پنجاب کے شہروں کی ثقافت کے رنگ

مزمل سہروردی  پير 4 جنوری 2021
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

پنجاب کی ثقافت کے ساتھ ان گنت ظلم ہوئے ہیں۔ یہ مظالم کسی نے باہر سے نہیں کیے ہیں بلکہ پنجاب نے خود ہی اپنی ثقافت و زبان کے ساتھ ظلم کیاہے۔ یہ درست ہے کہ پنجاب میں ترقی ہوئی ہے لیکن اس ترقی کے ساتھ پنجاب کی ثقافت کو بھی قتل کیا گیا ہے۔

شاید ماضی کی حکومتوں کے نزدیک ترقی میں میگا منصوبوں کی بہت اہمیت تھی۔ لیکن پنجاب کی ثقافت کلچر اور پنجابیت کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ایک مربوط حکمت عملی کے تحت پنجاب کی ثقافت کلچر اور اس کی پہچان کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس لیے آج جہاں پنجاب کی ترقی کی رفتار کو قائم رکھنا وقت کی ضرورت ہے۔ وہاں پنجاب کو اس کی پہچان واپس لوٹانا بھی اہم ہے۔

پنجاب میں صرف پنجابی زبان ہی نہیں بولی جاتی بلکہ پنجاب میں مختلف زبانیں اور مختلف لہجوں میں مختلف زبانیں بولی جاتی ہیں۔ ہم نے ترقی کے چکر میں ان تمام زبانوں اور لہجوں کا بھی قتل کر دیا ہے۔ پنجاب کے روایتی کھانے بھی پنجاب کی پہچان ہے۔ لیکن ہم نے مغربی کھانوں کے چکر میںپنجاب کے روایتی کھانوں کا بھی قتل کر دیا ہے۔

پنجاب کی سیاحت کو بھی قتل گیا ہے۔ پنجاب میں پہاڑ بھی ہیں صحرا بھی ہیں۔ میدان بھی ہیں شہر بھی ہیں گاؤں بھی ہیں۔ لیکن ہم نے سب کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ شہروں میں ترقی کے نام پر سڑکیں اور پل تو بہت بنائے گئے ہیں لیکن اس سب کے ساتھ پنجاب کی پہچان کو زندہ رکھنے کے لیے کچھ نہیں کیا گیا۔ آج پنجاب ترقی میں تو دیگر صوبوں سے آگے ہے لیکن ثقافتی محاذ پر ہم پیچھے رہ گئے ہیں۔

میرے لیے یہ بات باعث اطمینان ہے کہ عثمان بزدار نے جہاں پنجاب میں ترقیاتی کاموں کی رفتار کو تیز کیا ہے۔ وہاں انھوں نے پنجاب کی ثقافت کو زندہ کرنے اور اس کو آگے لانے کے بھی ایک پروگرام پر کام شروع کیا ہے۔ اس پروگرام کے تحت جنوبی پنجاب میں وہاں کی ثقافت کو اجاگر کرنے کے لیے کام کیے جا رہے ہیں۔ جنوبی پنجاب کی انفرادیت قائم رکھنے کے لیے ماضی میں بھی بہت کام کیا ہے۔ عثمان بزدار نے بھی اپنے دور وزارت اعلیٰ کے پہلے دو سال میں جنوبی پنجاب اور بالخصوص ڈیرہ غازی خان کی ثقافت پر بہت کام کیا ہے۔ جس کے نتائج ہمیں نظر بھی آتے ہیں۔

عثمان بزدار نے ہر شہر کی ثقافت کو زندہ کرنے کے لیے الگ الگ حکمت عملی بنائی ہے۔ اس ضمن میں ایک روڈ میپ صوبائی سطح پر تیار کیا گیا ہے۔ جس میں ہر شہر کے لیے تیس نکات پر مشتمل روڈ میپ کی منظوری کی گئی ہے۔ ان تیس نکات سے شہروں کے ثقافتی حسن کو زندہ کیا جائے گا۔ سب سے اچھی بات ہے کہ عثمان بزدار نے گدا گری کے خاتمے کے لیے ہنگامی طورپر اقدامات کرنے کی منظوری دی ہے۔ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہے گداگری نے ایک پیشہ کی حیثیت حاصل کر لی ہے۔ پیشہ ور گداگر کوئی غربت یا ضرورت کے تحت نہیں مانگتے بلکہ وہ اس کو اپنے پیشہ کے طور پر مانگتے ہیں۔

اس ضمن میں ضروری قانون سازی موجود ہے لیکن ضلعی انتظامیہ کی غفلت کی وجہ سے گداگری بڑھتی جاتی ہے۔ جب بھی ضلعی انتظامیہ ایکشن لیتی ہے ہمیں گداگروں کی تعداد میں کمی نظر آجاتی ہے۔ تاہم جب غفلت دوبارہ شروع ہوتی ہے۔ گداگری دوبارہ شروع ہو جاتی ہے۔ یہ اچھی بات ہے کہ عثمان بزدار نے شہروں کی ثقافت کو زندہ کرنے کے روڈ میپ میں گداگری کے خاتمہ کو بنیادی اہمیت دی ہے ۔ اگر وہ سختی کریں گے تو پنجاب سے پیشہ ورانہ گداگری کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ جب تک گداگری کا خاتمہ نہیں ہوگا تب تک ثقافتی حسن بھی بحال نہیں ہو سکتا۔

پاکستان کا دل لاہور ہے اور پنجاب کا دارالخلافہ لاہور ہے۔ اس لیے لاہور کو نظر انداز کر کے پنجاب کی ثقافت کو زندہ کرنے کی تمام کوششیں ماضی میں ناکام ہوئی ہیں۔ یہ بات غلط نہیں ہے کہ جس نے لاہور نہیں دیکھا اس نے کچھ نہیں دیکھا۔ اس لیے لاہور کو دیکھنے کے قابل رکھنا حکومت کی بنیادی ذمے داری ہے۔ ماضی کی حکومتوں نے بھی لاہور پر کافی توجہ دی ہے۔ لیکن پھر بھی اس توجہ کا بنیادی نقطہ میگا منصوبے تھے۔ اس تناظر میں اہل لاہور کو عثمان بزدار کے وزیر اعلیٰ بننے کے بعد سب سے بڑا خدشہ تو یہی تھا کہ لاہور نظرانداز ہو گا۔لیکن ایسا نہیں ہوا۔

لاہور میں متعدد میگا منصوبوں کا اعلان ہوا ہے۔ جن پر ماضی میں بھی لکھ چکا ہوں۔ لیکن یہ بات بھی حقیقت ہے کہ ترقی کی اس دوڑ میں ہم نے جہاں سڑکیں پل اور انڈر پاس بنائے ہیں۔ وہاں ہم پیدل چلنے والوں کو بھول گئے ہیں۔ بڑے شہروں میں پیدل چلنے والوں کے لیے سہولیات ختم ہوتی جا رہی ہیں۔ لاہور میں اس کو کوئی خاص حیثیت حاصل نہیں۔ سب شہروں کی یہی صورتحال ہے۔ بہر حال ایک بڑے شہر کی وجہ سے لاہور میں یہ صورتحال زیادہ پیچیدہ ہے۔

لاہور میں ایم ایم عالم روڈ ، ملکہ ترنم نورجہاں روڈ (گلبرگ ) فردوس مارکیٹ چوک اور حسین چوک کو پیدل چلنے والوں کی سڑکیں بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ یہ لاہور کا نہ صرف بڑا کمرشل علاقہ ہے بلکہ لاہور کی سب سے بڑی فوڈ اسٹریٹ بھی اسی علاقہ کی ہے۔ اندرون لاہور کے بعد اب اس علاقہ کو لاہور کے ثقافتی حب کی حیثیت حاصل ہو گئی ہے۔ اس لیے عثمان بزدار نے فیصلہ کیا ہے کہ ان سڑکوں پر ٹریفک بند کرکے ان کو پیدل چلنے والوں کا علاقہ بنا دیا جائے۔ واک اینڈ شاپ کے فلسفہ کے تحت لوگ ان علاقوں میں پیدل چلیں۔ خریداری کریں۔ کھائیں پئیں۔

اس علاقہ میں نہ صرف ٹریفک بند کی جائے گی بلکہ یہاں بیٹھنے کے لیے ہر سو میٹر کے بعد بنچ بھی لگائے جائیں گے تا کہ لوگ بیٹھ بھی سکیں۔ جن لوگوں نے بیرونی دنیا کا سفر کیا ہے وہ جانتے ہیں کہ دنیا کے تمام بڑے شہروں میں ایسے ثقافتی حب ہوتے ہیں۔ جہاں لوگ شام کو سیر و تفریح کے لیے جاتے ہیں۔ شاپنگ بھی کرتے ہیں۔ کھاتے پیتے بھی ہیں۔ بچے بھی انجوائے کرتے ہیں۔ لیکن ہمارے بڑے شہر ایسی سہولیات سے محروم تھے۔

میں سمجھتا ہوں کہ لاہور میں اتنے بڑے کمرشل علاقے میں ایسا پیڈسٹرین زون بنانا لاہور کے حسن میں اضافہ کرے گا۔ یہ نہ صرف اہل لاہور کے لیے عثمان بزدار کی طرف سے تحفہ ہوگا بلکہ جو لوگ لاہور میں باہر سے آئیں گے ان کے لیے لاہور کو دیکھنے اور جاننے کے لیے ایک مرکزی جگہ بن جائے گی۔

لاہور میں اس سے پہلے بھی فوڈ اسٹریٹ بنائی گئی ہیں لیکن وہ بہت گنجان اور کم جگہ پر بنی ہیں۔ اسی لیے خاص کامیاب نہیں ہو سکی ہیں۔ گوالمنڈی کی فوڈ اسٹریٹ بھی جگہ کی کمی اور ٹریفک کے مسائل کی وجہ سے اس طرح کامیاب نہیں ہو سکی جیسے ہونی چاہیے تھی۔ اسی طرح بادشاہی مسجد کے عقب میں بننے والی فوڈ اسٹریٹ بھی کوئی مرکزی جگہ نہیں بن سکی ہے۔ وہاں بھی جگہ کے مسائل ہیں۔ لیکن لاہور کی چار سڑکوں پر مشتمل یہ پیڈیسٹرین زون بنانے کا عثمان بزدار کا فیصلہ لاہور کی ثقافت اور سیاحت کو نیا رنگ دے گا۔ لوگ نہ صرف پیدل چل سکیں گے۔ شاپنگ کر سکیں گے بلکہ ٹائم گزارنے کی اچھی جگہ بن جائے گی۔

میں سمجھتا ہوں کہ لاہور کے بعد پنجاب کے تمام بڑے شہروں میں ایسے ہی پیڈسٹرین زون بنانے چاہیے۔ اس سے نہ صرف شہروں کے حسن میں اضافہ ہو گا۔ بلکہ شہریوں کے لیے تفریح کے نئے مواقع بھی پیدا ہونگے۔ یہ ایسے مواقع ہونگے جہاں امیر اور غریب دونوں تفریح کر سکیں۔ اس لیے ویلڈن عثمان بزدار کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔