- پی آئی اے کا یورپی فلائٹ آپریشن کیلیے پیرس کو حب بنانے کا فیصلہ
- بیرون ملک ملازمت کی آڑ میں انسانی اسمگلنگ گینگ سرغنہ سمیت 4 ملزمان گرفتار
- پاکستان کےمیزائل پروگرام میں معاونت کا الزام، امریکا نے4 کمپنیوں پرپابندی لگا دی
- جرائم کی شرح میں اضافہ اور اداروں کی کارکردگی؟
- ضمنی انتخابات میں عوام کی سہولت کیلیے مانیٹرنگ اینڈ کنٹرول سینٹر قائم
- وزیرداخلہ سے ایرانی سفیر کی ملاقات، صدررئیسی کے دورے سے متعلق تبادلہ خیال
- پختونخوا؛ صحت کارڈ پر دوائیں نہ ملنے پر معطل کیے گئے 15 ڈاکٹرز بحال
- لاہور؛ پولیس مقابلے میں 2 ڈاکو مارے گئے، ایک اہل کار شہید دوسرا زخمی
- پختونخوا؛ مسلسل بارشوں کی وجہ سے کئی اضلاع میں 30 اپریل تک طبی ایمرجنسی نافذ
- پختونخوا؛ سرکاری اسکولوں میں کتب کی عدم فراہمی، تعلیمی سرگرمیاں معطل
- موٹر وے پولیس کی کارروائی، کروڑوں روپے مالیت کی منشیات برآمد
- شمالی کوریا کا کروز میزائل لیجانے والے غیرمعمولی طورپربڑے وارہیڈ کا تجربہ
- پاکستان اور نیوزی لینڈ کے درمیان دوسرا ٹی20 آج کھیلا جائے گا
- بابر کو ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنے کا مشورہ
- موبائل فون صارفین کی تعداد میں 37 لاکھ کی ریکارڈ کمی
- گیلپ پاکستان سروے، 84 فیصد عوام ٹیکس دینے کے حامی
- ایکسپورٹ فیسیلی ٹیشن اسکیم کے غلط استعمال پر 10کروڑ روپے جرمانہ
- معیشت2047 تک 3 ٹریلین ڈالر تک بڑھنے کی صلاحیت رکھتی ہے، وزیر خزانہ
- پٹرولیم ایکسپلوریشن اینڈ پروڈکشن کمپنیوں نے سبسڈی مانگ لی
- پاکستان کی سعودی سرمایہ کاروں کو 14 سے 50 فیصد تک منافع کی یقین دہانی
جاپان میں لکڑی سے بنے مصنوعی سیارچوں کی تیاری
کیوٹو: جاپان میں کیوٹو یونیورسٹی اور پرائیویٹ کمپنی ’سومیٹومو فارسٹری‘ نے لکڑی سے مصنوعی سیارچے (سٹیلائٹس) بنانے پر تحقیق شروع کردی ہے۔ انہیں امید ہے کہ وہ 2023ء تک ایسا پہلا مصنوعی سیارچہ تیار کرلیں گے۔
بی بی سی انٹرنیشنل کے مطابق، یہ مصنوعی سیارچے بنانے کا مقصد ’خلائی کچرے‘ (اسپیس جنک) کے مسئلے کو حل کرنا ہے جو بتدریج سنجیدہ ہوتا جارہا ہے۔
اس وقت بھی زمین کے گرد چکر لگاتے ہوئے خلائی کچرے کی مقدار بہت زیادہ ہے جو 3000 ناکارہ مصنوعی سیارچوں کے علاوہ دس سینٹی میٹر یا اس سے زیادہ جسامت والے تقریباً 34,000 ٹکڑوں پر مشتمل ہے۔
اس خلائی آلودگی کی مجموعی کمیت کا اندازہ 5,500 ٹن لگایا گیا ہے۔
مذکورہ مسئلے کا خطرناک ترین پہلو یہ ہے کہ خلائی کچرا تقریباً 36,000 (چھتیس ہزار) کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار حرکت کررہا ہے اور اگر ایک چھوٹا سا ٹکڑا بھی خلائی اسٹیشن سے ٹکرا جائے تو اسے کے خول کو پھاڑ کر رکھ سکتا ہے۔
سومیٹومو فارسٹری کے ترجمان کا کہنا ہے کہ لکڑی سے مصنوعی سیارچے بنانے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ مدت پوری ہونے پر جب انہیں مدار سے بے دخل کرکے زمین پر گرایا جائے گا تو وہ ہوا سے رگڑ کھا کر مکمل طور پر ضرور جلیں گے لیکن ان کے جلنے سے فضا میں مضر دھاتیں شامل نہیں ہوں گی یا پھر کم سے کم شامل ہوں گی۔
کمپنی نے ایسے درختوں پر بھی تحقیق شروع کردی ہے جن کی لکڑی مصنوعی سیارچوں کےلیے استعمال کی جاسکے گی۔
جب انہیں لکڑی کی اُن اقسام کا علم ہوجائے گا جو مصنوعی سیارچوں میں استعمال کے قابل محسوس ہیں، تو پھر انہیں زمین پر ہی شدید قسم کے حالات میں آزمایا جائے گا؛ اس کے بعد ہی کہیں جاکر اس لکڑی سے مصنوعی سیارچے بنائے جائیں۔
سومیٹو فارسٹری کے مطابق، انہیں مصنوعی سیارچے بنانے والی لکڑی مل گئی ہے لیکن فی الحال اس کی تفصیلات راز میں رکھی گئی ہیں جنہیں مناسب وقت پر سب کے سامنے لایا جائے گا۔
بتاتے چلیں کہ تقریباً ہر طرح کی ٹیلی مواصلات میں مصنوعی سیارچوں کا بڑھتا ہوا استعمال ہمارے قریبی خلائی ماحول کو بھی تیزی سے آلودہ کرتا جارہا ہے۔
ایک تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ 2030 تک سالانہ 990 سیارچے خلا میں بھیجے جائیں گے، یعنی اگلے دس سال میں مصنوعی سیارچوں کی تعداد 12 ہزار سے 15 ہزار کے درمیان ہوجائے گی۔
اسی کے ساتھ خلائی کچرے کا مسئلہ بھی شاید ہمارے موجودہ اندازوں سے کہیں زیادہ سنگین ہوجائے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔