بی جے پی حکومت ہندو لڑکیوں کی مسلمانوں سے  شادی پرخوفزدہ، سخت قوانین کی منظوری

ویب ڈیسک  منگل 24 نومبر 2020
ہندو انتہا پسند ’’لو جہاد‘‘ کی آڑ میں مسلمانوں کے خلاف جبری تبدیلی مذہب کروانے کا پراپیگنڈا کرررہے ہیں(فوٹو، فائل )

ہندو انتہا پسند ’’لو جہاد‘‘ کی آڑ میں مسلمانوں کے خلاف جبری تبدیلی مذہب کروانے کا پراپیگنڈا کرررہے ہیں(فوٹو، فائل )

لکھنئو: اُتر پردیش میں بی جے پی کی ریاستی حکومت نے ہندو لڑکیوں کو تبدیلی مذہب کے حق سے محروم کرنے اور مسلمانوں کے ساتھ شادی پر قدغن لگانے کے لیے قانون منظور کرلیا ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق یوپی کے وزیر اعلیٰ یوگی ادیتہ ناتھ کی کابینہ نے بظاہر شادی کے لیے تبدیلیٔ مذہب کو روکنے کے لیے ایک قانون منظور کرلیا ہے جس میں 10 سال تک قید کی سزا رکھی گئی ہے۔

حال ہی میں بھارت کی جن ریاستوں میں بی جے پی کی حکومت ہے وہاں تبدیلی مذہب کے حوالے سے قانون سازی کی جارہی ہے۔ ان ریاستوں میں اتر پردیش کے علاوہ ہریانہ اور مدھیہ پردیش بھی شامل ہیں۔

واضح رہے کہ بھارت میں ہندو انتہا پسندوں نے ’’لو جہاد‘‘ کے نام سے مسلمانوں کے خلاف پراپیگنڈا شروع کررکھا ہے جس کے مطابق مسلمان شادی کرنے کی آڑ میں ہندو لڑکیوں کی تبدیلیٔ مذہب کرواتے ہیں۔

قانون کا دفاع کرتے ہوئے یوپی کے ترجمان سدھارت ناتھ سنگھ نے کہا ہے کہ تبدیلیٔ مذہب کی آڑ میں فریب، جھوٹ ، زبردستی اور بددیانتی تکلیف دہ ہے اس لیے اس حوالے سے قانون لانا ضروری ہے۔

یوپی حکومت کے ترجمان کا کہنا ہے کہ شادی کے لیے اگر نابالغ یا شیڈیول کاسٹ سے تعلق رکھنے والی لڑکی سے تبدیلیٔ مذہب  کروایا جائے گا تو سزا 3 سے 10 برس اور جرمانہ 25 ہزار روپے ہوگا۔ اسی طرح اجتماعی سطح پر تبدیلی مذہب کروانے پر 10 سال سزا ور 50 ہزار جرمانہ ہوگا۔

یہ خبر بھی پڑھیے: ہندو لڑکے کے ساتھ شادی سے انکار پر مسلم لڑکی کو زندہ جلا دیا گیا

ترجمان کا کہنا ہے کہ اگر کوئی شادی کے بعد مذہب تبدیل کرنا چاہے تو اس پر کوئی پابندی نہیں ۔ تاہم اس صورت میں ضلعی مجسٹریٹ کو دو ماہ پہلے آگاہ کرنا ہوگا اور اجازت ملنے ہی پر مذہب تبدیل کیا جاسکتے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔