چین ، قومی سوچ کیا ہے ؟

عبد الحمید  جمعـء 25 ستمبر 2020
gfhlb169@gmail.com

[email protected]

مغرب،مشرق سے ابھرتے ہوئے چین کی روز افزوں ترقی سے خائف ہے۔اکثر سوال ہوتا ہے کہ چین اگر دنیا کی سب سے بڑی معیشت اور سب سے طاقتور فوجی قوت بن گیا تو چین کیسی سپر پاور ہوگا۔کیا چین بھی برطانیہ،فرانس،ہالینڈ اور امریکا کی طرح کمزور ملکوں کا استحصال کرے گا۔یہ بہت اہم اور مناسب سوال ہے۔

قومیں اور تہذیبیں بنتی،ابھرتی،بگڑتی اور ڈوبتی رہتی ہیں۔ ہر قوم کے لیے ایک وقت مقرر ہے۔دوام کسی کو بھی نہیں۔ مغربی دنیا میں ابھی بہت جان ہے لیکن یہ بھی عیاں ہے کہ انھیں پہلی والی قوت کا بھرم رکھنے کے لیے مشکلات درپیش ہیں۔مغربی دنیا میں مالیاتی بحران اب آئے دن کی بات ہے۔کبھی یونان،کبھی اٹلی تو کبھی امریکا ان بحرانوں کی زد میں آتے دکھائی دیتے ہیں۔

برطانیہ عظمیٰ اپنی عظمت کھو چکا ہے۔عین اس وقت جب مغربی قوت و ثروت کی کشتی ہچکولے کھا رہی ہے چینی معیشت بہت مضبوط ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ایک وقت تھا اور یہ وقت کوئی ماضی بعید کی بات نہیں کہ بیجنگ کی سڑکوں پر خال خال ہی کوئی کار حرکت میں ہوتی تھی جس طرف بھی نظر جاتی تھی سائیکلوں کا ایک سیلاب دکھائی دیتا تھا لیکن اب چین میں سائیکل میوزیم پیس بنتا جاتا ہے۔ڈنگ ژیاؤ پنگ بہت محتاط طریقے سے اپنے ملک کو آگے بڑھا رہے تھے۔

وہ خاموشی سے اپنا کام جاری رکھے ہوئے تھے اور ان کی کوشش تھی کہ چین کی ترقی اور چینی قیادت کی استعدادِ کار کا دنیا کو صحیح اندازہ نہ ہو تاکہ مغربی دنیا وقت سے پہلے چین کی روز افزوں ترقی سے خائف ہو کر چین کے راستے میں رکاوٹ نہ بن جائے لیکن چین کی موجودہ قیادت بہت حوصلہ مند ثابت ہوئی ہے۔وہ جان چکی ہے کہ چین کے بغیر گلوبلائزیشن نا مکمل ہے۔ چین اپنی اہمیت سے پوری طرح آگاہ ہے۔

مغرب نے بڑی کوتاہی یہ کی ہے کہ اُس نے چین کو جاننے کی کوشش نہیں کی۔مغرب ہمیشہ اس خیال میں رہا کہ چین کی ترقی ایک عارضی عمل ہے،ایک بلبلہ ہے جو بہت جلد پھٹ جائے گا۔مغرب اس زعم میںبھی رہا کہ ماڈرن ہونے کا پیمانہ صرف مغربی دنیا کا تمدن، رہن سہن اور عادات و اطوار ہیں یعنی ماڈرن ہونے کی کسوٹی صرف مغرب ہے اور اگر کوئی مغربی تہذیب و تمدن کو نہیں اپناتا تو وہ کبھی دیرپا ترقی نہیں کر سکتا۔اس کے مقابلے میں چین کبھی مغرب کی طرح نہیں رہا اور غالب امکان یہ ہے کہ آیندہ کبھی مغرب جیسا نہیں ہو گا۔

1920ء کے عشرے سے ہر طرف قومی ریاستوں کا چلن ہے لیکن چین ایک قومی ریاست نہیں ہے۔ پچھلے دو ہزار سال سے زیادہ عرصے میں چین ایک برتر تہذیب کا داعی رہا ہے اور اس کی تہذیب ہی اس کی صحیح شناخت ہے البتہ پچھلے ڈیڑھ سو سال سے چین نے کسی حد تک ایک قومی ریاست کا روپ دھارا ہے۔1840سے لے کر پوری ایک صدی تک مغرب اور خاص کر برطانیہ نے چین کو بہت ذلیل کیا۔ چینی ریاست کے لیے یہ دور ذلت کی صدی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔opium warsکے ذریعے چینی قوم کو خوابِ غفلت کی نیند سلا کر ناکارہ بنانے کی کوشش ہوئی۔

برطانیہ نے بیجنگ پر قبضہ کر کے شاہی محل کو آگ لگا دی۔تمام قیمتی اور نادر اشیاء اٹھا لیں۔ہانگ کانگ پر عملداری قائم کر لی۔ذلت کے اس دور سے چھٹکارا پانے کے لیے چینی تہذیبی ریاست نے قومی ریاست کے خدوخال اپنائے اور ایک جارحانہ روپ دھارا، چینی اپنی تہذیب کے دلدادہ ہیں وہ اپنی ریاست کو تہذیبی ریاست ہی گردانتے ہیں۔ان کا تمدن انھیں کوئی اور راستہ سجھا ہی نہیں سکتا۔

ہانگ کانگ پر برطانوی تسلط ختم ہونے پر مین لینڈ چائنا نے ہانگ کانگ پر اپنا نظام مسلط نہیں کیا۔ چینی قیادت کو اس کا ادراک تھا کہ ایک صدی سے زیادہ برطانوی تسلط میں رہنے کی وجہ سے ہانگ کانگ کا فوری طور پر مین لینڈ چائنا کے ساتھ ہم آہنگ ہونا مشکل ہے۔ چین ایک بڑا اور وسیع ملک ہے سارے چین کا ایک کلچر نہیں ہے ، یہی وجہ ہے کہ چین کے مختلف ریجنوں میں چینی کیمونسٹ قیادت کے تحت مختلف نظام رائج ہیں۔  سارا چین یکساں نظامِ حکومت نہیں رکھتا بلکہ جس طرح ہانگ کانگ کے سلسلے میں بیجنگ سے ہٹ کر ایک دوسرا نظام ہے چین کے کئی اور ریجنوں میں بھی مختلف نظام کارفرما ہیں۔

یہ صرف ایک تہذیبی ریاست میں ہی ممکن ہے۔مغرب نے ہمیشہ یہ خیال کیا کہ چونکہ چین میں جمہوریت نہیں ہے اس لیے جمہوریت کے بغیر چینی نظامِ حکومت کسی وقت بھی دھڑام سے گر جائے گا۔اسی Premiseپر چین کے بارے میں ساری  پلاننگ کی گئی ہے لیکن چینی نظامِ حکومت نیست و نابود نہیں ہوا۔ہر سال لاکھوں چینی ملک سے باہر جاتے ہیں اور واپس چین آ جاتے ہیں جو اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ نظام مضبوط بنیادوں پر استوار ہے اور عوام میں اس کی جڑیں گہری ہیں۔ چینی قیادت یہ سمجھتی ہے کہ1۔ریاست ایک گارڈین ہے اور وہ اپنی سوسائٹی کا آئینہ ہے۔چین کی یہ سوچ کوئی دو ہزار سال سے زیادہ پرانی ہے۔2۔چین میں خاندان بہت اہم ہے اور حکومت نے بھی خاندان کے سربراہ کے طور پر اپنی ذمے داریاں نبھانی ہیں۔

3۔چینی ہر وقت اس بات کو مدِ نظر رکھتے ہیں کہ چین کا دنیا میں ایک مقام ہے۔ چین نے ہمیشہ اپنے آپ کو ایک عالمی اکائی گردانا ہے۔ کم و بیش یہی صورت یورپ کی ہے یورپ نے بھی اپنے آپ کو عالمی اکائی ہی تصور کیا ہے۔جہاں چین اور یورپ میں یہ بات مشترک ہے وہیں یورپ نے باقی ساری دنیا کو غیر تہذیب یافتہ ٹھہرایا ہے اور عیسائیت و مغربی تہذیب سے لیس ہو کر دنیا کو تہذیب سکھانے نکل کھڑا ہوا۔

چین نے البتہ یہ نہیں سوچا کہ ساری دنیا غیر مہذب ہے اور اس نے ساری دنیا کو اپنے کلچر اور تہذیب کے ذریعے بدل ڈالنا ہے۔ ہاںچینی لوگ یہ ضرورسمجھتے ہیں کہ چین ہی روئے زمین پر جنت ہے۔چین کی تہذیب ہی دنیا کی سب سے بہترین تہذیب ہے اس لیے چین سے باہر کیوں دیکھا جائے،کیوں باہر نکلاجائے۔

سوال یہ تھا کہ چین سے کیا توقع رکھی جائے، چین کیسی سپر پاور ہو گی۔پہلی بات تو یہ سمجھ لینی چاہیے کہ چین میں فوجی وردی میں ملبوس افراد یعنی فوجی چینی حکومتی ڈھانچے میں کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتے۔ پچھلی کئی صدیوں کی تاریخ بتاتی ہے کہ چین نے سوائے دو تین مواقعے کے کبھی آف شور حملہ آور نہیں کیا۔چینی اپنی تہذیب و تمدن کے عروج پر بھی مار دھاڑ کرنے والی قوم نہیں رہی۔

قرائن بتاتے ہیں کہ چینی قیادت کے سامنے یہ مقصد کارفرما ہے کہ چینی تہذیب کو دوبارہ سے ایک اثر پذیر غالب تہذیب کے طور پر متعارف کروایا جائے۔چین ساتھ ہی یہ بھی چاہتا ہے کہ وہ اتنا طاقتور ہو جائے کہ کوئی بھی دوسرا ملک اسے اس ذلت سے دوچار نہ کرے جس کا تجربہ انھیں برطانیہ کے ہاتھوں ایک صدی تک ہوا۔

چین کا خواب دنیا کے تمام ممالک کے مقابلے میں سب سے بڑی فوجی قوت بننے یا کیمونزم کا نفاذ کرنا نظر نہیں آتا۔چین صرف اپنی تہذیب کو دنیا کی بہترین تہذیب منوانا چاہتا ہے۔چین کے صدر جناب شی نے 2014 میں یونیسکو سے خطاب کرتے ہوئے چین کے خواب کو ان الفاظ میں ڈھالا تھا۔’’چین کے لوگ اس سعیٔ پیہم میں ہیں کہ وہ چینی تہذیب کو دوبارہ زندہ کر دیں، ہمارا مقصد چینی قوم کا دوبارہ سے ایک عظیم احیا ہے،ہمارا خواب ملک کی خوشحالی، تہذیب کا فروغ اور عوامی مسرت ہے‘‘۔

صدر شی کے یہ الفاظ بتاتے ہیں کہ چینی قوم کی امنگیں کیا ہیں اور کیوں وہ مسلسل ترقی کی راہ پر گامزن رہنا چاہتے ہیں۔اگر ایسا نہ ہوا تو چینی خواب کبھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہو گا۔چینی کیمونسٹ پارٹی اسی کے لیے تگ و دو کر رہی ہے۔ہم کہہ سکتے ہیں کہ چین کی کیمونسٹ پارٹی تہذیب آشناہے۔ کیمونسٹ پارٹی نے نیشنلسٹ ایجنڈے کو روک رکھا ہے ورنہ چین میں اگر جمہوریت آ گئی تو چین ایک جارح قومی ریاست ہو گی۔

22ستمبر سید ابوالاعلیٰ مودودی کی برسی تھی۔علم و فضل میں ان کے پائے کا کمال کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔ ایسی نابغۂ روزگار ہستیاں کہیں صدیوں بعد جلوہ گر ہوتی ہیں۔ان کے درجات کی بلندی کے لیے دعا کریں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔