قولِ محال

امجد اسلام امجد  اتوار 9 اگست 2020
Amjadislam@gmail.com

[email protected]

عارف وقار سے پہلی ملاقات کم و بیش نصف صدی پرانی ہے، سو اُس کی تفصیل کو یاد کرنا اپنی جگہ پر ایک امرِ محال ہے۔

عارف نے بطور پروڈیوسر پی ٹی وی میں اور اس کے بعد بی بی سی اُردو سروس میں جو خدمات انجام دی ہیں اور اس دوران میں پرفارمنس کی جو اعلیٰ سطح برقرار رکھی ہے، اُس کے بہت کم رفیقانِ کار اُس معیار پر پورے اُترتے ہیں۔ اپنے عام کھلنڈرے مزاج کے برعکس کام کے وقت اُس کا دھیان مرحوم کنور آفتاب احمد کی طرح سو فیصد اپنے کام کی طرف اور آنکھیں ماتھے پر ہوتی ہیں۔

لیکن اِس وقت اُس کو یاد کرنے کا تعلق اُس کے فن سے نہیں بلکہ اُس کی طبیعت کے اُس رُخ سے ہے جس میں وہ ہمیشہ نئی اور انوکھی باتوں کی تلاش میں رہتا ہے۔ آج کل بوجوہ ہماری بالمشافہ ملاقاتوں کے درمیان تو مہینوں کا وقفہ آ گیا ہے مگر واٹس ایپ کی معرفت ہفتے میں دو تین بار رابطہ ہو جاتا ہے، اُس کی واٹس ایپ نمبر کی شناخت کے لیے میں نے اُس کے نام کے ساتھ عارف وقار نمبر 2 لکھ رکھا ہے مگر اس سے اُس کے ایک نمبر ہونے میں کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اُس کے ہر میسج میں کوئی نہ کوئی نئی عمدہ اور غیر معمولی بات ہوتی ہے۔

مثال کے طور پر اپنی تازہ تر پوسٹ میں اُس نے انگریزی زبان کی ایک ایسی اصطلاح کا ذکر کیا ہے جو کہ کم از کم میرے لیے بالکل نئی تھی  Paraprosdokians بقول عارف یہ ونسٹن چرچل کی بہت محبوب اصطلاح تھی اور وہ خود بھی اس کا کُھل کر استعمال کرتا تھا۔

عارف نے اس کے معنی کی جو کتابی وضاحت کی ہے وہ کچھ اس طرح سے ہے ’’پیرا پوس ڈوکینز گفتگو یا محاوراتی بیان کا وہ حصہ یا طریقہ ہے جس میں بات کا دوسرا یا آخری نصف حصہ حیرت انگیز اورغیر معمولی طور پر غیر متوقع اور عام طور پر ظریفانہ ہوتا ہے‘‘ میں نے ڈکشنری میں تو اس کے اُردو متبادلات یا معانی نہیں دیکھے مگر مثالوں اور اندازے سے یہ جُگت یا قولِ محال، جسے غالباً انگریزی میں Paradox کہتے ہیں قسم کی کوئی چیز معلوم ہوتی ہے۔

فوری مثال کے لیے میرے ذہن میں امان ا للہ مرحوم کا ایک ڈرامہ آ رہا ہے جس میں وہ اپنے ساتھی سے کہتا ہے کہ میرے ساتھ گھر چلو، میری ماں نے مچھلی پکائی ہے تمہیں کھلوائوں گا۔ دوست اس پر بہت مہمِل سا جواب دیتا ہے کہ یہ میرے لیے ممکن نہیں کیونکہ مچھلی میں کانٹے بہت ہوتے ہیں اس پر امان اللہ جو جواب دیتا ہے وہ غالباً اس اصطلاح کی بھر پور وضاحت کرتا ہے وہ کہتا ہے۔

’’مچھلی میں کانٹے ہوتے ہیں تو تمہیں اس سے کیا، تم نے جُوتے پہن رکھے ہیں‘‘

اب آپ اِسے جگت کہیں یا قولِ محال یا کچھ اور یہ واقعی مزاح کی ایک انوکھی قسم ہے کہ کس طرح ایک سنجیدہ اور مانوس جملہ یک دم ایک نئی اور مزاحیہ شکل اختیار کر لیتا ہے عارف وقار نے مثال کے طور پر جو جملے بھیجے ہیں ،اُن میں سے زیادہ تر کا اصل لطف انگریزی میں آ سکتا ہے مگر میں آپ کی تفریح طبع کے لیے کچھ جملوں کا آزاد ترجمہ کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ اگر معانی پوری طرح واضح نہ ہوں تو اسے میری انگریزی دانی سے زیادہ خود انگریزی زبان کی کمزوری سمجھیئے گا کیونکہ انھوں نے بھی ہماری ز بانوں سے کوئی زیادہ اچھا سلوک نہیں کیا۔ انگریزی میں لفظ will کا ارادے کے اظہار کے علاوہ ایک مطلب وصیت بھی ہوتا ہے، اب یہ جملہ دیکھئے۔

’’جہاں کہیں بھی وِل ہو میں اُس میں شامل ہونا پسند کروں گا‘‘ ۔

’’تمہیں تکلیف پہنچانے کا خیال میری فہرست کے انتہائی آخر میں ہو سکتا ہے مگر بہرحال یہ کہیں نہ کہیں ہے ضرور‘‘

’’یہ طے ہے کہ بجلی آواز سے زیادہ تیزی سے سفر کرتی ہے… شائد اسی لیے کچھ لوگ اُسی وقت تک روشن نظر آتے ہیں جب تک وہ بات نہیں کرتے‘‘

’’اگر میں نے تمہاری بات مان لی ہوتی… تو ہم دونوں غلطی پر ہوتے‘‘

’’اصل میں ہم کبھی بڑے نہیںہوتے… صرف لوگوں کے سامنے ایسا نظر آنے کا ہنر سیکھ لیتے ہیں‘‘

’’کوئی بھی جنگ کبھی یہ فیصلہ نہیںکرتی کہ Right یعنی صحیح کون تھا یہ صرف ہمیں یہ بتاتی ہے Left یعنی بچا کون ہے؟‘‘

’’علم یہ ہے کہ ہم یہ جان لیں کہ ٹماٹر ایک پھل کا نام ہے… جب کہ ’’عقل‘‘ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ ٹماٹر کو پھلوں کے سلاد میں نہیں ڈالنا چاہیے‘‘

’’کسی شخص کے خیال کو چرانا ’’سرقہ‘‘ کہلاتا ہے… مگر بہت سارے اشخاص کے خیالات کی چوری کو ’’تحقیق‘‘ کہا جاتا ہے‘‘

’’میں نے یہ نہیں کہا کہ تم غلطی پر تھے… میں تو صرف تم پر الزام دھر رہا تھا‘‘

’’خلا میں چھلانگ لگانے کے لیے پیرا شوٹ کا ہونا ضروری نہیں لیکن ا گر تم دوسری بار بھی چھلانگ لگانے کا ارادہ رکھتے ہو تب یہ ضروری ہو جاتا ہے‘‘

’’پہلے میں اپنے فیصلے کے بارے میں مطمئن نہیں ہوتا تھا… اب میں اُس کے صحیح ہونے کے بارے میں مشکوک رہتا ہوں‘‘

’’اپنے نشانے کے صحیح ہونے کے سلسلے میں اعتماد کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ پہلے نشانہ لگائو اور جہاں بھی وہ لگے اُسے ہی اپنا ہدف قرار دے دو‘‘

’’صرف گرجا گھرمیں جانے سے تم کرسچینٗ ثابت نہیں ہوسکتے… جس طرح کسی گیراج میں کھڑا رہنے سے تم ’’کار‘‘ نہیں بن جاتے‘‘

’’بے وقوفی کی بات سیکھنے کے لیے عمر کی کوئی قید نہیں ہوتی‘‘

’’مجھے اپنے بزرگوں کی تعظیم کرنا سکھایا گیا ہے… مگر کیا کیا جائے کہ اب اُن میں سے کوئی باقی ہی نہیں بچا‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔