تحریک عدم اعتماد کامیاب، عمران خان وزیراعظم نہیں رہے

ویب ڈیسک  ہفتہ 9 اپريل 2022
اسپیکر اسد قیصر کے مستعفی ہونے کے بعد ایاز صادق نے ایوان کی کارروائی مکمل کی (فائل فوٹو)

اسپیکر اسد قیصر کے مستعفی ہونے کے بعد ایاز صادق نے ایوان کی کارروائی مکمل کی (فائل فوٹو)

 اسلام آباد: متحدہ اپوزیشن کی جانب سے جمع کرائی گئی تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوگئی، جس کے بعد عمران خان اب وزیراعظم نہیں رہے۔ اسپیکر اسد قیصر کے مستعفی ہونے کے بعد قائم مقام اسپیکر ایاز صادق نے تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کی کارروائی مکمل کی۔

سپریم کورٹ کے حکم پر قومی اسمبلی کا اجلاس اسپیکر ایاز صادق کی سربراہی میں صبح ساڑھے 10 بجے طلب کیا گیا، جس میں اپوزیشن اور حکومتی اراکین نے تقاریر کیں تاہم عدم اعتماد پر رات ساڑھے گیارہ بجے تک عدم اعتماد پر کوئی کارروائی نہیں ہوسکی تھی۔

اسد قیصر کا استعفیٰ

صبح دس بجے سے جاری اجلاس میں ڈرامائی موڑ  اُس وقت آیا جب اسپیکر اسد قیصر نے وزیراعظم سے ملاقات کے بعد پانچویں بار اجلاس کی  مختصر صدارت  کی اور رات ساڑھے گیارہ بجے کے قریب استعفیٰ دینے کا اعلان کیا، پھر انہوں نے ایاز صادق سے ایوان کی کارروائی جاری رکھنے کی استدعا کی۔

مزید پڑھیں: اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر عہدوں سے مستعفی

اسد قیصر کے استعفے کے بعد حکومتی اراکین نے امریکا اور اپوزیشن کے خلاف شدید نعرے بازی کی اور احتجاجاً ایوان کا بائیکاٹ کرتے ہوئے ایوان سے باہر چلے گئے۔

ایاز صادق کی سربراہی میں ایوان کی کارروائی

ایاز صادق نے اسپیکر کی نشست سنبھالتے ہی قائد حزب اختلاف شہباز شریف کی جانب سے جمع کرائی گئی تحریک عدم اعتماد پر کارروائی جاری رکھنے کا اعلان کیا اور اجلاس کو چار منٹ کے لیے ملتوی کیا، بعد ازاں اجلاس نئے دن کے آغاز پر دوبارہ تلاوتِ کلام پاک سے شروع ہوا۔

بعد ازاں عدم اعتماد کی ووٹنگ پر کارروائی شروع ہوئی، جس پر اراکین نے باری باری ووٹ کاسٹ کیے، تحریک عدم اعتماد کی حمایت میں 174 ووٹ ڈالے گئے، جس کے بعد عمران خان ملک کے وزیراعظم نہیں رہے جبکہ پی ٹی آئی کے منحرف اراکین نے عدم اعتماد کی کارروائی میں ووٹ کاسٹ نہیں کیے۔

ایاز صادق کا عدم اعتماد کی کامیابی کا اعلان

قائم مقام اسپیکر نے ووٹنگ کی کارروائی مکمل ہونے کے بعد بتایا کہ عدم اعتماد کی حمایت میں 174 اراکین نے ووٹ کاسٹ کیے، جس کے بعد اپوزیشن کی عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہوگئی۔

انہوں نے کہا کہ آج اپوزیشن جماعتوں کے تمام قائدین یہاں موجود ہیں اور ہم سب نوازشریف کی کمی بہت زیادہ شدت سے محسوس کررہے ہیں۔

چوتھی بار اجلاس ملتوی کے دو گھنٹے تاخیر سے شروع ہوا

وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد اسپیکر اسد قیصر اور ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے وزیراعظم ہاؤس میں عمران خان سے ملاقات کی، جس میں  کابینہ اراکین کی منظوری کی روشنی میں عمران خان نے دھمکی آمیز خط اسد قیصر سے شیئر کیا۔

ملاقات ختم کر کے اسد قیصر پارلیمنٹ ہاؤس کے لیے روانہ ہوئے تو وزیراعظم نے انہیں دوبارہ طلب کیا، جس پر وہ فوراً واپس پہنچے۔ اس دوران ڈپٹی اسپیکر بھی وزیراعظم ہاؤس پہنچے۔

وزیراعظم سے ملاقات کے بعد اسپیکر اسد قیصر وفاقی وزیر داخلہ کے ہمراہ پارلیمنٹ ہاؤس پہنچے۔

قبل ازیں اسپیکر اسد قیصر کی زیر صدارت قومی اسمبلی کا اجلاس میں اپوزیشن کے 176 اور حکومت کے تقریبا 100 ارکان شریک ہوئے۔

اسپیکر اسد قیصر نے وقفہ سوالات کا آغاز کرادیا تو اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے فلور مانگ لیا۔ شہباز شریف کی تقریر کے دوران حکومتی بنچز سے غدار غدار کے نعرے لگے۔

عدالت نے نظریہ ضرورت کو ہمیشہ کے لیے دفن کردیا، شہباز شریف

شہباز شریف نے کہا کہ پرسوں پاکستان کی تاریخ میں تابناک دن تھا جب عدالت نے نظریہ ضرورت کو ہمیشہ کے لیے دفن کرتے ہوئے وزیراعظم اور ڈپٹی اسپیکر کے غیر آئینی اقدام کو کالعدم قرار دیا۔

یہ بھی پڑھیں: سینیٹر فیصل جاوید کو اسمبلی ہال سے نکال دیا گیا

ایوان میں شور شرابا

شہباز شریف نے کہا کہ آج سلیکٹڈ وزیراعظم کو شکست فاش دینے جارہا ہوں، آج آپ کو چاہیے کہ صحیح معنوں میں اسپیکر کا کردار ادا کرکے سنہری حروف میں نام درج کرائیں۔  اپوزیشن لیڈر کی تقریر کے دوران حکومتی بنچز سے بھکاری، امریکہ کے غلام کی نعرے بازی کی جاتی رہی۔

عالمی سازش پر بحث

اسپیکر نے عالمی سازش کا ذکر کرتے ہوئے اس موضوع پر بحث کرانے کا اعلان کیا تو اپوزیشن نے شور شرابا کیا۔ اسپیکر اسد قیصر نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلہ پر من و عن عمل کرونگا۔

یہ بھی پڑھیں: سعد رفیق حکومتی بنچز پر آگئے، فواد چوہدری اور شفقت محمود سے گفتگو

شہباز شریف نے اسپیکر کو ٹوکا کہ آپ سپریم کورٹ کی حکم عدولی نہیں کرسکتے، اگر آپ ایسے کرینگے تو بات بہت دور تک جائے گی۔ اپوزیشن لیڈر نے ایوان میں سپریم کورٹ کا فیصلہ پڑھ دیا جس میں آج اجلاس میں تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کا کہا گیا ہے۔

شاہ محمود قریشی نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ہم آئینی طریقہ سے تحریک عدم اعتماد کا مقابلہ کرینگے، پاکستان کی تاریخ آئین شکنی سے بھری پڑی ہے، 12 اکتوبر 1999 کو بھی آئین شکنی ہوئی، عدالتی تاریخ کا حصہ ہے کہ اعلی عدلیہ نے ڈکٹیٹر کو آئین میں ترمیم کی اجازت دی،  عمران خان کہتے ہیں کہ مایوس ہوں لیکن اعلی عدلیہ کا احترام کروں گا۔

سازش کی تحقیقات ضروری ہیں، شاہ محمود

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ عدلیہ نے ازخود نوٹس کیوں لیا اور اپوزیشن عدالت کیوں گئی اس کا پس منظر ہے، ڈپٹی اسپیکر نے تحریک عدم اعتماد سے انکار نہیں کیا، انھوں نے کہا کہ اگر سازش ہو رہی ہے تو اس کی تحقیقات ضروری ہیں، نیشنل سیکیورٹی کمیٹی اس مراسلے کو دیکھتی ہے تو اسے سنگین قرار دے کر دو فیصلے کرتی ہے، اسلام آباد اور واشنگٹن میں سفارتی احتجاج کیا جاتا ہے جبکہ پارلیمان کی قومی سلامتی کمیٹی کے سامنے اس معاملہ کو رکھا جاتا ہے۔

اجلاس ملتوی

شاہ محمود قریشی نے اپنی تقریر جاری رکھنے پر اصرار کیا لیکن اپوزیشن ارکان نے شور مچانا شروع کردیا۔ اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف، بلاول بھٹو زرداری اپنی نشست پر کھڑے ہوگئے۔ اس پر اسپیکر نے اجلاس ساڑھے 12 بجے تک ملتوی کردیا۔

وقفے میں حکومتی و اپوزیشن اراکین آپس میں گھل مل گئے

وقفے کے دوران حکومت اوراپوزیشن اراکین ایک بنچ پر آگئے اور آپس میں گھل مل گئے۔ ارکان کی ایوان میں ایک دوسرے کے ساتھ گپ شپ ہوئی۔

اپوزیشن کی اسپیکر قومی اسمبلی سے ملاقات 

متحدہ اپوزیشن کے وفد نے صدارتی چیمبر میں اسپیکر قومی اسمبلی سے ملاقات کی جس میں وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی، عامر ڈوگر جبکہ اپوزیشن کی جانب سے بلاول بھٹو، مولانا اسعد محمود، رانا ثناء اللہ، ایاز صادق، نوید قمر شریک ہوئے۔

اپوزیشن کا ووٹنگ نہ ہونے پر سپریم کورٹ جانے کا اعلان

اپوزیشن جماعتوں نے اپنے تحفظات سے اسپیکر کو آگاہ کرتے ہوئے فوری ووٹنگ کروانے اور سپریم کورٹ کی ہدایت کے مطابق اجلاس کو چلانے کا مطالبہ کیا۔ اپوزیشن نے کہا کہ ایوان کا ماحول حکومتی ممبران خراب کر رہے ہیں، تحریک عدم اعتماد پر آج ہی ووٹنگ ہوگی اگر ووٹنگ نہ ہوئی تو آرٹیکل 187 کے تحت سپریم کورٹ میں درخواست دائر کردیں گے۔

شاہ محمود

دو گھنٹے تاخیر کے بعد پینل آف چیئر امجد نیازی کی زیر صدارت اجلاس شروع ہوا۔ جس میں شاہ محمود نے تقریر کا سلسلہ جاری رکھا۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں ضمیر فروشی کا بازار لگایا گیا ، وفاداریاں تبدیل کرنے کیلئے ٹکٹس کی آفرز کی گئیں ، یہ تمام کام کیا آئینی تھے، جنہوں نے آئین کے تحفظ کی قسم کھائی ہے وہ قوتیں کیا نہیں دیکھ رہیں، سینیٹ الیکشن میں بھی اس طرح کیا گیا، ایک سال تک تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن کا دروازہ کھٹکھٹایا اور پھر جاکر سماعت مکمل ہوئی ، مگر ایک سال ہوگیا ہے ابھی تک اس کا فیصلہ نہیں کیا گیا ہمیں انصاف نہیں ملا۔

شاہ محمود نے کہا کہ ماسکو کے دورے کا فیصلہ ایک دن میں نہیں ہوا، دو ماہ سے یہ سلسلہ چل رہا تھا، اس کا یوکرین کے مسئلہ سے کوئی تعلق نہیں تھا، اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشاورت کرکے عمران خان روس گئے، میں روزے سے ہوں، اللہ کے ناموں کے نیچے کہتا ہوں کہ جھوٹ نہیں بول رہا، یہ انتہائی اہم دستاویز ہے ، اپنے منجھے ہوئے سفارتکاروں پر سوال نہ اٹھائیے، اب بھی حزب اختلاف اس ڈاکومنٹس کے بارے میں شک رکھتے ہیں تو میں اس ایوان میں پیشکش کرتا ہوں، ان کیمرہ سیشن بلایا جائے اور پھر پورے ایوان کو بریفنگ دینگے، دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہوجائیگا۔

عمران خان پہلے بھی فیض یاب ہوئے اور اب دوبارہ فیض یاب ہونا چاہتے ہیں

قومی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ  عمران خان شفاف الیکشن سے ڈرتے ہیں اور سیاسی بحران پیدا کرکے ملٹری رول چاہتے ہیں، عمران خان سلیکٹڈ ہیں جو پہلے بھی فیض یاب ہوئے اور اب دوبارہ فیض یاب ہونا چاہتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: عمران خان پہلے بھی فیض یاب ہوئے اور اب دوبارہ فیض یاب ہونا چاہتے ہیں، بلاول

سعد رفیق

خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ اسپیکر توہین عدالت کے مرتکب نہ ہوں ، آپ اکثریت کھو چکے ہیں، اس ریاست کو جنگل نہ بنائیں، ہم پاکستان کے خلاف کوئی سازش نہیں ہونے دیں گے۔

ان کیمرا اجلاس بلانے کا مطالبہ

اسد عمر نے کہا کہ کیا یہ جمہوریت ہے کہ بولیاں لگا کر لوگوں کو خریدا جا رہا ہے، ہمیں فیصلہ کرنا ہے ملک کو کس سمت میں لے کر جانا ہے، کیا یہ جمہوریت ہے رکن اسمبلی کو گارڈ کہے بولی لگ چکی ہے باہر نہیں جانا، اگر عدم اعتماد کامیاب ہو گئی تو بھان متی کا کنبہ حکومت بنائے گا، ابھی بھی وقت ہے ، ان کیمرا اجلاس بلائیں اور تفصیلی بریفنگ لیں۔ اسپیکر قومی اسمبلی نے اجلاس میں نماز عصر کا وقفہ کردیا۔

یہ بھی پڑھیں: شیریں مزاری کا اپنے لیے مذکر کا صیغہ استعمال کرنے پر اعتراض

اس کے بعد ملتوی شدہ اجلاس شروع ہوا تو اسپیکر نے چوتھی بار اجلاس ساڑھے نو بجے تک کے لیے ملتوی کیا گیا اور پھر دو گھنٹے تاخیر کے باوجود بھی کارروائی کا آغاز نہیں ہوسکا۔

اجلاس کتنی بار ملتوی ہوا؟

تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کےلیے قومی اسمبلی کا اجلاس صبح ساڑھے 10 بجے شروع ہوا اور آدھا گھنٹہ جاری رہنے کے بعد اسے پہلی بار ساڑھے 12 بجے تک ملتوی کیا گیا، بعد ازاں دو گھنٹے تاخیر سے دوبارہ اجلاس ڈھائی بجے شروع ہوا۔ تھوڑی ہی دیر بعد افطار اور نماز کی وجہ سے اجلاس کو ساڑھے سات بجے تک ملتوی کیا گیا۔

اس کے بعد ملتوی شدہ اجلاس شروع ہوا تو اسپیکر نے چوتھی بار اجلاس ساڑھے نو بجے تک کے لیے ملتوی کیا گیا اور پھر دو گھنٹے تاخیر کے باوجود بھی کارروائی کا آغاز نہیں ہوسکا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔