رنگ روڈ اسکینڈل؛ فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی ٹوٹنے سے تحقیقات لٹک گئی

ویب ڈیسک  اتوار 23 مئ 2021
نوٹی فکیشن میں دیگر 2 ٹی او آرز کی تحقیقات مکمل نہ ہوسکی فوٹو: فائل

نوٹی فکیشن میں دیگر 2 ٹی او آرز کی تحقیقات مکمل نہ ہوسکی فوٹو: فائل

 لاہور: راولپنڈی رنگ روڈ میگا کرپشن اسکینڈل کی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی ٹوٹنے سے اس اہم ترین معاملے کی تحقیقات لٹک گئی ہے۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق راولپنڈی رنگ روڈ اسکینڈل کی تحقیقات کے لئے پنجاب حکومت نے 3 رکنی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی تشکیل دی تھی جو کمشنر راولپنڈی سید گلزار حسین شاہ، ایڈیشنل کمشنر راولپنڈی جہانگیر احمد اور ڈپٹی کمشنر انوار الحق پر مشتمل تھی۔ سید گلزار حسین شاہ کمیٹی کا کنوینئر مقرر کیا گیا تھا۔

کمیٹی کو 3 ٹی او آر کے تحت تحقیقات کرنا اور اس سلسلے میں 3 الگ الگ رپورٹس پیش کرنا تھی۔ پہلی رپورٹ میں کمیٹی کو منصوبے میں کمیشن اور رشوت خوری کے الزامات کو ثابت کرنا تھا۔ دوسری رپورٹ میں اس منصوبے میں کی گئی کرپشن کی وجہ بننے والی پالیسی سقم کی نشاندہی کرنا تھی جب کہ تیسری رپورٹ میں راولپنڈی کے لئے ترقیقاتی منصوبوں کے حوالے سے تفصیلی تجاویز دینا تھی۔

کمیٹی نے اپنی پہلی رپورٹ تیار کی لیکن اس رپورٹ پر کمیٹی ہی کے ایک رکن سابق ڈپٹی کمشنر انوار الحق نے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے دستخط سے انکار کردیا۔ جس پر حکومت نے انہیں ناصرف کمیٹی سے نکال دیا بلکہ ان کا تبادلہ بھی کردیا۔ انوار الحق کے تبادلے کے بعد فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی عملی چور پر ٹوٹ گئی ہے۔

کمیٹی کو عید الفطر کے فوری بعد اپنی دیگر 2 رپورٹس حکومت کو پیش کرنا تھیں لیکن کمیٹی کے دوبارہ قیام کے لیے پنجاب حکومت نے کوئی نوٹی فکیشن جاری نہیں کیا جب کہ کمیٹی کے کنوینئر کمشنر سید گلزار حسین شاہ بھی کوئی فیصلہ نہ کرسکے۔ جس کے بعد اب اس میگا کرپشن اسکینڈل کی تحقیقات مکمل طور پر لٹک چکی ہے۔

رنگ روڈ اسکینڈل کیا ہے؟

2017 میں اس وقت کی پنجاب حکومت نے راولپنڈی پر ٹریفک کا دباؤ کم کرنے کے لیے 40 کلومیٹر کی رنگ روڈ بنانے کا فیصلہ کیا تھا‘ اس سلسلے میں تمام ضابطے کی کارروائی مکمل ہوگئی تھی تاہم 2018 کے انتخابات کے نتیجے میں نئی حکومت برسراقتدار آگئی اور یہ منصوبہ ٹھپ ہوگیا لیکن گزشتہ برس یہ منصوبہ اچانک فعال ہوا اور اس میں 26 کلومیٹر کا اضافہ کردیا گیا۔ اس منصوبے سے کم از کم 10 ہاؤسنگ پراجیکٹس کو غیر ضروری طور پر اربوں روپے کا فائدہ ہوا۔

معاملے میں کرپشن کی خبر ملنے پر وزیر اعظم نے اس کا نوٹس لیا اور کمشنر راولپنڈی کیپٹن ریٹائرڈ محمود احمد کو ہٹا کر سید گلزار حسین شاہ کو تعینات کردیا۔ وزیر اعظم نے انہیں تحقیقات کا حکم دیا، اس سلسلے میں پنجاب حکومت نے کمیٹی بنائی۔

کمیٹی نے اپنی پہلی رپورٹ میں چند سیاسی شخصیات، ریٹائرڈ فوجی اور سول بیوروکریٹس کو فائدہ پہنچانے کا الزام بھی عائد کرتے ہوئے بتایا گیا کہ رنگ روڈ کے 2017 میں منظور شدہ نقشے میں تبدیلی کے ذریعے کچھ ہاؤسنگ سوسائٹیوں اور بااثر سیاسی شخصیات کو فائدہ پہنچایا گیا تھا۔سابق کمشنر کیپٹن (ر) محمود احمد اور معطل ہونے والے لینڈ ایکوزیشن کمشنر وسیم تابش نے سڑک کے لیے زمین کے حصول کی غرض سے غلط طریقہ کار سے دو ارب 30 کروڑ کا معاوضہ ادا کیا اور اراضی حاصل کرتے ہوئے سنگ جانی کے معروف خاندان کو فائدہ پہنچایا۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ سابق کمشنر کیپٹن ریٹائرڈ محمود احمد اور دیگر اہلکاروں نے 2017 کی نیسپاک کی جانب سے بنائی جانے والی الائنمنٹ میں تبدیلی کر کے اس میں اٹک لوپ اور پسوال زگ زیگ کو غیر قانونی طور پر شامل کرکے اردگرد کے علاقوں میں درجنوں ہاؤسنگ سوسائٹیوں کو فائدہ پہنچایا تھا جس میں کئی میں وہ بے نامی دار مالک بھی تھے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔