قوت محرکہ

آفتاب احمد خانزادہ  بدھ 25 دسمبر 2013

انیسو یں صدی کے جرمن تاریخ دان لیو پو لڈوان رینکے نے اپنی تصنیف میں ماضی کو طاقت کی تاریخ قراردیا۔ طاقت بنیادی طور پر وہی قوت محرکہ ہے جس کی بات چارلس ڈارون اور کارل مارکس نے کی ایک نے اس کو حیاتیات میں جب کہ دوسرے نے اس کو معاشیات میں کارفرما دیکھا۔ نطشے کہتا ہے فرد ہمیشہ طاقت کا طلبگار ہوتا ہے۔ ہر دور نے طاقت کی سیاست کے مضمرات دیکھے ہیں ۔’’اقتدار کی ہوس‘‘ ٹیکی ٹس لکھتاہے تمام جذبوں سے زیادہ شدید ہے یہ ایک ایسی بھوک ہے جس کی تسکین کبھی نہیں ہوتی انصاف طاقتور کی صوابدید ہے کمزور ریاستیں، جارحیت کو دعوت دیتی ہیں یہ اصول اگر چہ انتہائی مکروہ ہے لیکن دنیا کے واقعات کو اکثر و بیشتر اسی نے جنم دیا ہے یہ تصور کہ طاقت کو انصاف پر فو قیت حاصل ہے یورپ کے بہت سے مفکر ین کو پسند نہ آیا ان سب کا اصرار تھاکہ انسانی افعا ل چاہے سیاسی ہوں، طاقت نہیں بلکہ اخلاقیات کے زیراثر ہونے چاہیں ان سب نے طاقت کی برتری کی مذمت کی انھوں نے کہا طاقت (اختیار بدعنوانی کا پیش خیمہ ہے اور مطلق اختیار مطلق بدعنوانی کو جنم دیتا ہے) طاقت ایک زہر ہے تاریخ بتاتی ہے کہ یہ زہر مسو لینی، ہٹلر، اسٹالن اور ماضی قریب کے دیگر آمروں کی زندگیوں نے اُگلا اور لاکھوں انسانوں کو سنگدلی سے موت کی واد ی میں اتار دیا۔

ہمارا ماضی بھی طاقت کی تاریخ ہے ہم نے بھی آمروں کی طاقت کی طلبگار ی کی خواہش مندی کے ہاتھوں بہت زخم اٹھائے ہیں آج ہم جن عذابوں سے دوچار ہیں ان کے خالق وہی طاقت کے طلبگار ہی ہیں آئیے! ہم ذرا تاریخ کے سفر میں ماضی قریب میں جھانکتے ہیں ایوب خان نے 8اکتوبر 1958ء کو ریڈیو پاکستان کراچی سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کی تاریخ کا پہلا مارشل لا نافذ کیا۔ ایوب خان کی اس تقریر میں ہمیں اس دور کی سو چ کے تمام بنیادی پہلو ملتے ہیں ان پہلوؤ ں کو بعد ازاں با ر بار دہرایا گیا اور ایوب خان کے بعد آنیوالے تمام آمروں نے اس سے ملتی جلتی تقاریر کے ذریعے آمرانہ دورکا آغاز کیا۔ اس تقریر کے کلیدی نکات یہ تھے پاکستان کی بقا خطرے میں ہے پاکستان اندرونی و بیرونی خطرات سے دوچار ہے لیکن اس کے باوجود خود غرض اور مفاد پرست سیاست دانوں کو کوئی پرواہ نہیں ہے وہ ملک کو دونوں ہاتھوںسے بے دردی سے لوٹ رہے ہیں اور قیمتی وقت لڑائی جھگڑوں میں ضایع کر رہے ہیں۔ پاکستان کی عسکری قیادت جو کہ ملک کی صحیح وفا دار ہے کچھ دیر تک تویہ تماشہ تحمل سے دیکھتی رہی لیکن بالا خر یہ ملک کو تبا ہ ہوتے نہ دیکھ سکی اور ہمیں یہ سخت قدم لینا پڑا اور نام نہاد جمہوری نظام کو ختم کر کے مارشل لا کا نفاذ کر نا پڑا۔

ہم نے یہ قدم بادل نخواستہ اٹھایا کیونکہ ہم صدق دل سے چاہتے تھے کہ یہ نظام چلے مگر ہم مایوس ہو کر حکومت کو بر طرف کرنے پر مجبور ہو گئے لوگ سیاستدانوں سے تنگ آ چکے ہیں ہم ایسی جمہوریت لے کر آئینگے جو لوگ سمجھ سکتے ہوں اور جو لوگوں کے لیے کا رآمد ثابت ہو عوام ہماری حمایت کریں ۔ پاکستان کے عوام 66 سال میں ایسے ہی الفاظ سننے کے عادی ہیں اور ان الفاظ سے بیحد مانوس ہو چکے ہیں یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ ہی تقریر 1977ء میں ضیا ء الحق اور پھر 1999ء میں پرویز مشرف نے کی بنیادی نکات یہی تھے۔ الفا ظ کا رد و بدل ضرور ہو سکتا ہے مگر ایوب خان کے الفاظ کی بازگشت کئی دہائیوں تک ملک میں سنائی دی ۔ ایسا لگتا ہے کچھ نہیں بدلا گو یا 1958ء سے 1999ء تک تاریخ منجمد ہو گئی ہو وقت رک گیا ہو اور ڈرامے کا سین نہ بدلا ہو صرف کرداروں کے چہرے بدلتے رہے ہوں۔

معلوم ہوتاہے کہ پاکستان کوئی ٹریڈ مل ہے جس پر آپ خواہ کتنا ہی کیوں نہ چل لیں آپ وہیں رہتے ہیں پاکستان کے عوام آمروں کی طاقت کی خواہشات کے ساتھ ساتھ کچھ سیاستدانوں کی طاقت کی خواہشات کے ہاتھوں بھی زخم آلودہ ہیں طاقت کی خواہشمندی ایک ذہنی بیماری ہے یہ بیماری احساس محرومی یا کمتری سے جنم لیتی ہے اس بیماری میں مبتلا انتہائی خطر ناک اور زہریلا ہو جاتا ہے جب کہ نارمل آدمی طاقت (اختیارات) اپنی ذات میں جمع کرنے کے بجائے اس کی تقسیم پر یقین رکھتا ہے کیونکہ طاقت (اختیارات) کے اصل مالک عوام ہوتے ہیں اور فرد عوام کا ہی ایک جزو ہے جب عوام طاقتور ہوتے ہیں تو ملک اور اس کے تمام ادارے خود بخو د طاقتور ہو جاتے ہیں اور جب عوام کمزور اور لاغر ہوتے ہیں تو بظاہر طاقتور نظر آنیوالی ریاست اور اس کے ادارے حقیقتاً انتہائی کمزور ہوتے ہیں۔ دنیا میں ایک اور طاقت بھی ہے جس نے آج خود کو تلوار اور طاقت سے زیادہ مو ثر ثابت کیاہے انجیل کہتی ہے ابتداء میں صرف کلام تھا روم نے پہلے یورپ کو تلوار سے فتح کیا لیکن پھر زیادہ وسعت سے حضرت عیسیٰ کے کلام کے ذریعے۔ حضرت محمدﷺ، حضرت عیسیٰ علیہ السلام، لوتھر، مارکس کے پاس کو ئی لشکر نہیں تھا کوئی خزانہ نہیں تھا لیکن ان کے لفظوں (نظریات) نے تاریخ بدل کر رکھ دی۔ آج (حال) لفظوں (نظریا ت) کی طاقت کی صد ی ہے۔

لفظو ں (نظریات)کی طاقت نے آج وہ کچھ کر دکھایا ہے جسے ماضی میں طاقت نے بر باد کر ڈالا تھا اسی طاقت کی وجہ سے انسان نے اپنی تباہ شدہ زندگیوں میں ایسی بے زبان شجاعت کا ظہور دیکھا ہے جو تشدد کرنیوالی شیطانیت کو غارتگرد تشدد کو اور بے مقصد اوچھے پن کو اپنی خاموشی سے للکار تی ہے۔ سقراط نے کہا ہے ایسی زندگی جس کا جائز ہ نہیں لیاگیا رہنے کے قابل نہیں ہوتی۔ دنیا بھر میں نئی صبح کا آغاز ہو چکا ہے نفرت، تعصب، دوسروں کو کمتر سمجھنے کی تمام دیواریں گرا د ی گئیں ہیں۔ انسان اپنے تلخ ماضی کو بھلا کر محبت کے اجالے میں ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر آگے بڑھ رہا ہے انسانوں کے اصل دشمن، جہالت، بیماریوں، نفرتوں، تعصب، انتہاپسند ی، رجعت اور قدامت پسندی کے خلاف جنگ میں مصروف ہے جب کہ دوسری طرف جہالت، نفرتوں، تعصب، طاقت کی خواہش، رجعت و قدامت پرستی کے مردوں کو دفن کرنے کے بجائے ہم انھیں زندہ کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ آئیں ہم مل جل کر ایسے مستقبل کی تعمیر کریں جو ہمارے ارفع خوابوں جیسا عظیم ہو آئیے ہم Terentius (قبل مسیح کے مشہور ڈرامہ نگار ، کے الفاظ سے استفادہ کرتے ہیں ’’آدمی، انسان ہونے کے ناتے جو کچھ انسانیت کو درپیش ہے اس سے پہلو تہی نہیں کر سکتا ‘‘ یاداشت کے بغیر ہمارا وجود با نجھ اور تاریک ہو جاتا ہے قید کی اس کوٹھر ی کی طرح جہاں روشنی بھی نہیں پہنچ پاتی۔

کسی مقبرے کی طرح جو زندگی کو مسترد کرتا ہے جس طرح آدمی خوابوں کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔ اسی طرح وہ امید کے بغیر بھی نہیں رہ سکتا اگر خواب ماضی کی یاد دلاتے ہیں تو امید مستقبل کو طلب کرتی ہے۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارا مستقبل ماضی کے مسترد کرنے کی بنیاد پر بنے گا یہ دونوں ایک دوسرے کے لیے مو زوں نہیں ماضی کا مقابل مستقبل نہیں بلکہ ماضی کی غیر موجودگی ہو تا ہے۔ مستقبل کا مقابل ماضی نہیں بلکہ ماضی کی غیر موجودگی ہوتا ہے بلاشبہ ہم ماضی کو بھلانے کی کوشش کر سکتے ہیں کیا انسان کے لیے یہ فطری نہیں کہ جو کچھ اس کو دکھ پہنچائے یا اسے شرمندہ کرے وہ اس کو دبائے ۔ تاریخ ہر عہد کے ذہن کی عکاسی و نمایندگی کرتی ہے آج دنیا میں یہی دونوں طاقتیں یعنی تلوار اور الفاظ (نظریات) ایک دوسرے کے خلاف بر سر پیکار ہیں دنیا کے ساتھ ساتھ ہمیں بھی اس جنگ کا سامنا ہے نپو لین کے ہاتھوں یورپ کی بڑی طاقتوں میں سے صرف انگلستان تباہی سے بچ سکا۔ سمندر جو نپولین کے لیے ایک معمہ ہوتا تھا س کے اور انگلستان کے درمیان حائل تھا انگلستان کو سمندر نے بچا لیا سمندر سے ملے ہوئے تحفظ نے انگلستان کو عظیم اور دشمن سے بے نیاز بنا دیا۔ نپو لین کی مہم جوئی کے آغاز ہی میں نیلسن نے جنگ نیل میں نپولین کا بحری بیڑہ تباہ کر دیا تھا 21 اکتو بر 1805ء کو نیلسن نے ایک اور بحری تصادم میں اسپین کے جنوبی ساحل کے قریب اور کیپ ٹریفلگر کے سامنے فرانس اور اسپین کے مشترکہ بحری بیڑے کو تباہی سے دو چار کیا اس بحری جنگ سے کچھ دیر پہلے نیلسن نے اپنے بحری بیڑے کے عملہ کو مشہور پیغام دیا تھا کہ ’’انگلستان توقع کرتا ہے کہ ہر شخص اپنا فرض ادا کریگا‘‘ نیلسن کا وہی مشہور پیغام آج پاکستانیوں کے لیے ہے کہ ’’پاکستان توقع کرتا ہے کہ ہر شخص اپنا فر ض ادا کریگا‘‘ اور وہ طاقت کے بجائے الفاظ (نظریات) کی طاقت پر یقین رکھنے والوں کاساتھ دے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔