محض کہنے سے کوئی ٹرانسجینڈر نہیں بن جاتا، وفاقی شرعی عدالت

ویب ڈیسک  منگل 20 ستمبر 2022
ٹرانسجینڈر ایکٹ کیس میں سینیٹر مشتاق و دیگر کی فریق بننے کی درخواستیں منظور

ٹرانسجینڈر ایکٹ کیس میں سینیٹر مشتاق و دیگر کی فریق بننے کی درخواستیں منظور

 اسلام آباد: وفاقی شرعی عدالت نے سینیٹر مشتاق خان، فرحت اللہ بابر ، الماس بوبی سمیت مختلف افراد کی فریق بننے کی درخواستیں منظور کرلیں۔

وفاقی شرعی عدالت میں ٹرانسجینڈر ایکٹ 2018 کے خلاف درخواست پر سماعت ہوئی۔

عدالت نے سینیٹر مشتاق احمد خان ،فرحت اللہ بابر ، الماس بوبی سمیت مختلف افراد کی فریق بننے کی درخواستیں منظور کرلیں اور تمام فریقین کو اپنی گزارشات تحریری طور پر جمع کروانے کی ہدایت کی۔

اوریا مقبول جان نے کہا کہ بل بنتے وقت پوری اسمبلی نے بل کو منظور کیا تھا۔ وکیل وزارت انسانی حقوق نے کہا کہ وزارتِ انسانی حقوق کا کام صرف عمل کرنا ہے۔

قائم مقام چیف جسٹس شرعی عدالت نے ریمارکس دیے کہ اصل مسئلہ حقوق کا ہے، جس کے بھی جو حقوق ہیں وہ ملنے چاہئیں، کمیونٹی کو تحفظ اور حق دینا ہی اصل مقصد ہے، لیکن جس طرح کوئی آنکھیں بند کرلے تو وہ نابینا نہیں بن جائے گا، اس طرح خود کو ٹرانسجینڈر کہنے سے ٹرانسجینڈر نہیں بنے گا۔

فرحت اللہ بابر نے کہا کہ بل بنتے وقت میں اس سارے عمل میں شامل تھا، بل پر کیا اعتراضات تھے کیا بحث ہوئی عدالت کو بتانا چاہتا ہوں، دو بلز کو ملا کر ایک بل بنایا گیا تھا۔

سینیٹر مشتاق احمد خان کے وکیل نے گزارشات پیش کیں کہ سینیٹ میں نیا بل جمع کروایا گیا ہے، کسی کو اپنی مرضی سے جنس تبدیل کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔

نجی این جی او وکیل اور ٹرانسجینڈر ببلی ملک نے کہا کہ ٹرانسجینڈر قانون میں چیزوں کو مکس کردیا گیا ہے، ٹرانسجینڈر دراصل ایک پیدائشی نقص ہے، ایل جی بی ٹی کمیونٹی اور ہم ٹرانسجینڈر بلکل مختلف ہیں، بہتر ہے کہ عدالت کسی جنس کے ماہر کی معاونت حاصل کرے، فرازنہ باری ،فاطمہ احسان سمیت بہت سے جنس کے ماہر موجود ہیں۔

اوریا مقبول جان نے جواب دیا کہ جنسی ماہر صرف دیکھ کر رائے دیتا ہے، ڈاکٹر کے سرٹیفکیٹ کے بغیر جنس کا تعین نہیں ہو سکتا۔

ٹرانسجینڈرز نے سوشل میڈیا بحث پر پابندی کی استدعا بھی کی۔ عدالت نے کیس کی مزید سماعت غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کردی۔

واضح رہے کہ 2018 میں وفاقی حکومت کی جانب سے ٹرانسجینڈر پرسنز ایکٹ 2018 منظور کیا گیا تھا جس کے تحت کسی بھی شخص کو خود کو محسوس شدہ صنفی شناخت کے ساتھ رجسٹرڈ کروانے کا حق دیا گیا تھا جس کے بعد ملک میں شور مچا کہ اس ایکٹ کے بعد جو شخص خود کوجیسا چاہے وہ اس جنس میں رجسٹرڈ کروا سکتا ہے جو کہ غیر شرعی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔