- کرپٹو کرنسی فراڈ اسکینڈل میں سام بینک مین فرائڈ کو 25 سال قید
- کراچی، تاجر کو قتل کر کے فرار ہونے والی بیوی آشنا سمیت گرفتار
- ججز کے خط کی انکوائری، وفاقی کابینہ کا اجلاس ہفتے کو طلب
- امریکا میں آہنی پل گرنے کا واقعہ، سمندر سے دو لاشیں نکال لی گئیں
- خواجہ سراؤں نے اوباش لڑکوں کے گروہ کے رکن کو پکڑ کر درگت بنادی، ویڈیو وائرل
- پی ٹی آئی نے ججز کے خط پر انکوائری کمیشن کو مسترد کردیا
- عدالتی امور میں ایگزیکٹیو کی مداخلت کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گی، فل کورٹ اعلامیہ
- وفاقی حکومت نے کابینہ کی ای سی ایل کمیٹی کی تشکیل نو کردی
- نوڈیرو ہاؤس عارضی طور پر صدرِ مملکت کی سرکاری رہائش گاہ قرار
- یوٹیوبر شیراز کی وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات
- حکومت کا بجلی کی پیداواری کمپنیوں کی نجکاری کا فیصلہ
- بونیر میں مسافر گاڑی کھائی میں گرنے سے ایک ہی خاندان کے 8 افراد جاں بحق
- بجلی 2 روپے 75 پیسے فی یونٹ مہنگی کردی گئی
- انٹربینک اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی نسبت روپیہ تگڑا
- حکومت نے 2000 کلومیٹر تک استعمال شدہ گاڑیاں درآمد کرنے کی اجازت دیدی
- کراچی: ڈی آئی جی کے بیٹے کی ہوائی فائرنگ، اسلحے کی نمائش کی ویڈیوز وائرل
- انوار الحق کاکڑ، ایمل ولی بلوچستان سے بلامقابلہ سینیٹر منتخب
- جناح اسپتال میں خواتین ڈاکٹروں کو بطور سزا کمرے میں بند کرنے کا انکشاف
- کولیسٹرول قابو کرنیوالی ادویات مسوڑھوں کی بیماری میں مفید قرار
- تکلیف میں مبتلا شہری کے پیٹ سے زندہ بام مچھلی برآمد
ہزاروں سال پہلے گھوڑوں کے بجائے ’جنگی گدھے‘ استعمال ہوتے تھے
پنسلوانیا: ماہرینِ آثارِ قدیمہ کی ایک عالمی ٹیم نے دریافت کیا ہے کہ تقریباً 4,500 سال پہلے میسوپوٹیمیا (موجودہ جنوبی عراق اور شمالی شام) میں جنگی مقاصد کےلیے پالتو گدھوں اور جنگلی خچروں کے ملاپ سے پیدا کیے گئے جانور استعمال ہوتے تھے جنہیں ’جنگی گدھے‘ کہا جاسکتا ہے۔
شاید یہ اوّلین مخلوط نسل (کراس برِیڈ) کے جانور تھے جنہیں انسان نے تیار کیا تھا۔ ان کے بھی 500 سال بعد جنگوں میں گھوڑوں کا استعمال شروع ہوا تھا۔
میسوپوٹیمیا سے ملنے والی قدیم تختیوں پر بنی علامتی تصاویر، جانوروں کے ڈھانچوں اور دوسری دستاویزات پر تحقیق سے معلوم ہوا کہ انہیں ’کُنگا‘ (Kunga) کہا جاتا تھا اور یہ جنگ میں رتھوں (دو پہیوں والی جنگی گاڑیوں) کو کھینچنے میں استعمال کیے جاتے تھے۔
آثارِ قدیمہ کے دوسرے شواہد سے یہ بھی پتا چلا کہ ’کُنگا‘ بہت طاقتور تھے اور تیزی سے دوڑنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔
البتہ، جب ماہرین نے ’کنگا‘ کی ہڈیوں کا تجزیہ کیا تو پریشان ہوگئے کیونکہ یہ جانور جسامت میں قدیم گدھوں اور جنگلی خچروں سے بڑے تھے لیکن گھوڑوں سے چھوٹے تھے۔
اگر یہ گھوڑا، گدھا یا جنگلی خچر نہیں تھا تو پھر ’کُنگا‘ آخر کونسا جانور تھا؟
یہ الجھن پچھلے کئی سال سے یونہی چلی آرہی تھی جسے امریکا، فرانس، جرمنی اور چین سے تعلق رکھنے والے ماہرین ایک ٹیم نے جینیاتی تجزیئے سے حل کرلیا ہے۔
تحقیق کی غرض سے انہوں نے آخری شامی خچر کی بافتوں (ٹشوز) جین کے نمونے حاصل کیے۔ صرف 3 فٹ اونچائی والا یہ خچر آسٹریا کے ایک چڑیا گھر میں رکھا تھا اور 1927 میں یہ مرچکا تھا۔ لیکن اس کا مُردہ جسم پوری احتیاط سے محفوظ کرکے آسٹریا ہی میں رکھ لیا گیا تھا۔
اس کے علاوہ انہوں نے جنوب مشرقی ترکی میں گوئبیکلی تیپ نامی علاقے سے ملنے والے، گیارہ ہزار سال قدیم جنگلی خچر کا جین بھی علیحدہ کیا جو خاصی مکمل حالت میں تھا۔
دونوں جانوروں کے جینوم کا موازنہ کرنے پر معلوم ہوا کہ جنگلی خچروں کا ارتقاء بہت تیزی سے ہوا اور اس کا جسم چھوٹا ہوتا چلا گیا۔
تاہم جب میسوپوٹیمیا کے ’کُنگا‘ سے ان کا موازنہ کیا گیا تو واضح طور پر معلوم ہوا کہ ’کُنگا‘ اِن دونوں کے ساتھ ساتھ گدھے سے بھی مشابہت رکھتے تھے۔
اس تجزیئے کی روشنی میں ماہرین نے نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ’کُنگا‘ دراصل جنگلی خچروں اور میسوپوٹیمیا کے مقامی گدھوں کے ملاپ سے تیار کیے جاتے تھے۔
وہ جسامت میں عام گدھوں اور جنگلی خچروں سے بڑے ہونے کے علاوہ طاقتور اور تیز رفتار بھی تھے لیکن مخلوط (ہائبرڈ) ہونے کی وجہ سے وہ اپنی نسل آگے نہیں بڑھا سکتے تھے۔
میسوپوٹیمیا کی قدیم دستاویزات میں ’کُنگا‘ کو بہت قیمتی اور ’انعام میں دیا جانے والا‘ جانور بھی قرار دیا گیا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی پیدائش بہت مشکل کام ہوا کرتی تھی۔
اس کےلیے نر جنگلی خچر پکڑے جاتے تھے جن کا ملاپ گدھی سے کروا کر ’کُنگا‘ پیدا کیے جاتے۔
میسوپوٹیمیا سے ملنے والے ’کُنگا‘ کے ڈھانچوں میں دانتوں اور ہڈیوں پر کچھ مخصوص نشانات ظاہر کرتے ہیں ان کے پورے جسموں پر زرہ بکتر جیسے خول چڑھائے جاتے تھے جبکہ طاقت اور تیز رفتاری کی غرض سے انہیں مخصوص غذائیں کھلائی جاتی تھیں۔
ان تمام خصوصیات کی بناء پر ماہرینِ آثارِ قدیمہ نے انہیں ’جنگی گدھے‘ کا نام دے دیا ہے جبکہ آن لائن ریسرچ جرنل ’سائنس ایڈوانسز‘ کے تازہ شمارے میں اس دریافت کی تفصیلات بھی شائع ہوچکی ہیں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔