جہانگیر ترین کی حکمت عملی

مزمل سہروردی  جمعرات 26 نومبر 2020
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

جہانگیر ترین کو وطن واپس آئے کافی دن ہو گئے ہیں۔ بظاہر وطن واپسی کے بعد سے وہ اب تک خاموش ہیں۔ ان کی کوئی بھی سرگرمی میڈیا میں نہیں آ رہی۔ لیکن حقیقت میں وہ خاموش نہیں ہیں بلکہ متحرک ہیں۔ انھوں نے آف دی ریکارڈ میڈیا کے لوگوں سے ملاقات بھی کی ہے جس میں اپنا موقف بیان کیا ہے۔

اطلاعات یہی ہیں کہ آف دی ریکارڈ ہونے کی وجہ سے تاحال ان کی باتیں منظرعام پر نہیں آ رہی ہیں۔ تا ہم ان کی وطن واپسی کے حوالے سے تحریک انصاف کے اندر ابہام بھی موجود ہے۔ لگتا ہے وہ اس ابہام کو خوب انجوائے کر رہے ہیں۔

جہانگیر ترین کی کئی ماہ بعد لندن سے اچانک وطن واپسی کے بعد تحریک انصاف کے اندر ایک رائے تو یہ موجود تھی کہ وہ ’’ صلح ‘‘کے بعد آئے ہیں۔ ان کے جانے پر بھی سب حیران تھے ۔ وہ تو بعد میں کہانی باہر آئی کہ وہ کیسے اور کیوں لندن  گئے۔ لیکن ان کی واپسی لندن جانے سے زیادہ حیران کن ہے۔ ایک سوال سب کے ذہن میں تھا کہ کیا ناراضگیاں ختم ہو گئی ہیں۔

اسی لیے جب وہ وطن واپس آئے تو تحریک انصاف کے رہنماؤں نے انھیں خوش آمدید کے پیغامات بھی بھیجے۔ میں نے ایسے ہی ایک پیغام بھیجنے والے لیڈر سے پوچھا کہ جتنے دن جہانگیر ترین لندن رہے ، تم نے کوئی بات کی؟ اس نے جواب دیا، نہیں۔ تب میں نے سوال کہ اب کیوں پیغام بھیجا ہے۔ اس نے کہا کہ اگر جہانگر ترین گیم میں واپس آ رہے ہیں تو تعلقات بحال کرنا لازمی ہے۔ میں نے اگلا سوال کیا کہ اگر دوبڑوں کے درمیان صلح نہیں ہوئی تو پھر۔ اس نے جواب دیا، چند دن میں بات واضح ہو جائے گی۔ ابھی بات خوش آمدید کے پیغام سے آگے نہیں بڑھاؤں گا۔ اس لیے جہانگیر ترین کو وطن واپسی پر خوش آمدید کے جتنے پیغام آئے ہوںگے، ان میں سے رابطہ کرنے والے لوگوں کی تعداد یقینا کم ہو گی۔

جہانگیرترین جتنے دن لندن میں رہے، ان کے اور شریف خاندان کے درمیان صلح کی  افواہیں بھی اٹھتی رہیں۔ جہانگیر ترین نے ان خبروں کی تردید بھی کی۔ لیکن پھربعض تجزیہ نگاروں میں یہ رائے مضبوط رہی کہ اگر حکومت اور ان کے درمیان معاملات پوائنٹ آف نو ریٹرن تک پہنچ گئے تو ان کا تحریک انصاف میں کوئی مستقبل نہیں ہے۔ ایسے میں ان کے پاس شریف فیملی والی آپشن بھی موجود ہے۔

دوسری صورت میں انھیں وقتی طور پر سیاست سے دوری اختیار کرنا ہو گی۔ پنجاب کی سیاست میں ان کے پاس آپشنز کم ہیں۔ جہانگیر ترین، وزیراعظم عمران خان کو سیاسی طور پر چیلنج نہیں کرنا چاہتے، شاید حالات بھی ایسا کرنے کی اجازت نہ دیں۔  یہ سیاسی تھیوری بھی سامنے آئی ہے کہ جہانگیر ترین اور عمران خان کے درمیان  سب کچھ اچھا اور بہترین ہے۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ ابھی جہانگیر ترین اپنے خلاف تمام مقدمات اور الزامات کا سامنا کریں گے اور عدالتوں سے کلین چٹ حاصل کریں گے۔

کلین چٹ لینے کے بعد ان کی اور وزیراعظم عمران خان کی ملاقات ہو گی۔ یوں جہانگیر ترین دوبارہ تحریک انصاف میں ویسے ہی متحرک ہو جائیں گے جیسے پہلے تھے، یعنی ان کی پہلے والی پوزیشن بحال ہو جائے گی۔ ادھر وطن واپسی کے بعد ایف آئی اے نے ایک نیا مقدمہ درج کر لیا۔ اس نے سب کو حیران بھی کیا، چہ مگوئیاں ہورہی ہیں کہ اگر کلین چٹ دینی ہے تو پھر نئے مقدمہ کا اندراج کیوں؟ تمام انکوائریاں بھی ایف آئی اے کو ہی دی گئی ہیں۔ اپوزیشن کا الزام ہے کہ اگر یہ انکوائریاں ان کے کسی رہنما کے خلاف ہوتیں تو نیب کو دی جاتیں۔ بہرحال دیکھتے ہیں کہ آگے کیا کیا ہوتا ہے۔

تحریک انصاف بھی مکمل خاموش نظر آ رہی ہے۔ کوئی بیان نہیں دیا جا رہا ہے۔ یہ خاموشی معنی خیز ہے۔ بہرحال شاید اس موقع پر خاموشی رکھنا ہی مناسب سمجھا گیا ہے۔ دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ اپوزیشن نے بھی جہانگیر ترین پر نرم ہاتھ رکھا ہوا ہے ورنہ ان کی وطن واپسی پر اپوزیشن کو تو شور مچا دینا چاہیے تھا کہ این آر او ہو گیا ہے۔ لیکن اپوزیشن کی خاموشی بھی معنی خیز ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ سب ہوا کا رخ دیکھ رہے ہیں۔ شاید اسی لیے سب سیاسی پارٹیاںجہانگیر ترین سے دوست جیسا رویہ رکھ رہی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔