- ورلڈ کپ میں شاہین، بابر کا ہی نہیں سب کا کردار اہم ہوگا، سی ای او لاہور قلندرز
- نادرا کی نئی سہولت؛ شہری ڈاک خانوں سے بھی شناختی کارڈ بنوا سکیں گے
- سونے کی عالمی اور مقامی مارکیٹوں میں قیمت مسلسل دوسرے روز کم
- کراچی سے پشاور جانے والی عوام ایکسپریس حادثے کا شکار
- بھارتی فوج کی گاڑی نے مسافر بس اور کار کو کچل دیا؛ 2 ہلاک اور 15 زخمی
- کراچی میں 7سالہ معصوم بچی سے جنسی زیادتی
- نیب ترامیم کیس؛ عمران خان کو بذریعہ ویڈیو لنک سپریم کورٹ میں پیشی کی اجازت
- کوئٹہ؛ لوڈشیڈنگ کیخلاف بلوچستان اسمبلی کے باہر احتجاج 6 روز سے جاری
- حکومت کو نان فائلرز کی فون سمز بلاک کرنے سے روکنے کا حکم
- آئی ایم ایف کا پاکستان کے ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم میں خرابیوں پر اظہارتشویش
- کراچی یونیورسٹی میں فلسطین سے اظہار یکجہتی؛ وائس چانسلر نے مہم کا آغاز کردیا
- کراچی میں شدید گرمی کے دوران 12، 12 گھنٹے لوڈشیڈنگ، شہری بلبلا اٹھے
- کم عمر لڑکی کی شادی کرانے پر نکاح خواں کیخلاف کارروائی کا حکم
- جنوبی وزیرستان؛ گھر میں دھماکے سے خواتین سمیت 5 افراد جاں بحق
- آزاد کشمیر میں جوائنٹ ایکشن کمیٹی کا احتجاج ختم کرنے کا اعلان
- جوسز پر فیڈرل ایکسائز ٹیکس؛ خسارے کا سودا
- وزیراعظم کا اسٹریٹیجک اداروں کے سوا تمام ریاستی ملکیتی اداروں کی نجکاری کا اعلان
- طبی آلات کی چارجنگ، خطرات اور احتیاطی تدابیر
- 16 سال سے بغیر کچھ کھائے پیے زندہ رہنے والی خاتون
- واٹس ایپ صارفین کو نئی جعلسازی سے خبردار رہنے کی ہدایت
میٹا صارفین پر نظر رکھنے کے لیے ویب سائٹس میں کوڈ شامل کر رہی ہے، تحقیق
کیلیفورنیا: گوگل کے ایک سابق انجینیئر کی نئی تحقیق کے مطابق فیس بک اور انسٹاگرام کی مالک کمپنی میٹا اپنے صارفین کی جانب سے کھولی جانے والی ویب سائٹس نقل کر رہی ہے تاکہ جب وہ صارفین اِن ایپس میں لنک کو کلک کریں تو کمپنی ان صارفین کی انٹرنیٹ پر نگرانی کرسکے۔
پرائیویسی محقق فیلکس کراس کا کہنا ہے کہ انسٹاگرام ایپ دِکھائی جانے والی ہر ویب سائٹ بشمول دِکھائے جانے والے اشتہارات میں اپنا ٹریکنگ کوڈ شامل کردیتی ہے۔ جس کے بعد یہ ایپ صارفین کی تمام حرکات پر نظر رکھتی ہے جیسے کہ ہر بٹن یا لنک جو کلک کیا گیا ہو، ٹیکسٹ جو منتخب کیا گیا ہو، جو اسکرین شاٹ لیا گیا ہو۔ اس کے ساتھ کسی قسم کی داخل کی گئی معلومات جیسے کہ پاسورڈ، ایڈریس اور کریڈٹ کارڈ نمبر بھی اسی میں شامل ہیں۔
یہ دو ایپ اس بات کا فائدہ اٹھا رہی ہیں کہ ان کے صارفین جب ایپ میں موجود کسی لنک کو کلک کرتے ہیں تو سفاری یا فائر فاکس کے بجائے ان ایپس کے براؤزر پر ہی لنک کھلتے ہیں۔
میٹا نے ایک بیان میں کہا کہ ٹریکنگ کوڈ کا ڈالا جانا صارفین کی ترجیحات کے تابع ہوتا ہے کہ آیا وہ ایپ کو ان پرنظر رکھنے کی اجازت دیتے ہیں یا نہیں۔ اس کوڈ کا مقصد اشتہارات کی بابت صارفین کا ڈیٹا جمع کرنے کے لیے استعمال کرنا تھا۔
ایک ترجمان کا کہنا تھا کہ ہم نے یہ کوڈ قصداً بنایا تھا تاکہ پمارے پلیٹ فارمز پر صارفین کے پسند نا پسند احترام کیا جائے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔