے تھے۔ پہلے پہل تواس نے ان temptations کا مقابلہ کیا۔ مگر اسکی بیگم اسے مسلسل سمجھوتہ کرنے پر اکسانے لگیں تواسکی قوتِ مزاحمت کمزور ہوتی گئی: پھر ایک بارخواتین کے وفد نے مسز ڈی سی کو ایک بڑے ہوٹل میں پارٹی دی اور وہیںبڑی مہنگی جیولری کا سیٹ تحفے میں دیا ، دودن بعد انھی خواتین نے ڈی سی ہاؤس پہنچ کر ایک فائل مسز ڈی سی کو پکڑا دی کہ اپنے میاں سے دستخط کرا دیں۔ میاں نے کچھ لیت و لال سے کام لیا۔ میرٹ اور انصاف کے الفاظ بھی اس کے منہ سے نکلتے رہے مگر بیگم کے اصرار پر اس نے ہتھیار ڈال دیے۔ فائل پر دستخط کرانے کے بعد مسز سلیمان کو ڈائمنڈ کا ایک اور سیٹ تحفے میں پیش کیا گیا۔

سلیمان خان کا خیال تھا کہ وہ ڈی سی بن کر غیرجانبدار رہیگا اور حکومتی پارٹی اور اپوزیشن کے ممبران کے درمیان توازن قائم رکھے گا۔تین چارمہینے اس نے اسی پالیسی پر عمل کیا۔ حکومتی پارٹی کے ممبروں نے اپنی مرضی کے پٹواری تعینّات کروانا چاہے تو ڈپٹی کمشنر نے انکار کر دیا۔ اُسپر حکومتی پارٹی کے ممبران اکٹھّے ہو کرچیف منسٹرسے ملے اور شکایت کی کہ ’’جناب ہمارا ڈی سی immature ہے ، منتخب نمائیندوں سے خدا واسطے کا بَیر رکھتا ہے ۔ کوئی اچھّا ڈی سی دیں تاکہ ہم آپکو رزلٹ بھی دیں۔پہلے ہم نے صوبائی اسمبلی کی بارہ میں سے سات سیٹیں جیتی تھیں ، آئیندہ دس سیٹیں جیت کر دیں گے‘‘۔

دوسرے روزڈی سی کو تبدیلی کے احکامات موصول ہوگئے اور اسے سیکریٹریٹ میں ایک غیراہم اسامی پر تعینات کر دیا گیا۔ کہاںایکڑوں پر مشتمل ڈی سی ہاؤس، درجنوںنوکر ، گاڑیاں اور اعلیٰ سوشل اسٹیٹس اور اب یہ صورتِ حال کہ ایک کھٹارہ سی گاڑی اور بس ۔ نہ بنگلہ ، نہ ملازم ، نہ کوئی ملاقاتی ، نہ افتتاح نہ دعوت نہ پارٹی۔ سلیمان خان کو بھی محسوس ہوامگر اسکی بیگم تو بہت زیادہ پریشان ہوگئیں اور بات بات پر اپنے میاں کو طعنے دینے لگیں کہ ’’ اَور چلو اصولوں پر ، یہ نوکری ہے یا عذاب ہے‘‘۔ بیگم کے طعنے سُن سُن کر سلیمان کے پاؤں پھسل گئے۔ وہ انصاف اور غیر جانبداری کا کٹھن راستہ چھوڑ کر سمجھوتہ ایکسپریس پر بیٹھنے کے لیے تیا رہوگیا: کئی مہینوں تک بااثر افراد کی خوشامد کرنے اور انھیں اپنی وفاداری کا یقین دلا نے کے بعداسے دوبارہ ایک ضلع کا ڈپٹی کمشنر لگا دیا گیا۔ یہاں اُس نے حکومتی پارٹی کے ممبران کے ساتھ مکمّل تعاون کیا۔

ان کی مرضی کے پٹواری لگائے اورمختلف محکموں میں ان کی مرضی کا اسٹاف تعیّنات کر دیا۔ اب اپوزیشن کے ارکان ڈی سی سے ناخوش اور ناراض رہنے لگے ، ایک دومرتبہ انھوں نے آکر کہا کہ ’’ڈی سی صاحب! آپ نے ہر جگہ ڈاکو قسم کے پٹواری لگادیے ہیں جنہوں نے لوٹ مار کا بازار گرم کررکھا ہے۔

آپ حکومتی پارٹی کے ممبران کے کہنے پر ایسا ظلم کیوں کر رہے ہیں ‘‘۔ ایک رکن نے یہ بھی کہا کہ ’’آپ نے قائداعظمؒ کا سول سرونٹس کے نام خطاب پڑھا ہوگا جس میں انھوں نے سخت تاکید کی تھی کہ سول سرونٹس ہر حال میں غیر جانبدار رہیں ، مگر آپ کے روّیے سے تو لگتا ہے کہ آپ ایک پارٹی کے ذاتی ملازم بن گئے ہیں‘‘۔ ڈی سی جواب میںایک ہی بات کہتا کہ میری ذات پر تو کوئی بد دیانتی کا الزام نہیں لگاتا۔ اپوزیشن والے پھر کہتے کہ جناب صرف پیسے لینا بددیانتی نہیں ہے، بددیانت اہلکاروں کو تحفّظ دینا بھی بددیانتی ہے۔ اس پر ڈی سی آفس میں ہر وقت موجود رہنے والا اسکا اسٹاف افسر intervene کرتا اور ڈی سی کا دفاع کرتے ہوئے کہتا کہ ’’ مجھے اہلکاروں کا پتہ نہیں مگرڈی سی صاحب خود دیانتدار اور نیک نیّت ہیں ‘‘۔ ساتھ ہی ڈی سی اپنی روایتی تقریر کا فقرہ دھراتا کہ ” ’’میں کسی کرپٹ اہلکار کو نہیں چھوڑونگا‘‘۔

سلیمان خان نے تجربے سے خاصا سیکھ لیا تھا کہ کن سے ملنا ہے اور کن سے نہیں ملنا، کن کے کام کرنے ہیں اورکن کو زیادہ اہمیّت دینی ہے، سمجھوتوں کی اسی پالیسی کے تحت اُس نے تمام سفارشی لوگ تعینات کیے ہوئے تھے جنکی وجہ سے پورے ضلعے میں رشوت اور حرام خوری کا کلچر پروان چڑھ رہا تھا۔حکومت کی ہدایات کے مطابق ڈی سی عوامی رابطے کے لیے کھلی کچہریاں لگانے کا بھی پابند تھا ۔ایک کھلی کچہری میں عام آدمی بھی پہنچ گئے ۔نوجوانوں نے محکمہ مال اور میونسپل کمیٹی کے دفاتر میں کھلے عام رشوت کی شکایت کی ، اور ڈی سی کے منہ پر کہا کہ ’’ یہاں کوئی شخص رشوت دیے بغیراپنا جائز کام بھی نہیں کروا سکتا، یہ ہے آپ کی دیانتداری یہ تو صرف ڈرامہ اور فراڈ ہے‘‘۔

اس پرحسبِ روایت اسٹاف افیسر روسٹرم پر آیا اور کہا ’’دیکھیں کچھ بھی ہے مگرڈی سی سلیمان خان صاحب خود ایماندار آدمی ہیں۔ ساتھ ہی ڈی سی نے وہی دعویٰ دھرایا ،’’میں کسی کرپٹ اہلکار کو نہیں چھوڑونگا‘‘  چند خوشامدیوں نے تالیاں بجائیں اور کچہری ختم ہو گئی۔

کچھ عرصے بعد سلیمان خان گریڈ بیس میں پہنچ گیا ۔اب اس کے بااثر حلقوں میں روابط مستحکم ہوچکے تھے۔ لہٰذا چند مہینوں بعد اسے ایک ڈویژن میں کمشنر تعینات کر دیا گیا۔نئی جگہ جا کر تو سلیمان خان نے میرٹ ، انصاف اور غیر جانبداری سے بالکل ہی قطع  تعلّقی اختیار کرلی، تھوڑے ہی عرصے میں شہر کے بدنام لوگ کمشنر کے مصاحبین بن گئے۔آہستہ آہستہ شہر میں باتیں مشہور ہونے لگیں کہ فلاں “دوست ” نے تحفے میں نئی پراڈو دی ہے، کمشنر نے بہن کی شادی کی تو کھانے کاسارا خرچہ ایک دوست نے اُٹھایا۔ گرمیوں میں فیمیلی کے ساتھ یورپ کے دو ہفتے کے ٹور کے اخراجات ایک اور ’’دوست ‘‘ نے اٹھائے تھے۔

ان دوستوں نے شہر اور ڈویژن میں اپنی پسند کے اہلکار تعینات کرا لیے ۔ جو دونوں ہاتھوں سے مال بٹورنے لگے۔ ان میں سے کسی کے خلاف اینٹی کرپشن کا محکمہ انکوائری شروع کرتا یا میڈیا شور مچاتا تو کمشنر ان کا دفاع بھی کرتا اور ان کی سرپرستی بھی کرتا۔حتّٰی کہ اس کا چہیتا اسٹاف آفسر ایک سکینڈل میں ملوّث ہوا تو کمشنر نے لاہور جاکراعلیٰ حکاّم سے ملکر معاملہ رفع دفع کر وادیا۔ اس پر اسٹاف افسر نے لاہور کے بڑے ہوٹل میں بہت بڑی پارٹی کی جس میں کئی وزراء اور اعلیٰ حکومتی شخصیات نے شرکت کی، ایک وزیرنے کمشنر کے کان میں کہا “آپ کی پالیسی کامیاب ہے اسے جاری  رکھیں” ۔ اس نے پوچھا  ” سر کونسی؟” وزیر نے کہا” یہی کہ کچھ لوگ مسلسل یہ کہتے رہیں کہ سلیمان خان خود دیانتدار ہے اور آپ گاہے بہ گاہے یہ کہتے رہیں کہ میں کسی کرپٹ کو نہیں چھوڑونگا”۔ کمشنرمسکرادیا۔

پھر ایک روز کمشنر شہر کے چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کی دعوت پر خطاب کرنے پہنچا۔ وہاں بھی اُس نے نہیں چھوڑونگا کی تکرار کی۔تقریر کے بعد سوال وجواب کا سلسلہ شروع ہوا تو شہر کے مصدّقہ دانشور ایف اے انصاری ( جوجرأت سے بات کرنے کی شہرت رکھتے ہیں)نے کہا ’’ خان صاحب ! کرپشن صرف نوٹ پکڑنے کا نام نہیں ہے۔ اپنے ہاتھ سے کیش نہ لینے والا دیانتدار نہیں بن جاتا ، یہ ایک سوچ ، فکر اور روّئیے کا نام ہے۔

آپ کے روّئیے صاف بتا رہے ہیں کہ آپ کو بد دیانتی سے نفرت نہیں ہے اگر ہوتی تو یہاں کے ایک سابق  ڈی آئی جی کی طرح آپکے دوستوں میں کوئی بددیانت شامل نہ ہوتا اور کسی بدنام اہلکار کوآپ ایک دن کے لیے بھی برداشت نہ کرتے۔ آپ کے قریبی دوستوں میں ایک شخص بھی دیانتدار نہیں پھر بھی آپ اپنے آپ کو ایماندار کہلانے پر مصر ہیں”۔اس پرچند لوگوں نے تالیاں بجائیں مگر زیادہ ترنے کمشنرکی خوشنودی کے لیے انصاری صاحب کو بٹھا دیا۔چند مہینے اسی طرح گزر گئے پھر ایک مہلک وباء نے پورے صوبے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ، صوبائی حکومت نے تمام کمشنرز کو ہدایات دیں کہ میڈیا کے ذریعے حکومت کی طرف سے کیے گئے اقدامات سے عوام کو آگاہ کیا جائے ۔

سلیمان خان نے بھی میڈیا کو بلا لیا اور حکومتی اقدامات کے ساتھ ساتھ اپنی ایمانداری اور نہیں چھوڑونگا کاڈھنڈورا پیٹنا شروع کردیا۔ کچھ صحافیوں نے ہاںمیں ہاں ملائی ، کچھ چپ رہے مگر شہر کا بہادر اور باضمیر صحافی عمر نصیربول پڑا ’’سر! چھوڑ یںآپکی ایمانداری کے غبارے سے ہوا نکل چکی ہے کون نہیں جانتا کہ شہر کے وارداتئے آپکے مشیر ہیں عوام کو لوٹ کر کھا جانے والے آپ کے گھر کھانے کھاتے ہیں ، بندہ اپنے دوستوں سے پہچانا جاتاہے ۔

آپ اپنے دوستوں میں سے کسی ایک ایماندار شخص کا نام بتادیں۔ سب جانتے ہیں کہ ہر وقت آپ کے ساتھ دائیں جانب بیٹھنے والے نے آپ کے لیے نیا گھر بنوایا ہے اور بائیں جانب بیٹھنے والا آپکے فارن ٹورزکا بندوبست کرتاہے، نہیں چھوڑونگا کا ڈرامہ فلاپ ہو چکا ہے ۔ سب جانتے ہیں کہ چند ملازم جو آپ پر تنقید کرتے تھے ان کے خلاف آپ نے انتقامی کاروائیاں کیں مگر اپنے چہیتے اہلکاروں کو ان کی بدنامی اور کرپشن کے باوجود آپ protect کرتے ہیں۔ آپ کرپشن کے ہرگز خلاف نہیں ہیں، آپ تو کرپشن کی سرپرستی کرتے ہیں”۔ اس پر کمشنر کے ٹاؤٹوںنے عمر نصیر سے مائیک چھیننے کی کوشش کی مگر باقی بھی اٹھ کھڑے ہوئے اور انھوں نے یہ کوشش ناکام بنا  د ی۔ کمشنر نے بریفنگ ختم کردی اور اس کے بعد وہ میڈیا سے ناراض ہو گئے اور ملنا چھوڑ دیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔