- ملک بھر میں خواتین ججز کی تعداد 572 ہے، لاء اینڈ جسٹس کمیشن
- 2 سر اور ایک دھڑ والی بہنوں کی امریکی فوجی سے شادی
- وزیراعظم نے سرکاری تقریبات میں پروٹوکول کیلیے سرخ قالین پر پابندی لگادی
- معیشت کی بہتری کیلیے سیاسی و انتظامی دباؤبرداشت نہیں کریں گے، وزیراعظم
- تربت حملے پر بھارت کا بے بنیاد پروپیگنڈا بے نقاب
- جنوبی افریقا میں ایسٹر تقریب میں جانے والی بس پل سے الٹ گئی؛ 45 ہلاکتیں
- پاکستانی ٹیم میں 5 کپتان! مگر کیسے؟
- پختونخوا کابینہ؛ ایک ارب 15 کروڑ روپے کا عید پیکیج منظور
- اسلام آباد ہائیکورٹ نے پی ٹی آئی رہنما کو عمرے پرجانے کی اجازت دے دی
- مشترکہ مفادات کونسل کی تشکیل نو، پہلی بار وزیر خزانہ کی جگہ وزیر خارجہ شامل
- پنجاب گرمی کی لپیٹ میں، آج اور کل گرج چمک کیساتھ بارش کا امکان
- لاہور میں بچے کو زنجیر سے باندھ کر تشدد کرنے کی ویڈیو وائرل، ملزمان گرفتار
- پشاور؛ بس سے 2 ہزار کلو سے زیادہ مضر صحت گوشت و دیگر اشیا برآمد
- وزیراعلیٰ پنجاب نے نوازشریف کسان کارڈ کی منظوری دے دی
- بھارتی فوجی نے کلکتہ ایئرپورٹ پر خود کو گولی مار کر خودکشی کرلی
- چائلڈ میرج اور تعلیم کا حق
- بلوچستان؛ ایف آئی اے کا کریک ڈاؤن، بڑی تعداد میں جعلی ادویات برآمد
- قومی ٹیم کی کپتانی! حتمی فیصلہ آج متوقع
- پی ایس 80 دادو کے ضمنی انتخاب میں پی پی امیدوار بلامقابلہ کامیاب
- کپتان کی تبدیلی کیلئے چیئرمین پی سی بی کی زیر صدارت اہم اجلاس
تتلیوں اور کھلونا ڈرون سے گرائے جانے والے باریک سینسر تیار
واشنگٹن: یونیورسٹی آف واشنگٹن کے سائنس دانوں نے مختلف کاموں کے لیے انتہائی چھوٹے اور کم وزن ڈرون بنائے ہیں جو کسی بھی پتنگے، تتلی اور پرواز کرنے والے کیڑے یا پھر کھلونا ڈرون پر رکھ کر ماحول میں گرائے جاسکتے ہیں۔ یہ سینسر ماحولیاتی تحقیق اور سائنسی تفتیش کا کام کرسکتے ہیں۔
ایسے سینسر کی بدولت ہوا میں آلودگی سے لے کر دیگر معاملات کو نوٹ کیا جاسکتا ہے۔ کسی کیڑے یا ڈرون کے ذریعے سینسر کو پھینکنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ بہت ہلکے پھلکے اور مؤثر ہوں ۔ یہی وجہ ہے کہ ان سینسر کا وزن 90 سے 100 ملی گرام کے درمیان ہے۔
دوسرا چیلنج یہ ہے کہ سینسر کو خاص وقت پر گرانے کے لیے ’گرا دو‘ کی ہدایات دینا بہت ضروری ہے۔ تیسری مشکل یہ ہے کہ سینسر کو گرنے کے بعد محفوظ رکھنا ضروری ہے تاکہ وہ مقررہ وقت تک کام کرتے ہوئے ڈیٹا جمع کرتا رہے۔
ان تمام باتوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے سینسر کو تمام ضروری مراحل سے گزارا گیا ہے۔ جہاں تک سینسر کا سوال ہے تو اس کا وزن جیلی بھری بین کے دسویں حصے کے برابر ہے۔ اسی بنا پر اسے چھوٹے ڈرون یا کیڑے پر رکھا جاسکتا ہے۔
سینسر کو ایک مقناطیسی پِن اور کوائل سے دبا کر رکھا جاتا ہے۔ اسے گرانے کے لیے بلیو ٹوتھ سے پیغام دیا جاتا ہے۔ وائرلیس ہدایت کے ساتھ کوائل میں ہلکا کرنٹ دوڑتا ہے اور پِن کھل جاتی ہے جبکہ مقناطیسی میدان سینسر کو دھکیل کر باہر پھینکتا ہے اور وہ ڈرون یا کیڑے سے الگ ہوجاتا ہے۔
زمین پر گر کر خراب ہونے سے محفوظ رکھنے کے لیے بیٹری کو ایک کنارے پر لگایا گیا ہے جس کی بدولت سینسر گھومتا ہوا دھیرے دھیرے گرتا ہے اور اس کی رفتار 18 کلومیٹر فی گھنٹہ رہ جاتی ہے۔ تجرباتی طور پر اسے 72 فٹ کی بلندی سے گرایا گیا اوراسے کوئی نقصان نہیں پہنچا۔
یہ سینسر درجہ حرارت، نمی اور دیگر ماحولیاتی اثرات نوٹ کرسکتا ہے اور تمام ڈیٹا ایک کلومیٹر دوری تک وصول کیا جاسکتا ہے اور بیٹری سینسر کو ڈھائی سال تک چلانے کے لیے کافی ہے۔
اسے بہت چھوٹے کھلونا ڈرون سے گرایا گیا ہے جو خود 28 ملی میٹر جتنے تھے۔ پھر سینسر کو بڑے پتنگوں پر بھی رکھا گیا جس کا مظاہرہ ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے۔ اس طرح آپ کے ہاتھ میں کئی درجن سینسر سماسکتے ہیں۔ یہ ٹیکنالوجی ایک جگہ پر بہت سارے سینسر بکھیرنے کے لیے بہت کافی ہے۔
دوسرہ جانب ماہرین نے ان سینسر کے مختلف استعمالات پر سوال اٹھائے ہیں کہ کیا یہ زمین پر گر کر قدرتی ماحول کو نقصان پہنچاسکتے ہیں یا پھر عملی میدان میں یہ کس طرح کام کرسکے گا وغیرہ۔ یہی وجہ ہے کہ ماہرین اس پر مزید کام کررہے اور وہ ان سوالات کے جوابات تلاش کرنا چاہتے ہیں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔