عیدالاضحی کی اصل روح

دنیا بھر کے مسلمان اسی سنت ابراہیمی پر عمل کرتے ہوئے قربانی کرتے ہیں


Editorial October 05, 2014
مسلم حکومتوں کے لیے سب سے بڑا خطرہ خود مسلمان بن چکے ہیں جو مذہب کی آڑ لے کر اپنے ہی ملکوں اور حکومتوں کو عدم استحکام سے دوچار کر رہے ہیں، فوٹو:فائل

آج پاکستان میں عیدالاضحی پورے دینی جذبے اور عقیدت و احترام سے منائی جا رہی ہے۔ مسرت کا یہ دن سنت ابراہیمی کی وہ یاد تازہ کرتا ہے جب حضرت ابراہیم ؑ نے اپنے عزیز بیٹے حضرت اسماعیل ؑ کو اللہ کی راہ میں قربان کرنے کا اپنا خواب سنایا تو فرماں بردار بیٹے نے سر تسلیم خم کر دیا مگر رب کے حکم سے حضرت اسماعیل ؑ کی جگہ دنبہ ذبح ہوا۔

رب کو اپنے نبی اور ان کے فرماں بردار بیٹے کی یہ ادا اس قدر پسند آئی کہ رہتی دنیا تک دین ابراہیمی ؑ کے پیروکاروں کو قربانی کا یہ سلسلہ جاری رکھنے کا حکم دے دیا۔ دنیا بھر کے مسلمان اسی سنت ابراہیمی پر عمل کرتے ہوئے قربانی کرتے ہیں۔ قربانی کا اصل مقصد جانور ذبح کرنا نہیں بلکہ مسلمانوں کے درمیان آپس میں ایثار و قربانی کا حقیقی جذبہ بیدار کرنا ہے کہ وہ ایک دوسرے کا خیال رکھیں اور مصیبت کی گھڑی میں دوسروں کو تنہا نہ چھوڑیں۔

قربانی عاجزی، اطاعت' فرماں برداری اور ایثار کی علامت ہے۔ رب کائنات تک قربانی کا خون اور گوشت نہیں پہنچتا بلکہ وہ تقویٰ اور نیتیں پہنچتی ہیں جو اس قربانی کے پیچھے کارفرما ہوتی ہیں۔ مشاہدے میں آیا ہے کہ آج پاکستان میں مسلمان مذہبی جوش و خروش سے قربانی تو کرتے ہیں مگر وہ اس کے اصل مقصد سے دور ہوتے چلے جارہے ہیں۔ ایک مقصد ان غریبوں اور مسکینوں کو بھی اس میں شریک کرنا ہے جو قربانی کی استطاعت نہیں رکھتے۔

مگر دیکھا یہ جا رہا ہے کہ لوگوں کی ایک بڑی اکثریت میں غریبوں کو اس خوشی میں شریک کرنے کا جذبہ ماند پڑتا جا رہا اور زیادہ سے زیادہ گوشت خود ہی سمیٹنے کا خود غرضی' لالچ اور ہوس کا جذبہ غالب آتا جا رہا ہے اس کی وجہ مہنگائی کو قرار دیا جاتا ہے مگر اچھے خاصے خوشحال گھرانے بھی اسی طمع میں مبتلا دکھائی دیتے ہیں۔ جانور قربان کرنا نمود و نمائش کا ذریعہ بھی بنتا جا رہا ہے۔ ادھر جانور کی قربانی کرتے ہوئے صفائی کا بھی خیال نہیں رکھا جاتا۔ گھروں کے باہر اور جا بجا گلیوں میں بکھری ہوئی جانوروں کی غلاظت اس امر کی عکاسی کرتی ہیں کہ بحیثیت قوم ہم بے حسی کا شکار ہو چکے ہیں۔ یہ درست رویہ نہیں کہ قربانی تو کی جائے مگر صفائی جیسے اسلامی شعار سے صرف نظر کیا جائے۔

آج عالم اسلام میں باہمی تعاون کی کمی اور ابھرتے ہوئے اختلافات بھی اسی کی غمازی کرتے ہیں کہ مسلمانوں کی اکثریت نے قربانی کے اصل جذبے کو فراموش کر دیا ہے۔ قربانی کا ایک مقصد ہوس اور لالچ سے خود کو پاک کرنا بھی ہے مگر باہمی ایثار کی روح سے عاری یہ عمل صرف جانوروں کی قربانی تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ یہ افسوسناک رویہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ عوامی خدمت اور فلاح کے نام پر وجود میں آنے والی بہت سی جماعتوں اور تنظیموں کا مقصد صرف زیادہ سے زیادہ قربانی کی کھالیں اکٹھی کرنا ہے اور بعض اوقات ایک دوسرے سے کھالیں چھیننے اور فائرنگ جیسے ناخوشگوار واقعات بھی سامنے آئے ہیں۔

اسلام نے مسلمانوں کو ایک جسم کی مانند قرار دیا ہے کہ جسم کے ایک حصے میں تکلیف ہو تو دوسرا حصہ بھی اسے محسوس کرے مگر بے حسی اور دنیاوی ہوس نے مسلمانوں کے اندر اس جذبے کو ماند کر دیا ہے۔ کشمیر اور فلسطین میں غیر مسلم حکومتیں طاقت کے بل بوتے پر مسلمانوں کا خون بے دریغ بہا رہی ہیں مگر عالم اسلام ہے کہ ٹس سے مس نہیں ہو رہا۔ عالم اسلام کے اندر باہمی اختلافات وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ شدت اختیار کرتے چلے جا رہے ہیں، غیر مسلموں سے کیا گلہ مسلمان خود ایک دوسرے کا خون بے دردی سے بہا رہے ہیں۔

عراق اور شام میں ہونے والی خانہ جنگی مسلمانوں ہی کے درمیان جاری ہے۔ مسلم حکومتوں کے لیے سب سے بڑا خطرہ خود مسلمان بن چکے ہیں جو مذہب کی آڑ لے کر اپنے ہی ملکوں اور حکومتوں کو عدم استحکام سے دوچار کر رہے ہیں۔ حیرت انگیز امر ہے کہ مسلمان ایک دوسرے کو ختم کرنے کے لیے غیر مسلم قوتوں سے مدد مانگ رہے ہیں۔ لیبیا' صومالیہ' یمن اور الجزائر کی حالت سب کے سامنے ہے اور خود پاکستان جو عالم اسلام کی ایٹمی قوت اور اسلام کا قلعہ کہلاتا ہے' انتشار اور افراتفری کا شکار ہے۔ یہاں بھی کچھ گروہ مذہب کی آڑ لے کر سیکیورٹی اداروں پر حملے' بم دھماکے اور تخریب کاری کی وارداتیں اور بے گناہ مسافروں کو قتل کر رہے ہیں۔

غیر مسلموں پر الزام تراشی کرنے کے بجائے مسلمانوں کو خود اپنے رویے پر نظرثانی کرنا ہو گی جب تک وہ اپنے اعمال درست نہیں کریں گے ان کے حالات کبھی بہتری کی جانب رواں نہیں ہوں گے۔ یہ حقیقت ہے کہ مسلمان ممالک پسماندگی اور غربت کا شکار ہیں۔ ان ملکوں میں بے وسیلہ اور کمزور طبقات پر ظلم روا رکھا جا رہا ہے۔ مسلمان ملکوں میں بدامنی اور بے چینی کی وجہ استحصالی طبقے کی حکمرانی ہے' اگر مسلمان ممالک کے حکمران اپنے عوام کو ان کے حقوق دینے پر تیار ہو جائیں تو ان ملکوں میں امن ہو جائے گا اور امریکا یا مغربی ممالک کو ایسا موقع نہیں ملے گا کہ وہ کسی ملک میں بدامنی یا آمریت کو بنیاد بنا کر کوئی مداخلت کریں۔

عیدالاضحی کا پیغام بھی اپنی عزیز ترین ہستی کو خدا کی راہ میں قربان کر دینا ہے۔ اگر ہمارے حکمران اسی سنت ابراہیمی کے پیغام کی روح کو سمجھیں اور اپنے اختیارات کی قربانی دے کر عوام کو ان کا حق لوٹا دیں تو مسلم دنیا میں امن اور خوشحالی کا دور شروع ہو جائے گا اور مسلم ممالک پوری دنیا کے لیے رول ماڈل بن جائیں گے' مسلم حکمرانوں کو اس حقیقت کا ادراک کر لینا چاہیے کہ اگر انھوں نے اپنی دولت اور اختیار کو اپنے عوام میں تقسیم نہ کیا تو پھر یہ کام کوئی اور کر دے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں