جاپان میں لکڑی سے بنے مصنوعی سیارچوں کی تیاری

ویب ڈیسک  منگل 29 دسمبر 2020
لکڑی کے سیارچے بڑھتی ہوئی خلائی آلودگی کا مسئلہ حل کرنے میں مددگار ثابت ہوں گے۔ (فوٹو: سومیٹومو فارسٹری)

لکڑی کے سیارچے بڑھتی ہوئی خلائی آلودگی کا مسئلہ حل کرنے میں مددگار ثابت ہوں گے۔ (فوٹو: سومیٹومو فارسٹری)

کیوٹو: جاپان میں کیوٹو یونیورسٹی اور پرائیویٹ کمپنی ’سومیٹومو فارسٹری‘ نے لکڑی سے مصنوعی سیارچے (سٹیلائٹس) بنانے پر تحقیق شروع کردی ہے۔ انہیں امید ہے کہ وہ 2023ء تک ایسا پہلا مصنوعی سیارچہ تیار کرلیں گے۔

بی بی سی انٹرنیشنل کے مطابق، یہ مصنوعی سیارچے بنانے کا مقصد ’خلائی کچرے‘ (اسپیس جنک) کے مسئلے کو حل کرنا ہے جو بتدریج سنجیدہ ہوتا جارہا ہے۔

اس وقت بھی زمین کے گرد چکر لگاتے ہوئے خلائی کچرے کی مقدار بہت زیادہ ہے جو 3000 ناکارہ مصنوعی سیارچوں کے علاوہ دس سینٹی میٹر یا اس سے زیادہ جسامت والے تقریباً 34,000 ٹکڑوں پر مشتمل ہے۔

اس خلائی آلودگی کی مجموعی کمیت کا اندازہ 5,500 ٹن لگایا گیا ہے۔

مذکورہ مسئلے کا خطرناک ترین پہلو یہ ہے کہ خلائی کچرا تقریباً 36,000 (چھتیس ہزار) کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار حرکت کررہا ہے اور اگر ایک چھوٹا سا ٹکڑا بھی خلائی اسٹیشن سے ٹکرا جائے تو اسے کے خول کو پھاڑ کر رکھ سکتا ہے۔

سومیٹومو فارسٹری کے ترجمان کا کہنا ہے کہ لکڑی سے مصنوعی سیارچے بنانے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ مدت پوری ہونے پر جب انہیں مدار سے بے دخل کرکے زمین پر گرایا جائے گا تو وہ ہوا سے رگڑ کھا کر مکمل طور پر ضرور جلیں گے لیکن ان کے جلنے سے فضا میں مضر دھاتیں شامل نہیں ہوں گی یا پھر کم سے کم شامل ہوں گی۔

کمپنی نے ایسے درختوں پر بھی تحقیق شروع کردی ہے جن کی لکڑی مصنوعی سیارچوں کےلیے استعمال کی جاسکے گی۔

جب انہیں لکڑی کی اُن اقسام کا علم ہوجائے گا جو مصنوعی سیارچوں میں استعمال کے قابل محسوس ہیں، تو پھر انہیں زمین پر ہی شدید قسم کے حالات میں آزمایا جائے گا؛ اس کے بعد ہی کہیں جاکر اس لکڑی سے مصنوعی سیارچے بنائے جائیں۔

سومیٹو فارسٹری کے مطابق، انہیں مصنوعی سیارچے بنانے والی لکڑی مل گئی ہے لیکن فی الحال اس کی تفصیلات راز میں رکھی گئی ہیں جنہیں مناسب وقت پر سب کے سامنے لایا جائے گا۔

بتاتے چلیں کہ تقریباً ہر طرح کی ٹیلی مواصلات میں مصنوعی سیارچوں کا بڑھتا ہوا استعمال ہمارے قریبی خلائی ماحول کو بھی تیزی سے آلودہ کرتا جارہا ہے۔

ایک تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ 2030 تک سالانہ 990 سیارچے خلا میں بھیجے جائیں گے، یعنی اگلے دس سال میں مصنوعی سیارچوں کی تعداد 12 ہزار سے 15 ہزار کے درمیان ہوجائے گی۔

اسی کے ساتھ خلائی کچرے کا مسئلہ بھی شاید ہمارے موجودہ اندازوں سے کہیں زیادہ سنگین ہوجائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔