تتلیوں اور کھلونا ڈرون سے گرائے جانے والے باریک سینسر تیار

ویب ڈیسک  ہفتہ 10 اکتوبر 2020
امریکی ماہرین نے 90 ملی گرام کا سینسر بنایا ہے جو اڑنے والے کیڑوں اور تتلیوں سے گرایا جاسکتا ہے۔ فوٹو: واشنگٹن یونیورسٹی

امریکی ماہرین نے 90 ملی گرام کا سینسر بنایا ہے جو اڑنے والے کیڑوں اور تتلیوں سے گرایا جاسکتا ہے۔ فوٹو: واشنگٹن یونیورسٹی

 واشنگٹن: یونیورسٹی آف واشنگٹن کے سائنس دانوں نے مختلف کاموں کے لیے انتہائی چھوٹے اور کم وزن ڈرون بنائے ہیں جو کسی بھی پتنگے، تتلی اور پرواز کرنے والے کیڑے یا پھر کھلونا ڈرون پر رکھ کر ماحول میں گرائے جاسکتے ہیں۔ یہ سینسر ماحولیاتی تحقیق اور سائنسی تفتیش کا کام کرسکتے ہیں۔

ایسے سینسر کی بدولت ہوا میں آلودگی سے لے کر دیگر معاملات کو نوٹ کیا جاسکتا ہے۔ کسی کیڑے یا ڈرون کے ذریعے سینسر کو پھینکنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ بہت ہلکے پھلکے اور مؤثر ہوں ۔ یہی وجہ ہے کہ ان سینسر کا وزن 90 سے 100 ملی گرام کے درمیان ہے۔

دوسرا چیلنج یہ ہے کہ سینسر کو خاص وقت پر گرانے کے لیے ’گرا دو‘ کی ہدایات دینا بہت ضروری ہے۔ تیسری مشکل یہ ہے کہ سینسر کو گرنے کے بعد محفوظ رکھنا ضروری ہے تاکہ وہ مقررہ وقت تک کام کرتے ہوئے ڈیٹا جمع کرتا رہے۔

ان تمام باتوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے سینسر کو تمام ضروری مراحل سے گزارا گیا ہے۔ جہاں تک سینسر کا سوال ہے تو اس کا وزن جیلی بھری بین کے دسویں حصے کے برابر ہے۔ اسی بنا پر اسے چھوٹے ڈرون یا کیڑے پر رکھا جاسکتا ہے۔

سینسر کو ایک مقناطیسی پِن اور کوائل سے دبا کر رکھا جاتا ہے۔ اسے گرانے کے لیے بلیو ٹوتھ سے پیغام دیا جاتا ہے۔ وائرلیس ہدایت کے ساتھ کوائل میں ہلکا کرنٹ دوڑتا ہے اور پِن کھل جاتی ہے جبکہ مقناطیسی میدان سینسر کو دھکیل کر باہر پھینکتا ہے اور وہ ڈرون یا کیڑے سے الگ ہوجاتا ہے۔

زمین پر گر کر خراب ہونے سے محفوظ رکھنے کے لیے بیٹری کو ایک کنارے پر لگایا گیا ہے جس کی بدولت سینسر گھومتا ہوا دھیرے دھیرے گرتا ہے اور اس کی رفتار 18 کلومیٹر فی گھنٹہ رہ جاتی ہے۔ تجرباتی طور پر اسے 72 فٹ کی بلندی سے گرایا گیا اوراسے کوئی نقصان نہیں پہنچا۔

یہ سینسر درجہ حرارت، نمی اور دیگر ماحولیاتی اثرات نوٹ کرسکتا ہے اور تمام ڈیٹا ایک کلومیٹر دوری تک وصول کیا جاسکتا ہے اور بیٹری سینسر کو ڈھائی سال تک چلانے کے لیے کافی ہے۔

اسے بہت چھوٹے کھلونا ڈرون سے گرایا گیا ہے جو خود 28 ملی میٹر جتنے تھے۔ پھر سینسر کو بڑے پتنگوں پر بھی رکھا گیا جس کا مظاہرہ ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے۔ اس طرح آپ کے ہاتھ میں کئی درجن سینسر سماسکتے ہیں۔ یہ ٹیکنالوجی ایک جگہ پر بہت سارے سینسر بکھیرنے کے لیے بہت کافی ہے۔

دوسرہ جانب ماہرین نے ان سینسر کے مختلف استعمالات پر سوال اٹھائے ہیں کہ کیا یہ زمین پر گر کر قدرتی ماحول کو نقصان پہنچاسکتے ہیں یا پھر عملی میدان میں یہ کس طرح کام کرسکے گا وغیرہ۔ یہی وجہ ہے کہ ماہرین اس پر مزید کام کررہے اور وہ ان سوالات کے جوابات تلاش کرنا چاہتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔