دھرنے کا خاتمہ اور تین سوال

طلعت حسین  اتوار 12 اکتوبر 2014
www.facebook.com/syedtalathussain.official
twitter.com/talathussain12

www.facebook.com/syedtalathussain.official twitter.com/talathussain12

ڈاکٹر طاہرالقادری دھرنے کی جگہ چھوڑ کر واپسی کا وعدہ کرتے ہوئے چلے گئے ہیں۔ چونکہ حکومت اپنی نااہلیوں کی وجہ سے مسلسل بیک فٹ پر ہے لہٰذا جانے کے لیے انھوں نے جو بھی وضاحت کی وہ کسی بڑی بحث کا حصہ نہیں بنی۔ عمران خان دھرنے سے عملاً اٹھ گئے ہیں۔ جلسے جلسوں سے اب اپنی سیاست کا نیا دور شروع کر چکے ہیں۔ چونکہ اسلام آباد میں تحریک انصاف ٹوکن نمایندگی کے ساتھ موجود ہے لہٰذا یہ تصور ابھی باقی ہے کہ تقریبا دو ماہ پہلے شروع ہونے والا یہ سیاسی دائو اب بھی جاری ہے حقیقت اس کے برعکس ہے۔ تحریک انصاف کا دھرنا ختم ہو چکا ہے۔

دونوں جماعتوں کو پچھلے دو ماہ میں ہونے والے تمام واقعات کا قریب سے جائزہ لینا ہو گا۔ حکومت کے خلاف ابلتے ہوئے جذبات سے پرے ٹھنڈے دل سے یہ سوچنا ہو گا کہ انھوں نے اس دوران کیا کھو یا کیا پایا۔ تمام کوشش کا حاصل بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہر جلسے میں یہی تاثر دیا جاتا ہے پاکستان تبدیل ہو گیا ہے۔ سیاسی شعور اور آگاہی وہ معاملات ہیں جو اس قوم نے اپنی تاریخ میں کئی بار آتے اور جاتے دیکھے ہیں۔ احتجاج سے ہیجان برپا ہوتا ہے تو آگاہی بڑھ جاتی ہے۔ جب سیاسی گرما گرمی کم ہوتی ہے تو یہی آگاہی عام زندگی گزارنے کے طریقے میں تبدیل ہوجاتی ہے۔

دل میں شکایات رکھنے کے باوجود لوگ اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ لہٰذا یہ سمجھنا کہ پاکستان حتمی طور پر تبدیل ہو گیا ہے اُس احاطہ فکر کی نشاندہی کرتا ہے جس میں سیاسی کارکن، تجزیہ نگار رہتے ہوئے زندگی کو دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ اس وجہ سے تبدیلی کے معاملے کو اسی نکتے پر چھوڑ دینا چاہیے۔ حتمی فیصلہ تاریخ کرے گی کہ جو کچھ تبدیل ہوا وہ انقلاب تھا یا پانی کا بلبلہ۔ مگر دونوں جماعتوں کی سیاست کے بارے میں سوالوں کو تاریخ کے کسی فیصلے کے حوالے نہیں کیا جا سکتا۔ ان کے جوابات زمانہ حال میں ہی دینے ہوں گے۔

پہلا سوال یہ ہے کہ دھرنے کے اہداف کا تعین کرتے ہوئے دونوں جماعتوں نے کن محرکات پر تکیہ کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا تھا کہ نواز شریف چند گھنٹوں میں مستعفی ہو جائیں گے۔ لا کھوں لوگوں کے سامنے ذرایع ابلاغ میں اتنا بڑا دعویٰ کسی وقتی دبائو اور خواہش کے ذریعے تو نہیں کیا جا سکتا۔ اس ہدف کا تعین کرنے سے پہلے باقاعدہ منصوبہ بندی ہوئی ہو گی۔ سوچ اور فکر سے بھرے ہوئے کئی مباحثے ہوئے ہوں گے۔ دونوں جماعتوں نے اپنا تمام سیاسی تجربہ بروئے کار لا کر نواز شریف کے استعفیٰ کے گھنٹوں میں آنے والا وعدہ کرنے کا سوچا ہو گا۔ دونوں جماعتوں کو اپنے کارکنان کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ فوری استعفیٰ کا دعویٰ کیو ں کیا گیا تھا۔

دوسرا سوال یہ ہے کہ استعفیٰ کیوں نہیں مل سکا۔ اگر ہم یہ مان بھی لیں کہ عمران خان اور طاہرالقادری نے مل کر پاکستان بھر کے تمام عوام کے دل جیت لیے اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی سمجھ لیں کہ جیسے لاہور سے چلنے والا قافلہ پاکستان کے بیس کروڑ عوام کی خواہشات کا نمایندہ تھا۔ تو یہ سوال پھر بھی بہت اہم بن جاتا ہے اگر یہ قوم انقلاب کی کیفیت میں آج سے دو ماہ پہلے داخل ہو گئی تھی تو پھر اس ریلے نے موجودہ نظام کو تہس نہس کیوں نہیں کیا۔ اگر حکومت وقت اور اس کے اتحادی دیمک زدہ اوراق کی طرح ہیں جو ہوا کے ایک جھونکے سے بکھر سکتے ہیں تو پھر وہ ابھی تک قائم کیوں ہیں۔

کیا ڈاکٹر طاہرالقادری اور عمران خان کو اپنی پارٹی اور اس قوم کے ان تمام لوگوں کو یہ وضاحت دینے کی ضرورت نہیں ہے جنہوں نے ان کو تحمل سے 60 دن سنا کہ ’’پرانا نظام ‘‘ ابھی تک قائم کیوں ہے۔ یہ کیا انقلاب ہے کہ ابھی تک اسمبلی سے صرف ایک استعفیٰ آیا ہے اور وہ بھی جاوید ہاشمی کا۔ اگر انقلاب آ گیا ہے تو حکومت کو موجود نہیں ہونا چاہیے اور اگر حکومت موجود ہے تو پھر انقلاب نہیں آیا ہو گا۔ سب کچھ بدل بھی گیا ہے پھر بھی سب کچھ باقی ہے۔ عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری دونوں کو یہ بتا نا ہو گا کہ آخر کن وجوہات کی بنا پر وہ نواز شریف کا استعفیٰ نہیں لے پائے۔

تیسرا سوال اس سے بھی زیادہ اہم ہے۔ پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک 48 گھنٹوں میں استعفیٰ دو ہفتے میں عبوری نظام کی تشکیل اور چھ سے نو مہینے میں نئے انتخابات کا عزم لیے اسلام آبا د میں آئے تھے۔ انھوں نے اپنی پارٹیوں کے کروڑوں اور ملک کے اربوں کے علاوہ قوم کے ہزاروں گھنٹے اور کئی قیمتی جانوں کا خرچا کیا ہے۔ عام شہری کی تکالیف اور ہزیمت کو چھوڑ دیجیے یہ دونوں تو سستی چیز یں ہیں۔ ہر دوسری دکان پر مل جاتی ہیں۔ یہ سب کچھ کرنے کے بعد دونوں جماعتیں اپنے بیان کردہ عزائم میں سے ایک بھی حاصل نہیں کر پائیں۔ اس کا حساب کتاب اپنی جگہ ہے۔

کسی اور معاشرے میں اس قسم کی ناکامی کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑتی۔ مگر اس ملک خداداد میں ایسا کچھ نہیں ہوتا لہٰذا جو ہو چکا ہے اسکو فی الحال پرے رکھیے۔ تیسرے سوال پر توجہ دیجیے۔ سوال یہ ہے کہ اب یہ دونوں جماعتیں جو کر رہی ہیں اس سے یہ کیا حاصل کرنا چاہتی ہیں۔ عمران خان دھرنوں سے پہلے والے جلسوں کی روش میں واپس آ گئے ہیں۔ تحریک انصاف نے یقینا بڑے جلسے کیے ہیں ان میں سے بعض فقید المثال بھی کہے جا سکتے ہیں۔ مگر جلسہ گاہوں میں لوگوں کو بھرنے کے بعد کیا ہو گا۔ افراد شریک ہوتے ہیں۔ میڈیا گھنٹوں تقاریر دکھاتا ہے۔ پھر سب اپنے گھروں کو واپس چلے جاتے ہیں۔

اس سے حکومت یا حکومتوں کی صحت پر کیا اثر پڑتا ہے۔ وہ تو اپنی جگہ پر موجود ہے۔ اگر پارلیمان سے چند منٹ کے فاصلے پر تمام مدد اور میڈیا کی فراخ دلانہ و ہمدردانہ معاونت کے باوجود اسلام آباد میں کچھ نہیں بدلا۔ تو سیکڑوں میل دور شہروں میں جلسے کرنے سے کیا بدل جائے گا۔ یہ اس قسم کا سوال ہے جو میں نے عمران خان سے اسلام آباد دھرنے سے قبل ایک انٹرویو میں پوچھا تھا۔ انھوں نے اِس کا کوئی جواب نہیں دیا۔ اب میں دو ماہ پہلے کے حالات دیکھتے ہوئے یہ سوچنے پر مجبور ہو ں کہ ان کے پاس فوج کی مداخلت کے ذریعے نواز شریف کو نکالنے کے سوا اور کوئی جواب نہیں تھا۔

اور وہ یہ جواب کیمرے کے سامنے نہیں دے سکتے تھے۔ وہ سب کچھ نہیں ہوا لہٰذا دھرنے کے لائحہ عمل کو منہ کی کھانی پڑی۔ اب عمران خان اور طاہر القادی نے دھرنے کا میچ بیچ میں چھوڑ کر ایک نیا ٹورنامنٹ شروع کر دیا ہے۔ ان کی کارکردگی اس مقابلے میں اسلام آباد دھرنے سے کیونکر اور کیسے مختلف ہو گی۔ یہ سوال ہے جو پہلے دو سوالوں کی طرح ان دونوں جماعتوں کے کارکنان اور اس قوم نے طاہرالقادری اور عمران خان سے پوچھنا ہے۔ اگرچہ مجھے یقین ہے کہ اس سوال کے جواب میں وہ یہی کہیں گے کہ چونکہ پاکستان تبدیل ہو گیا لہٰذا اس بحث کی کوئی گنجائش باقی نہیں۔ اور ویسے بھی وہ سب کا احتساب کرنے آئے ہیں۔ وہ اپنی فکر و دانش اور قابلیت کے بارے میں جواب کیوں دیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔