وہ کون تھا؟

اشفاق اللہ جان ڈاگیوال  جمعرات 26 نومبر 2020
ashfaqkhan@express.com.pk

[email protected]

یہ کسی معمولی انسان کا جنازہ نہیں تھا، ایک سچے، سْچے، بہادر اور نڈر عاشقِ رسولﷺ کا سفر آخرت تھا، یہ تحریک لبیک پاکستان کے سربراہ علامہ خادم حسین رضوی کا جنازہ تھا، جنھوں نے اپنے عمل سے دنیا بھر کے مسلمانوں کو یہ بات سمجھا دی کہ جو ہو نہ عشق مصطفیﷺ، تو زندگی فضول ہے۔

محمدﷺ کی غلامی دینِ حق کی شرط اول ہے

اسی میں ہو اگرخامی تو ایماں نامکمل ہے

اسی عشق کا نتیجہ تھا کہ اس مرد قلندر کی نماز جنازہ میں جس طرف نظر دوڑائیں خلقت ہی خلقت دکھائی دے رہی تھی۔ شرکاء کی تعداد کا اندازہ لگانا آسان نہ تھا لیکن جو محتاط اندازے سامنے آئے، ان میں تعداد دس لاکھ کے لگ بھگ بتائی گئی ہے۔

علامہ خادم حسین رضوی کون تھا، کہاں سے آیا اور کہاں گیا؟ جب سے وہ دنیا سے پردہ فرما گئے ہیں تب سے یہی سوال ذہن میں گردش کررہا ہے۔ علامہ خادم حسین رضوی 22جون 1966 کو پنڈی گھیب ضلع اٹک میں پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم اپنے گائوں سے ہی حاصل کی۔ 1974 میں دینی تعلیم کے حصول کے لیے گھر چھوڑا اور جامعہ مسجد عید گاہ جہلم میں داخلہ لیا۔ وہاں حافظ غلام یٰسین آپ کے استاد تھے۔1978 میں قرآن مجید حفظ کر لیا۔ حفظ و تجوید کے بعد درسِ نظامی پڑھنے کے لیے جامع مسجد وزیر خان لاہور میں قاری منظور حسین کے پاس آ گئے۔

انھوں نے آپ کو جامعہ نظامیہ لاہور میں داخل کرا دیا۔ لاہور سے علوم شرعیہ کا آٹھ سال تک فیض حاصل کیا اور1993میں داتا دربار کے قریب پیر مکی مسجد میں محکمہ اوقاف کے خطیب مقرر ہوئے۔  2009میں انھیں ایک خطرناک حادثہ پیش آیا جس میں ان کی جان تو بچ گئی لیکن دونوں ٹانگوں سے معذور ہوگئے۔ وہ برسہا برس لاہور میں رہے لیکن چار سال پہلے تک ان کی شناسائی انتہائی مختصر حلقے تک محدود تھی۔ جب ممتاز قادری پر مقدمہ بنا اور انھیں سزائے موت سنائی گئی، اس وقت علامہ خادم حسین رضوی ایک دم منظر نامے پر نمودار ہوئے اور ممتاز قادری رہائی تحریک کے محرک اور سرپرست اعلیٰ بنے۔

انھوں نے جس جرات مندانہ انداز میں اس تحریک کو آگے بڑھایا، اس نے ان کی عوامی مقبولیت کا گراف آسمان تک پہنچا دیا، گو اس راستے پر چلتے ہوئے انھیں اپنی سرکاری نوکری سے بھی ہاتھ دھونا پڑا لیکن اس معذور عالم دین کے پایۂ استقلال میں لغزش نہ آئی کیونکہ وہ تو شاہراہ عشق مصطفی پر گامزن تھے۔

علامہ خادم حسین رضوی تحریک فدائیان ختم نبوت کے امیر رہے۔ تحریک لبیک یا رسول اللہ کے سرپرست اعلیٰ رہے۔ بعد ازاں ڈاکٹر اشرف آصف جلالی سے اختلاف کی وجہ سے اپنی الگ تنظیم’’تحریک لبیک پاکستان‘‘ بنا لی۔ انھوں نے بہت جلد اپنے جرات مندانہ و بے لچک بیانات سے دینی حلقوں میں اپنی جگہ بنائی۔ ان پر 2016 میں توہین مذہب کے قانون کے حق میں ریلی نکالنے پر لاٹھی چارج کیا گیا اور انھیں گرفتار کرکے جیل بھیج دیا گیا تھا۔ حکومت نے انھیں فورتھ شیڈول میں رکھا ہوا تھا، ان پر یہ پابندی عائد تھی کہ بنا اجازت نقل و حرکت نہیں کرسکتے۔

2017 میں ایک پارلیمانی بل میں سے ختم نبوت کا حلف نامہ نکال دیا گیا جس پر سب سے سخت رد عمل علامہ خادم حسین رضوی ہی کی طرف سے آیا، انھوں نے نومبر 2017 میں فیض آباد انٹرچینج پر دھرنا دے دیا۔ 25نومبر کی صبح پولیس اور رینجرز نے انھیں طاقت کے بل بوتے پر اٹھانے کی کوشش کی اور اس کے لیے ایک بڑا آپریشن کرنا پڑا، جس میں ان کے صاحبزادوں سمیت کئی افراد زخمی ہوئے، مبینہ طور پر اس آپریشن میں پولیس نے 12 ہزار آنسو گیس کے شیل پھینکے اور 8 لوگ جاں بحق بھی ہوئے۔

واقعے کے بعد ملک گیر احتجاج شروع ہو گیا، اس احتجاج کے نتیجے میں اس وقت کے وزیر قانون شاہد حامد کو استعفیٰ  دینا پڑا۔ ان کے اس احتجاج میں مسلمانوں کے تمام مسالک کے لوگ حضور نبی اکرمﷺ کی ختم نبوت کے تحفظ کے لیے ان کے شانہ بشانہ کھڑے تھے۔ لوگ ان کی سچائی، اخلاص، جرات اور عشق مصطفیﷺ کو دیکھ کر ان سے دیوانہ وار جڑتے چلے گئے۔ وہ اس مقام پر پہنچ چکے تھے جہاں وہ صرف ایک مکتب فکر کے نمائندے نہیں تھے بلکہ عشاقانِ مصطفی ﷺ کے نمائندے بن گئے تھے۔

عشاقانِ مصطفیﷺ کی محبت انھیں کوچۂ سیاست میں بھی کھینچ لائی، 2017 میں این اے 120 لاہور کے ضمنی انتخاب میں پہلی بار سیاسی منظر نامے پر نمودار ہوئے اورسات ہزار ووٹ حاصل کرکے سب کو حیرت میں ڈال دیا۔این اے 4، پشاور کے ضمنی الیکشن میں تقریباً دس ہزار ووٹ حاصل کیے۔ بعد ازاں لودھراں کے الیکشن میں بھی ان کی تنظیم کو گیارہ ہزار کے قریب ووٹ پڑے۔

علامہ خادم حسین رضوی نے باقاعدہ سیاست میں حصہ لینے کی غرض سے 26جولائی 2017 کو الیکشن کمیشن آف پاکستان میں اپنی جماعت رجسٹرڈ کرالی اور 2018 کا الیکشن کرین کے انتخابی نشان پر لڑا، اس الیکشن میں انھیں قومی اسمبلی کی کوئی نشست تو نہ مل سکی البتہ 22لاکھ ووٹوں نے سیاسی مبصرین کو حیران کردیا۔

یہ ایک نوزائیدہ جماعت کا بہت بڑا سرپرائز تھا، حقیقت یہ ہے کہ علامہ خادم حسین رضوی کو ختم نبوت اور ناموس رسالت کے نام پر ووٹ ملا۔ 2018میں جب ہالینڈ نے حضورﷺ کے خاکوں کی نمائش کی گستاخی کی تو آپ نے دوبارہ لاہور تا اسلام آباد مارچ کیا اور دھرنا دیا جس میں ہزاروں لوگوں نے عشق مصطفیﷺ کا عملی اظہار کیا۔ توہین رسالت کے ایک کیس میں میں مجرم کو  رہائی کا پروانہ تھما دیا گیا تو ایک بار پھرعلامہ خادم حسین رضوی کا شدید ردِ عمل سامنے آیا۔

اس بار تحریک لبیک کے کارکنوں نے بھی تشدد کا راستہ اختیار کیا، سیکڑوں گاڑیوں کو آگ لگا دی، جس کے نتیجے میں علامہ خادم حسین رضوی اور ان کی تنظیم کے عہدہ داروں اور معاونین کو گرفتار کر لیا گیا۔ علامہ خادم حسین رضوی دہشت گردی کے الزام میں لاہور پولیس کی حراست میں رہے۔

مئی 2019 کو انھیں ضمانت پر رہائی ملی۔ چند ماہ قبل ملک کے مختلف شہروں میں بعض توہین آمیز تقاریر سامنے آئیں تو اس موقع پر بھی علامہ خادم حسین رضوی نے آگے بڑھ کر دفاع ناموس صحابہؓ کا علم تھاما اور مضبوط استدلال کے ساتھ اس محاذ پر بھی ڈٹے رہے۔

فرانس کے صدر نے جب توہین آمیز خاکوں کی اشاعت پر بے بسی کا اظہار کیا اور دنیا بھر کے مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی تو علامہ خادم حسین رضوی نے ایک بار پھر سخت سردی میں دھرنا دے دیا، یہ ان کی زندگی کا آخری دھرنا ثابت ہوا۔ علامہ خادم رضوی جانتے تھے کہ انھیں 103 بخار ہے، سانس لینے میں دشواری آرہی ہے۔ وہ جانتے تھے کہ اسلام آباد کی ٹھٹھرتی راتیں اس بخار میں جان لیوا ہو سکتی ہیں لیکن وہ مرد قلندر تو ٹوٹی ٹانگوں کے باوجود ان باتوں سے بے نیاز آگے بڑھتے جارہے تھے کیونکہ وہ تو کب سے اس جان کا سودا محمد عربیﷺ سے کرچکے تھے۔ آخری چند سانسیں بھی اسی محبوبﷺ کے عشق میں گزار گئے۔

وہ جانے سے پہلے منوا گئے ’’میرا نبی پھر میرا نبی ہے‘‘

وہ سارے عالم کو سنا گیا کہ نبیﷺ سے محبت جان، مال، اولاد ہر شے سے بڑھ کر ہوتی ہے، اگر ایسا نہ ہو تو ایمان مکمل نہیں ہوسکتا۔ اس صدی کے ایمان سوز، گمراہ کن ماحول میں عشق بلالی، روح رومی، جذبہ سعدی، کیف اقبالی، سوز جامی لیے، جانے وہ کہاں سے آیا اور خوابیدہ و غافل قوم کو عشق رسول اللہﷺ کی اذانوں سے جگایا اور پھر یکدم کہیں چل دیا۔

میں حیرت میں غلطاں و پیچاں

یہ کھڑا سوچ رہا ہوں

وہ کون تھا؟ وہ کیا تھا؟

وہ عشق تھا وہ سوز تھا

وہ کہاں ملا وہ کہاں گیا؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔