افغان حکومت کے پاس لڑنے کی ہمت نہیں تو کیا اس کا ذمہ دار پاکستان ہے؟ وزیر خارجہ

ویب ڈیسک  ہفتہ 21 اگست 2021
(فوٹو : فائل)

(فوٹو : فائل)

 اسلام آباد: وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ افغان حکومت کے پاس لڑنے کی ہمت نہیں تو کیا اس کا ذمہ دار پاکستان ہے؟ بہت ہوگیا اب پاکستان پر الزامات کا سلسلہ بند ہونا چاہیے اور اپنی ناکامیوں کی ذمہ داری پاکستان پر نہ ڈالی جائے۔

الجزیرہ ٹی وی کو دیے گئے انٹرویو میں وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بھاری قیمت ادا کی، ہماری 80 ہزار شہادتیں ہوئیں، ہمیں 150 بلین ڈالر سے زائد کا مالی نقصان اٹھانا پڑا، ہم نے 20 لاکھ کے قریب آئی ڈی پیز کو سنبھالا، دنیا شاید بھول گئی کہ ہم 30 لاکھ سے زیادہ افغان مہاجرین کی میزبانی کرتے چلے آرہے ہیں جب کہ 9/11 کا ذمہ دار بھی پاکستان نہیں۔

جب امریکا نے افغانستان میں آپریشن شروع کیا تو ہم سے مشاورت نہیں کی تھی

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ جب امریکا کی جانب سے افغانستان میں آپریشن شروع کیا گیا تو ہم سے مشاورت نہیں کی گئی، ہمیں اپنے علاقے اور لوگوں کو محفوظ بنانے کے لیے تردد کرنا پڑا، ہماری قیمتی جانوں کا ضیاع ہوا اور ہمیں جواباً ڈو مور کا طعنہ دیا جاتا رہا، جب ہم نے خلوص نیت کے ساتھ عالمی برادری کے ساتھ رابطہ کرنے کی کوشش کی تو ہمیں شک کی نگاہ سے دیکھا گیا اور طرح طرح کے سوالات اٹھائے گئے۔

ہم بتاتے رہے کہ افغان حکومت کرپٹ ہے لیکن کسی نے نہیں سنی

وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ہم دنیا کو بتاتے رہے کہ جو حکومت افغانستان پر مسلط کی گئی ہے اسے سیاسی حمایت حاصل نہیں، وہاں کرپشن اور ناکام طرز حکمرانی کا دور دورہ ہے مگر کسی نے ہماری بات پر کان نہیں دھرے، جب دوحا میں ایک سال تک اشرف غنی کی سنی جاتی رہی جو بین الافغان مذاکرات میں سب سے بڑی رکاوٹ تھا تو کیا اس کا ذمہ دار بھی پاکستان ہے؟

اچانک انخلاء کا فیصلہ بھی ہماری رائے کے بغیر ہوا

انہوں نے کہا کہ ہم کہتے رہے کہ مذاکرات اور انخلاء کے عمل کو ساتھ ساتھ چلتے رہنا چاہیے لیکن اچانک انخلاء کا فیصلہ ہماری رائے لیے بغیر کیا گیا، اب جو عالمی برادری کو چیلنج درپیش ہے وہ کابل سے ان کے شہریوں کے محفوظ انخلاء کا ہے، ہم اس حوالے سے بھی مثبت اور تعمیری کردار ادا کر رہے ہیں۔

شہریوں کے انخلا کے معاون ممالک کی فہرست میں پاکستان کو شامل کیوں نہیں کیا گیا؟

شاہ محمود قریشی نے بتایا کہ ہمارے جہاز کابل سے مختلف ممالک کے شہریوں کے انخلا میں معاونت کر رہے ہیں، ہمارا کابل میں سفارت خانہ دن، رات، 24/7 مسلسل متحرک ہے اور لوگوں کی مدد کر رہا ہے، افسوس اس بات کا ہے کہ ہمارے اس کردار کو بھی نہیں سراہا گیا اور پاکستان کا نام ان ممالک کی فہرست میں بھی شامل نہیں کیا گیا جو انخلاء میں معاونت کر رہے ہیں، کیا اسے محض بھول چوک سمجھا جائے؟

پاکستان نے بہت الزامات برداشت کرلیے اب یہ سلسلہ بند ہونا چاہیے

وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان نے بہت الزامات برداشت کرلیے اب یہ سلسلہ بند ہونا چاہیے، اپنی اندرونی ناکامیوں کی ذمہ داری پاکستان پر ہرگز نہ ڈالی جائے، تاشقند میں اشرف غنی نے الزام عائد کیا تھا کہ پاکستان کی جانب سے 10 ہزار لوگوں کو افغانستان بھجوایا گیا ہے جو حالات کی خرابی کا باعث بن رہے ہیں جس پر مجھے اس طرح کا غیر ذمہ دارانہ بیان سن کر انتہائی حیرت ہوئی۔

افغان حکومت کے پاس لڑنے کی ہمت نہیں تو کیا پاکستان ذمہ دار ہے؟

انہوں نے کہا کہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان کے پاس 3 لاکھ تربیت یافتہ فورس موجود تھیں ان کے پاس جدید آلات تھے لیکن اگر ان کے پاس لڑائی کی ہمت نہیں تھی تو کیا اس کا ذمہ دار بھی پاکستان ہے؟

طالبان بلامزاحمت غالب اس لیے آئے کہ عوام ان کے ساتھ ہیں

انہوں نے کہا کہ طالبان نے آسانی کے ساتھ اور بلامزاحمت پیش قدمی کی کیونکہ انہیں مقامی سپورٹ حاصل تھی، افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا سے قبل بھی 40 سے 45 فیصد علاقہ طالبان کے زیر کنٹرول تھا، اشرف غنی کی حکومت اور ان کی عمل داری، محض کابل اور چند شہری علاقوں تک محدود تھی۔

افغانستان کے تمام فریقوں سے رابطے کررہے ہیں

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ہم افغانستان میں امن کے لیے تمام افغان رہنماؤں کے ساتھ رابطے کر رہے ہیں، کچھ دن پہلے وزارتِ خارجہ میں، میں نے سابقہ شمالی اتحاد کے رہنماؤں سے ملاقات کی جو طالبان کے حمایتی نہیں لیکن ہم ان سب رہنماؤں سے رابطے اس لیے کر رہے ہیں کیونکہ ہم افغانستان میں امن کے خواہش مند ہیں اور ہم نہیں چاہتے کہ نوے کی دہائی کی غلطیوں کو دہرایا جائے۔

افغان مسئلے کا فوجی حل نہیں، سیاسی تصفیے کی جانب بڑھنا ہوگا

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ افغان مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں اس لیے ہمیں سیاسی تصفیے کی جانب بڑھنا ہوگا، طالبان کی جانب سے منظر عام پر آنے والے حالیہ بیانات حوصلہ افزا ہیں جن سے ایک نئی سوچ کا پتا چلتا ہے اور ہمیں بھی اعتدال پسند طبقے کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے، پاکستان قیام امن کے لیے کی جانے والی عالمی کوششوں میں شراکت داری کے لیے تیار ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔