- فیصل واوڈا نے عدالتی نظام پر اہم سوالات اٹھا دیئے
- پاکستان کو آئی ایم ایف سے قرض کی نئی قسط 29 اپریل تک ملنے کا امکان
- امریکی اکیڈمی آف نیورولوجی نے پاکستانی پروفیسر کو ایڈووکیٹ آف دی ایئر ایوارڈ سے نواز دیا
- کوہلو میں خراب سیکیورٹی کے باعث ری پولنگ نہیں ہوسکی
- 9 ماہ کے دوران 9.8 ارب ڈالر کا قرض ملا، وزارت اقتصادی امور ڈویژن
- نارووال: بارات میں موبائل فونز سمیت قیمتی تحائف کی بارش
- کراچی کے مختلف علاقوں میں زلزلے کے جھٹکے
- کوئٹہ: برلن بڈی بیئر چوری کے خدشے کے پیش نظر متبادل جگہ منتقل
- گجرات میں اسپتال کی چھت گرنے سے خاتون سمیت تین افراد جاں بحق
- سعودی فرمانروا طبی معائنے کیلیے اسپتال میں داخل
- امریکی سیکریٹری اسٹیٹ سرکاری دورے پر چین پہنچ گئے
- ہم یہاں اچھی کرکٹ کھیلنے آئے ہیں، جیت سے اعتماد ملا، مائیکل بریسویل
- پچھلے میچ کی غلطیوں سے سیکھ کر سیریز جیتنے کی کوشش کرینگے، بابراعظم
- امریکا میں ٹک ٹاک پر پابندی کا بل سینیٹ سے بھی منظور
- محمد رضوان اور عرفان خان کو نیوزی لینڈ کے خلاف آخری دو میچز میں آرام دینے کا فیصلہ
- کے ایم سی کا ٹریفک مسائل کو حل کرنے کیلئے انسداد تجاوزات مہم کا فیصلہ
- موٹروے پولیس اہلکار کو روندنے والی خاتون گرفتار
- ہندو جیم خانہ کیس؛ آپ کو قبضہ کرنے نہیں دیں گے، چیف جسٹس کا رمیش کمار سے مکالمہ
- بشری بی بی کو کچھ ہوا تو حکومت اور فیصلہ سازوں کو معاف نہیں کریں گے، حلیم عادل شیخ
- متحدہ وفد کی احسن اقبال سے ملاقات، کراچی کے ترقیاتی منصوبوں پر تبادلہ خیال
جانوروں کو دی جانیوالی خوراک اربوں لوگوں کی بھوک مٹانے کیلیے کافی ہے، تحقیق
ہیلسنکی: ماحولیاتی سائنس دانوں نے اندازہ لگایا ہے کہ جانوروں کا پیٹ بھرنے کے لیے جس مقدار میں غذا کا استعمال کیا جاتا ہے وہ اربوں لوگوں کی بھوک مٹانےکےلیے کافی ہے۔
اناج اور مچھلی جو انسان کے کھانے کے لائق چیزیں ہوتی ہیں ان کو مویشیوں کے غذا کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے اور ان کا باآسانی موجودہ غذائی نظام کے فضلے سے تبادلہ ہوسکتا ہے۔
فِن لینڈ کی آلٹو یونیورسٹی کے محققین نے ایک تحقیق میں دیکھا کہ جانوروں کی موجودہ غذاؤں کے مرکبات میں معمولی سی تبدیلیوں سے لوگوں کو 13 فی صدزیادہ کیلوریز فراہم کی جاسکتی ہیں۔
اس عمل سے ہمارے قدرتی وسائل کے استعمال میں اضافہ یا بڑی غذائی تبدیلیاں واقع نہیں ہوں گی۔ صرف اس چیز کا استعمال ہوگا جو ہم ابھی پھینک دیتے ہیں۔
تحقیق کی رہنماء مصنفہ ڈاکٹر وِلما سینڈسٹروم کا کہنا تھا کہ ہمیں غذائی نظام کی پھر سے ترتیب کی ضرورت ہوگی تاکہ صنعتیں اور غذا ساز فضلے کے لیے ان مویشی اور مچھلیوں کی غذا بنانے والوں کو ڈھونڈ سکیں جن کو ان کی ضرورت ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ کچھ اقسام کے فضلوں کو غذا کے طور پر استعمال کرنے سے قبل رد و بدل کی ضرورت ہوگی۔ ایسا نہیں لگتا ایسا کرنے میں کوئی سنجیدہ نوعیت کا مسئلہ ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ جو ہم بتا رہے ہیں وہ مخصوص پیمانے پر اور کچھ علاقوں میں پہلے ہی ہو رہا ہے، لہٰذا یہ کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس کو بالکل شروع سے شروع کرنا ہوگا۔
فی الوقت اندازاً اناج کی فصلوں کا ایک تہائی حصہ جانوروں کو کھلانے میں استعمال ہوتا ہے اور پکڑی گئی مچھلیوں کا تقریباً ایک چوتھائی حصہ لوگوں کھلانے کے لیے استعمال نہیں کیا جاتا۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔