- سعودی دارالحکومت ریاض میں پہلا شراب خانہ کھول دیا گیا
- موٹر وے پولیس اہل کار کو ٹکر مارنے والی خاتون جوڈیشل ریمانڈ پر جیل روانہ
- کراچی میں رینجرز ہیڈ کوارٹرز سمیت تمام عمارتوں کے باہر سے رکاوٹیں ہٹانے کا حکم
- اوگرا کی تیل کی قیمتیں ڈی ریگولیٹ کرنے کی تردید
- منہدم نسلہ ٹاور کے پلاٹ کو نیلام کر کے متاثرہ رہائشیوں کو پیسے دینے کا حکم
- مہنگائی کے باعث لوگ اپنے بچوں کو فروخت کرنے پر مجبور ہیں، پشاور ہائیکورٹ
- کیا عماد، عامر اور فخر کو آج موقع ملے گا؟
- سونے کی قیمتوں میں معمولی اضافہ
- عمران خان، بشریٰ بی بی کو ریاستی اداروں کیخلاف بیان بازی سے روک دیا گیا
- ویمنز ٹیم کی سابق کپتان بسمہ معروف نے ریٹائرمنٹ کا اعلان کردیا
- امریکی یونیورسٹیز میں ہونے والے مظاہروں پر اسرائیلی وزیراعظم کی چیخیں نکل گئیں
- پولیس یونیفارم پہننے پر مریم نواز کیخلاف کارروائی ہونی چاہیے، یاسمین راشد
- قصور ویڈیو اسکینڈل میں سزا پانے والے 2 ملزمان بری کردیے گئے
- سپریم کورٹ نے اسپیکر بلوچستان اسمبلی عبدالخالق اچکزئی کو بحال کر دیا
- مرغی کی قیمت میں کمی کیلیے اقدامات کر رہے ہیں، وزیر خوراک پنجاب
- عوام کو کچھ نہیں مل رہا، سارا پیسہ سرکاری تنخواہوں میں دیتے رہیں گے؟ چیف جسٹس
- وزیراعلیٰ بننے کیلئے خود کو ثابت کرنا پڑا، آگ کے دریا سے گزر کر پہنچی ہوں، مریم نواز
- کلین سوئپ شکست؛ ویمنز ٹیم کی سلیکشن کمیٹی میں بڑی تبدیلیاں
- قومی اسمبلی کمیٹیاں؛ حکومت اور اپوزیشن میں پاور شیئرنگ کا فریم ورک تیار
- ٹرین میں تاریں کاٹ کر تانبہ چوری کرنے والا شخص پکڑا گیا
آٹھ ماہ کے شیرخوار بچے بھی غلط کام پر سزا دے سکتے ہیں
ٹوکیو: ایک تحقیق سے معلوم ہوا کہ آٹھ ماہ تک کے بچے بھی درست اور غلط کام کا ادراک رکھتے ہیں اور جب انہیں موقع ملتا ہے وہ اس کی سزا بھی دیتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ شیرخوار بچے بھی اخلاقیات سے واقف ہوتے ہیں اور یوں معاشرتی اخلاق کی حس ہماری اندرونی جبلت میں موجود ہوتی ہے۔
اگرچہ انسان بگڑنے پرآجائے تو تاریخی غلط کام کرتا ہے لیکن اس کے رحم دلی اور نیک طبعیت بھی مشہور ہے۔ اس ضمن میں جاپان کی اوساکا یونیورسٹی، اور اوٹسوما وومن یونیورسٹی نے دلچسپ تجربات سے ثابت کیا ہے کہ اخلاقی اقدار پیدائشی طور پر ہمارے دل و دماغ میں موجود ہوتے ہیں۔
اگرچہ چھوٹے بچے بول نہیں سکتے تو ان کے لیے ایک بہت سادہ ویڈیو گیم بنایا گیا۔ اس تجربے میں 8 ماہ کے 24 بچے لیے گئے۔ پہلے انہیں تربیت کے طور پر اسکرین پر دو چوکور ڈبے دکھائے جن پر آنکھیں بنی تھیں۔ بچوں کی آنکھوں کو بھی آئی ٹریسنگ ٹیکنالوجی سے دیکھا جارہا تھا۔ پھر اگر دو میں سے کسی ایک ڈبے پر بچے کی نگاہ کچھ دیر ٹھہرتی تو اس کے اوپر اسکرین سے ایک اور بڑا ڈبہ گرتا اور آنکھوں والے ڈبے کو پچکا دیتا تھا۔
اگلے مرحلے کا منظر کچھ پیچیدہ تھا۔ اس بار بچوں کو دکھایا گیا کہ آنکھوں والی ایک چوکور شکل کے ڈبے نے دوسے ڈبے کو خوامخواہ دبانا اور اسکرین کے کنارے تک دھکیلنا شروع کیا۔ بچے اس منظر کو دیکھتے رہے اور بار بار ایک ڈبے کی بدتمیزی کے بعد بچوں نے اپنا ردِ عمل طاہر کیا اور غلط کام کرنے والے ڈبے کو دیکھنا شروع کیا جس کے بعد نظر کو نوٹ کرنے والے سافٹ ویئر نے بدتمیز چوکور شکل پر اوپر سے ایک اور ڈبہ گراکر اسے پچکادیا۔ اس طرح بچوں نے غلط کام کرنے والے کو سزا دی۔
پورے تجربے میں 75 فیصد واقعات میں بچوں نے شرارتی ڈبے پر ایک اور چوکور شے گراکر انہیں سزا دی کیونکہ وہ غلط کام کررہے تھے۔ اسی عمل کو کئی اور طریقوں سے بھی آزمایا گیا اور یوں کئی مرتبہ بچوں نے شرارتی ڈبے کو سزا دی۔
اس تحقیق کے بعد ماہرین نے کہا ہے کہ اخلاقی اقدار بالخصوص درست اور غلط کا ادراک ہماری جبلت میں موجود ہے جو ارتقائی عمل کے بعد ہی ممکن ہوا ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔