جنگ ستمبر؛ بے مثال جرأت، بہادری اور لازوال قربانیوں سے عبارت 17 دن

غلام محی الدین  ہفتہ 6 ستمبر 2014
اس جنگ میں میں پاک فوج نے بہادری، شجاعت اور جوانمردی کی وہ بے مثال داستانیں رقم کیں جن کی مثال پیش کرنا مشکل ہے۔  فوٹو: فائل

اس جنگ میں میں پاک فوج نے بہادری، شجاعت اور جوانمردی کی وہ بے مثال داستانیں رقم کیں جن کی مثال پیش کرنا مشکل ہے۔ فوٹو: فائل

جنگ ستمبر 1965 بلا شبہ ہماری تاریخ کا ایک اہم باب ہے۔ اس جنگ کے حوالے سے ہمارے اپنے ملک کے بعض حلقے معروف تصور سے مختلف رائے رکھتے ہیں اور اس کا برملا اظہار بھی کرتے ہیں۔

اُن کے خیال میں یہ جنگ بے نتیجہ رہی۔ اس حد تک یہ بات درست ہے کہ اس جنگ کی وجہ بننے والے مسلہء کشمیر کے حل کی کوئی صورت سامنے نہیں آئی لیکن اس معرکے کی پاکستان کے نزدیک اہمیت یہ ہے کہ اگر پاکستانی قوم متحد ہو اور اپنے مقاصد کے ساتھ وابستگی غیر متزلزل ہو تو اپنے سے کئی گُنا بڑی طاقت کا بھی کامیابی کے ساتھ مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔

اس جنگ کے تکنیکی پہلوؤں پر بحث میں بہت سی ایسی باتیں منظر عام پر آچکی ہیں جنہیں غلطیاں قرار دیا جا سکتا ہے لیکن اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پاکستانی قوم اور پاک فوج کا جیسا شاندار عزم اس آزمائش میں سامنے آیا وہ مثالی تھا اور اسی روح کا احیاء آج بھی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اقوام کی تاریخ میں آزمائشوں اور معرکوں کی اہمیت فتح اور شکست سے بڑہ کر مستقبل میں ان سے حاصل ہونے والے سبق سے فائدہ اُٹھانا ہوتا ہے۔ افسوس کہ ہم نے اس معاملے میں کھویا زیادہ اور پایا کم ہے۔

اگر ہم جنگ ستمبر کا تجزیہ کریں تو شاید ہماری مسلح افواج کی شاندار کارکردگی کی اہم ترین وجوہات میں سے ایک یہ احساس تھا کہ پوری پاکستانی قوم ایک مضبوط دیوار کی طرح اپنی فوج کی پشت پر کھڑی تھی۔ کتنی عجیب بات ہے کہ جنگ ستمبر کے دوران پورے ملک میں کوئی بڑی مجرمانہ واردات نہیں ہوئی۔ ہر شہری پوری دیانت داری کے ساتھ دشمن کو شکست دینے کے لئے اپنی خدمات پیش کرنے کو تیار تھا۔ جس روز میجر عزیز بھٹی نے جام شہادت نوش کیا اس صبح لاہور سے اس محاذ پر برسرپیکار افسروں اور جوانوں کے لئے حلوہ پوری کا ناشتہ پہنچا تھا۔ جو کچھ کسی کے پاس تھا اس نے نتائج کی پروا کئے بغیر وطن کے دفاع کے لئے پیش کر دیا۔

تاریخ عالم میں ہونے والی مختلف جنگوں کی طرح پاک بھارت جنگ ستمبر پر بھی بے تحاشا لکھا جا چکا ہے اور آج بھی یہ بحث جاری ہے اور آئندہ بھی اس کے مختلف پہلوؤں کا تجزیہ ہوتا رہے گا۔

جنگ ستمبر کے بارے میں پہلا اور اہم ترین سوال یہ ہے کہ جنگ میں جارحیت کا ارتکاب کس نے کیا؟ اس سوال کے دو پہلو ہیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ بھارت نے مسلسل ایسے اقدامات کو جاری رکھا جو کشمیر کی بین الاقوامی سطح پر متنازعہ حیثیت کے بالکل برعکس تھے۔ کشمیر کے مسئلے پر پاکستان اور بھارت دو بنیادی فریق ہیں… اس حوالے سے ان دونوں ملکوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ بین الاقوامی برادری کے سامنے کئے ہوئے وعدوں کی پاسداری کریں لیکن اس سلسلے میں بھارت نے کبھی اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کیں۔

دراصل بھارت نے اپنے غیر ذمہ دارانہ اقدامات کے ذریعے پاکستان کو مجبور کر دیا تھا کہ وہ بھارت کو اپنے مقاصد سے باز رکھنے کی کوشش کرے۔ اس مسئلے کا ایک اہم ترین پہلو یہ ہے کہ بھارت کشمیر کی متنازعہ حیثیت کو ختم کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کو بھارت کا حصہ بنانے کے لئے آئینی اقدامات کر رہا تھا۔ پاکستان کے بارہا کہنے کے باوجود عالمی تنظیم نے کوئی ایکشن نہیں لیا۔

قبل ازیں بھارت نے رن آف کچھ میں پاکستانی علاقے پر حملہ کیا۔ وہاں سے شکست کھانے کے بعد مقبوضہ کشمیر کو بھارتی وفاقی ڈھانچے میں شامل کر لیا اور کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ کہنا شروع کر دیا حالانکہ کچھ ہی عرصہ پہلے بھارت بین الاقوامی برادری کے سامنے کشمیر میں استصواب رائے کا وعدہ کر چکا تھا۔ ایسی صورت میں پاکستان کا ہاتھ پر ہاتھ دھرے رہنا کسی طور منطقی بات نہیں۔

عسکری امور کے ممتاز ماہر Russel Brines نے جنگ ستمبر پر The indo Pakistan conflict نامی کتاب لکھی ہے جسے عسکری حلقوں میں بہت معتبر تصنیف سمجھا جاتا ہے۔ وہ بھارت کے اس اقدام پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتا ہے ’’مقبوضہ کشمیر کو بھارت کا صوبہ قرار دینے کا اقدام بالکل ایسا ہی تھا جیسا جنگ ستمبر سے 20 سال پہلے کانگریس نے کیا تھا۔ کانگریس کی منفی سیاست کے باعث قائداعظم جیسا مدبر سیاست دان بھی ڈائریکٹ ایکشن (راست اقدام) پر مجبور ہو گیا۔ اسی کے نتیجے میں کلکتہ میں فسادات پھوٹ پڑے تھے۔‘‘

اپنے اس تجزیے کے آخر میں Russel لکھتا ہے ’’بھارت کے اس انتہائی اقدام نے پاکستان کی طرف سے سیاسی مقاصد طاقت کے ذریعے حاصل کرنے کا معقول جواز پیدا کر دیا تھا۔ کشمیر کو بھارت کا حصہ بنانے کا اعلان کر کے بھارت نے خود ہی جنگ کو ناگزیر بنا دیا تھا۔‘‘

کسی بھی ملک کا شہری اپنے وطن کا سفیر ہوتا ہے اور دوسرے ملکوں کے لوگ اس سے توقع کرتے ہیں کہ وہ اپنے ملک کی تاریخ اور قومی نوعیت کے معاملات پر درست مؤقف سے آگاہ ہوں۔ آج تک جو بھی جنگ ستمبر کی بات کرتا ہے آپریشن جبرالٹر سے شروع کرتا ہے حالانکہ معاملہ بھارت کے نندا کمیشن کی رپورٹ پر عملدرآمد سے شروع ہوتا ہے جس کے تحت مقبوضہ کشمیر کو بھارت کا حصہ قرار دے دیا گیا۔

جارحیت میں پہل بھارت نے کی تھی اور پاکستان کے پاس اس کے سوا اور کوئی راستہ نہیں تھا کہ وہ اس معاملے کو ایک مسئلے کی شکل میں زندہ رکھنے کے لئے کوئی عملی قدم اٹھاتا۔ سارے پاکستانیوں کو چاہئے کہ وہ اس حقیقت کو سمجھیں اور خود کو ان معلومات سے لیس کریں۔

4 ستمبر 1965ء کے روز جی ایچ کیو راولپنڈی کے آپریشن روم میں معمول کی سرگرمیاں جاری تھیں۔ کمانڈر ان چیف جنرل موسیٰ اپنی کرسی پر بیٹھے آل انڈیا ریڈیو سن رہے تھے۔ اسی دوران ریڈیو پر اعلان ہوا کہ چند لمحوں بعد ایک اہم خبر نشر کی جانے والی ہے۔ تھوڑی دیر بعد یہ مختصر خبر نشر کی گئی ’’پردھان منتری (وزیراعظم) نے لوک سبھا کو بتایا ہے کہ پاک فوج سیالکوٹ سے جموں کی طرف پیش قدمی کر رہی ہے۔‘‘ یہ سفید جھوٹ تھا۔ جنرل موسیٰ کمرے سے باہر نکل آئے۔ وہ کچھ دیر تازہ ہوا میں سانس لینا چاہتے تھے۔ ان کا دماغ تیزی سے کام کر رہا تھا اور ممکنہ خطرات صاف نظر آ رہے تھے۔ باہر کھڑے کھڑے انہوں نے سوچا کہ یقینا بھارت آپریشن گرینڈ سلام کو ناکام بنانے سے زیادہ بڑے اقدام کرنے والا ہے۔

جب جنرل موسیٰ آپریشن روم میں واپس آئے تو افسر اس خبر کے حوالے سے بحث کر رہے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ سرحدوں پر موجود فوج کو اگلی دفاعی پوزیشنوں پر قبضے کے احکامات جاری کر دیئے جانے چاہئیں۔

4 ستمبر کو سرحدوں پر موجود کمانڈروں کو یہ پیغام بھیجا گیا: ’’تازہ ترین انٹیلی جنس اطلاعات کے مطابق بھارت سرحدوں پر فوج جمع کر رہا ہے اور آل انڈیا ریڈیو پاک فوج کی پیش قدمی کی جھوٹی خبریں نشر کر رہا ہے۔ اس سے ظاہر ہے کہ بھارت کے عزائم جارحانہ ہیں لہٰذا تمام فارمیشنز دفاعی نقطہ نظر سے ضروری اقدامات بروئے کار لائیں۔‘‘

5 ستمبر کو آل انڈیا میں بار بار یہ اعلان نشر ہونا شروع ہوا کہ وزیراعظم شاستری اگلے 24 گھنٹوں  میں کوئی اہم اعلان کرنے والے ہیں۔ ادھر ریڈیو پاکستان بار بار اکھنور پر جلد قبضے کی نوید سنا رہا تھا۔ اخبارات کا بھی یہی حال تھا۔ 5 ستمبر ہی کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے قرارداد منظور کی جس میں بھارت اور پاکستان سے فائربندی کا کہا گیا۔ مقبوضہ کشمیر میں قائم انقلابی کونسل نے سلامتی کونسل کی اپیل کو رد کر دیا اور کہا کہ حریت پسند اس جنگ کو منطقی نتیجے تک پہنچائیں گے۔

6 ستمبر کو 9 بجے پاکستان کے چیف آف جنرل سٹاف نے تمام ڈائریکٹرز کا اجلاس جی ایچ کیو میں طلب کیا۔ اجلاس کو بتایا گیا کہ بھارت نے لاہور اور سیالکوٹ پر حملہ کر دیا ہے۔ انہوں نے اپنا خطاب ان الفاظ پر ختم کیا: ’’جو کچھ ہمارے پاس ہے سب کے سامنے ہے اور ری پلیس منٹس ناممکن ہیں Good Luck‘‘ اور اجلاس ختم ہو گیا۔ آپریشن گرینڈ سلام کے بارے میں لیفٹیننٹ جنرل گل حسن کا مؤقف ہے کہ اگر اسے دو تین دن پہلے شروع کر لیا جاتا تو صورت حال بہت مختلف ہوتی۔

اس جنگ میں میں پاک فوج نے بہادری، شجاعت اور جوانمردی کی وہ بے مثال داستانیں رقم کیں جن کی مثال پیش کرنا مشکل ہے۔ بالخصوص پاک فضائیہ نے اپنی فضائی لڑائیوں اور بری فوج کی مدد کے لئے زمینی کارروائیوں میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ اگر فضائیہ ایسی بے مثال کارکردگی کا مظاہرہ نہ کرتی تو بھارتی حملے کو روکنا بہت مشکل ہوتا۔ پاک بحریہ نے بھی انتہائی کم وسائل کے باوجود کھلے سمندر میں نکل کر دوارکا کا بھارتی ریڈار اسٹیشن نیست و نابود کر دیا۔ دنیا کی جنگوں کی تاریخ میں انفرادی جرات ، قائدانہ صلاحیتوں اور قومی اتحاد کے حوالوں سے جنگ ستمبر ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔

قائد اعظمؒ اور مسئلہ کشمیر

مسئلہ کشمیر ستمبر 1965 کی پاک بھارت جنگ کی بنیادی وجہ تھا۔ اس کے علاوہ 1948 لڑائی اور کارگل کا معرکہ بھی اسی تنازعہ کی وجہ سے ہوا۔ یہاں ہم کشمیر کے بارے کانگریس اور مسلم لیگ کے موقف کا ایک جائزہ پیش کر رہے ہیں۔

ہندوستان کو دوقسم کی سیاسی حیثیتوں میں تقسیم کیا جاتا تھا یعنی ’’برطانوی بھارت‘‘ اور ’’ہندوستانی بھارت‘‘۔ ہندوستانی بھارت میں وہ ریاستیں شامل تھیں جو اندرونی طور پر تو خود مختار تھیں مگر ان کے دفاعی اور خارجہ امور کا انتظام و انصرام برطانیہ کے پاس ہی تھا اور حیدر آباد اور کشمیر جیسی ریاستیں بیرون ممالک کے ساتھ معاہدوں کے لئے برطانوی حکومت کے زیر نگیں تھیں۔ یہ پاسپورٹ بھی جاری کرنے کی مجاز نہ تھیں مگر صرف برطانوی حکومت کی اجازت کے ساتھ۔

ڈاکٹر ریاض احمد نے قائد کے متعلق اپنی کتاب میں اس امر کو واشگاف کیا ہے کہ ’’اُس وقت کانگریس کا موقف یہ تھا کہ بھارت میں صرف دو ہی قوتیں ہیں ’کانگریس اور برطانیہ‘ جبکہ اس کے جواب میں قائداعظم کہا کرتے تھے کہ برصغیر میں چار قوتیں ہیں جن میں برطانوی حکومت ’’ہندو کانگریس‘‘ مسلم لیگ اور مقامی ریاستیں شامل ہیں۔ مسلم لیگ ان ریاستوں کے معاملات میں براہ راست انداز میں اثر انداز نہیں ہوتی تھی مگر ’’آل انڈیا اسٹیٹس مسلم لیگ ‘‘ جو ’’دو قومی نظریہ‘‘ پر استوار تھی اس کمی کو یوں دور کرتی تھی کہ دوسری ریاستوں میں مسلم لیگ کے نظرئے پر بننے والی مقامی جماعتیں اس سے ہی رہنمائی لیتی تھیں۔

1934ء میں علامہ اقبال نے برصغیر کے مسلمانوں سے اپیل کی تھی کہ انہیں 14 اگست 1934ء کا دن ’’کشمیر ڈے‘‘ کے طور پر منانا چاہئے کیونکہ کشمیری اسلامی ریاستوں کی آزادی کے بغیر ’’مسلم انڈیا‘‘ کا خواب ادھورا ہی رہے گا۔

1926ء میں جب قائداعظم نے پہلی بار کشمیر کا دورہ کیا تو وہاں پر کوئی سیاسی بیداری نہ تھی بلکہ سیاسی جماعت بنانے اور سیاسی سرگرمیوں پر پابندی تھی۔ درحقیقت جب چند کشمیری سرکردہ لوگوں نے وائسرائے کو ایک یادداشت پیش کی جس میں تعلیمی اور معاشی میدانوں میں کشمیری مسلمانوں کے مسائل کو حل کرنے کی استدعا کی گئی تھی تو اس یادداشت پر دستخط کنندہ افراد کو ریاستی جبر کا نشانہ بنایا گیا۔ اس کا جواب آل انڈیا مسلم لیگ ورکنگ کمیٹی کے لاہور میں منعقدہ اجلاس میں قائد اعظم کی طرف سے پیش کی جانے والی قرارداد متفقہ طور پر منظور کی گئی جس میں یاد داشت والے مطالبات دہرائے گئے تھے۔

1936ء میں قائداعظم نے کشمیر کا دوسری بار دورہ کیا، اس وقت تک محمد عبداللہ اور چودھری غلام عباس کی لیڈرشپ میں مسلم کانفرنس 1932ء سے وجود میں آ چکی تھی۔ مگر یہ انڈین نیشنل کانگرس کے زیر اثر آرہی تھی جس کی منظوری پر ہی کچھ شرائط کے زیر اثر کشمیر کو آزادی و خود مختاری تفویض کی جانی تھی، مگر یہ کبھی بھی عمل پذیر نہ ہو سکا۔ قائداعظم کے سامنے جب ہندو مسلم اتحاد کی تجویز رکھی گئی تو انہوں نے اسے سراہا مگر وہ جانتے تھے کہ برطانوی بھارت کے زیر اثر اقلیت اور خاص طور پر مسلمان بھی اپنے حقوق حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے گی۔

انڈین نیشنل کانگریس کے زیر اثر مسلم کانفرنس آف کشمیر کا نیشنل کانفرنس میں تبدیل ہو جانا کشمیری مسلمانوں کے لئے ایک المیہ تھا کیونکہ نیشنل کانفرنس بھی انڈین نیشنل کانگرس کے زیر اثر تھی اور اسی کی ایک شاخ کے طور پر کام کر رہی تھی۔ لاہور میں قرارداد پاکستان کی منظوری کے ساتھ ہی کشمیری مسلمانوں نے کشمیر میں مسلم لیگ کی بنیاد رکھ دی۔

بعد ازاں کشمیر میں مسلم کانفرنس کی از سر نو داغ بیل ڈالی گئی جس نے مسلمانوں کی آئیڈیالوجی کو ترویج دینے کا بیڑہ اٹھایا۔ شیخ عبداللہ نے کشمیری حکومت، جس کے وزیراعظم اس وقت گوپال سوامی آیانگر تھے، کے ساتھ مل کر منفی حربوں کے ذریعے مسلم کانفرنس کو دبانے کی ہر ممکن کوشش کی، مسلم کانفرنس کے اثر و رسوخ کو ختم کرنے کے لئے شیخ عبداللہ نے قائداعظم سے مل کر ان کی ہمدردیاں حاصل کرنے کی کوشش کی اور انہیں کشمیر آنے کی دعوت دی جبکہ مسلم کانفرنس کے لیڈروں نے بھی قائد کو دورہ کشمیر کی دعوت دی۔

قائداعظم کشمیر پہنچے تو شیخ عبداللہ نے یہ کہہ کر قائداعظم کو مسلم کانفرنس سے متنفر کرنے کی کوشش کی کہ کشمیر جیسے غالب مسلم آبادی والے علاقے میں مسلم کانفرنس کے نام سے صرف مسلمانوں کی نمائندہ جماعت کا کوئی جواز نہیں۔ کیونکہ کشمیر میں موجود نیشنل کانفرنس کے زیادہ تر ممبران مسلمان ہیں اس لئے مسلمانوں کے مفادات کو زک پہنچنے کا کوئی خطرہ نہ ہے، مگر بعدازاں مسلم کانفرنس اور مسلم سٹوڈنٹ یونین کے سالانہ سیشن کے موقع پر قائد نے فرمایا کہ ’’یہ انڈین نیشنل کانگریس سے مماثل پالیسی ہے کہ جو خود کو ہندو مسلم اور دیگر اقوام کی نمائندہ ثابت کرنے کی کوشش کرتی ہے مگر درحقیقت صرف ہندوئوں کے مفادات کی محافظ ہے۔

یہ دھوکہ پر مبنی پالیسی ہے جسے مسلمان ناپسند کرتے ہیں۔ میں غیر مسلموں کے حقوق کے خلاف نہیں ہوں مگر کشمیر کے غیر مسلموں کی اپنی پارٹی ہونی چاہئے جبکہ مسلمانوں کی اپنی پارٹی جبکہ دونوں پارٹیوں کے لیڈران مل کر فیصلہ کر سکتے ہیں کہ ریاست کے مفاد میں کیا بہتر ہے۔‘‘

قائد کے نقطہ نظر نے شیخ عبداللہ کو سیخ پا کر دیا۔ شیخ عبداللہ نے سری نگر میں قائداعظم کے خلاف غیر پارلیمانی زبان کا استعمال بھی کیا اور قائد کو کشمیر بدر کرنے کی دھمکی بھی دی، مگر قائداعظم اس کے بعد بھی ایک ماہ سے زیادہ کشمیر میں رہے جبکہ بعد کے سیاسی حالات نے ثابت کیا کہ قائداعظم کی سیاسی فراست اور فیصلے ہر لحاظ سے درست تھے۔ شیخ عبداللہ نے بعدازاں ’’کشمیر چھوڑ دو‘‘ تحریک شروع کی، مگرقائداعظم کے خبردار کرنے پر مسلمان اس تحریک سے دور رہے جو آخر کار تحریک کی ناکامی اور شیخ عبداللہ کی گرفتاری پر منتج ہوئی جس کو مقدمے کے بعد جیل بھیج دیا گیا۔

برصغیر کی آزادی کا سورج طلوع ہونے کے قریب تھا۔ کانگریس کو احساس ہوا کہ شیخ عبداللہ کے علاوہ کشمیر میں ان کے لئے کوئی ’’کٹھ پتلی‘‘ دستیاب نہیں ہے اس لئے انہوں نے شیخ عبداللہ کی مالی امداد شروع کی اور گاندھی اور نہرو کی کوششوں سے شیخ عبداللہ کو اسی شرط پر رہائی ملی کہ وہ کشمیر کے بھارت کے ساتھ الحاق کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔ بدقسمتی سے مسلم کانفرنس کے لیڈران نے ’’کشمیر چھوڑ دو‘‘ تحریک سے کنارہ کشی کے مشورہ پر سختی سے عمل نہ کیا۔

بلاشک 1946ء میں ان لیڈران نے شیخ عبداللہ کا اصل چہرہ بے نقاب کرنے کی کوشش کی مگر دیر ہو چکی تھی۔ مسلم کانفرنس کے 4 میں سے 3 لیڈروں کو جیل بھیج دیا گیا۔ پاکستان معرض وجود میں آ چکا تھا مگر کشمیری مسلمانوں کے پاکستان کے ساتھ الحاق کی رہنمائی کے لئے سرکردہ مسلمان لیڈروں کی غیر موجودگی نے منفی اثرات مرتب کئے، حالانکہ کشمیری مسلمانوں نے متوازی حکومت قائم کرکے ڈوگرہ راج کا اختتام کر دیا تھا۔

27 اکتوبر 1947ء کو بھارت کے کشمیر پر حملہ کے محرکات سے کون واقف نہیں۔ اسی دن قائداعظم نے پاک افواج کے سربراہ کو جموں اور سری نگر میں فوج بھیجنے کے احکامات جاری کئے مگر بدقسمتی سے ان احکامات پر عملدرآمد نہ ہو سکا۔ یہ نقطہ قابل غور ہے کہ ایک لحاظ سے کشمیری پہلے ہی پاکستان سے الحاق کا عندیہ دے چکے تھے کیونکہ 11 اگست 1947ء کو کشمیری حکومت کی جانب سے پاکستان کو ’’ا سٹینڈ اسٹل‘‘ معاہدہ کی پیشکش کی، یہ پیشکش بھارتی حکومت کوبھی کی گئی مگر چونکہ بھارت کشمیر پر بزور قوت قبضہ کرنا چاہتا تھا، اس لئے اس پیشکش کا کوئی جواب نہیں دیا گیا۔

افسوس کہ اگر بروقت پاکستانی افواج کشمیر میں پہنچ کر ’’دامودار ائرسٹرپ‘‘ (Dam,dar Air Strip) کو اپنے کنٹرول میں کرلیتیں تو آج حالات مختلف ہوتے۔ دامودار پر قبضہ کرنا افواج کے لئے نہایت آسان تھا اور یہ واحد مقام تھا کہ جہاں پر بھارتی افواج اتر سکتی تھیں مگر بوجوہ ایسا نہ کیا گیا یا نہ ہو سکا۔ بظاہر اس معمولی غلطی کے بھیانک نتائج برآمد ہوئے اور آج تو نصف صدی سے زائد عرصہ گزرنے کے بعد بھی کشمیری محکموم و مقہور ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔