(بات کچھ اِدھر اُدھر کی) - ٹوٹے ہوئے کچھ تارے

شہباز علی خان  اتوار 7 دسمبر 2014
یہ فقیر نہیں ہے، آپ تو شکل سے سمجھدار لگتے ہیں کچھ تو پہچان آپ کو بھی ہونی چاہیے۔  فوٹو رائٹرز

یہ فقیر نہیں ہے، آپ تو شکل سے سمجھدار لگتے ہیں کچھ تو پہچان آپ کو بھی ہونی چاہیے۔ فوٹو رائٹرز

میں ریلوے اسٹیشن پر ٹکٹ گھر کے سامنے بنی قطار میں کھڑا اپنی سوچوں میں گم تھا کہ اچانک ایک بچے نے آکر میری شرٹ کھینچی ۔ اسے دیکھتے ہی مجھے اس پر بے اختیار پیار آگیا اور اگلے ہی لمحے میں نے اپنی جیب سے 50کا ایک نوٹ نکال کر اس کے آگے بڑھا دیا، لیکن وہ کچھ نہ سمجھنے کے انداز میں مجھے دیکھنے لگا تو میں نے اس کا ہاتھ کھولا اور اس کی چھوٹی سی مٹھی میں نوٹ کو ڈال کر اسے بند کر دیا۔اسی دوران ایک شخص تیزی سے میری طرف بڑھا اور اس نے وہ نوٹ اس بچے کی مٹھی سے نکال کر واپس مجھے دیتے ہوئے کہا کہ یہ فقیر نہیں ہے، آپ تو شکل سے سمجھدار لگتے ہیں کچھ تو پہچان آپ کو بھی ہونی چاہیے۔ یہ میرا بیٹا ہے مگر ذہنی طور پر معذور ہے اس نے یہ کہہ کر بچے کو اٹھایا اور واپس قطار میں کھڑا ہو گیا۔

مجھے ایک دم سے جھٹکا لگا کہ اگر اس باپ کی جگہ میں ہوتا اور میرے بیٹے کو کوئی بھکاری سمجھ کر اپنی طرف سے نیکی کرتا تو میری کیا حالت ہوتی۔میں نے ٹکٹ لیا اور پلیٹ فارم پر آگیا ٹرین کے آتے ہی میں ایک بوگی میں سوار ہوا تو وہ دونوں بھی مجھے اسی ڈبے میں دکھائی دئیے۔ میں ان کی طرف بڑھا ،میاں بیوی اور ان کے دو بچے سیٹس پر بیٹھے تھے مجھے دیکھا تو اس نے اپنے ایک بچے کو اپنی گود میں بٹھا لیا اور مجھے بیٹھنے کا کہا، میںان کے ساتھ بیٹھ گیا اور میں نے ایک بار پھر سے معذرت کی تو اس نے اپنی بیوی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کہ اب تو ہم عادی ہو گئے ہیں لوگوں کا رویہ ہمارے لئے بہت تکلیف دہ ہوتا ہے ،بلکہ ہمارے اکثر جاننے اپنی طرف سے تو ہمدردی جتا رہے ہوتے ہیں لیکن ہمیں جس قدر تکلیف ہوتی ہے وہ ہم جانتے ہیں یا خدا۔

میرے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ ہمارے دو بچے ہیں ایک تو نارمل ہے اور یہ والا ابنارمل ۔ ہم اسے ایک سرکاری ادارے میں لے کر گئے تو انہوں نے یہ کہہ کر داخلہ دینے سے انکار کر دیا کہ ان کا ادارہ ان بچوں کو داخلہ دیتا ہے جن میں اتنی سمجھ بوجھ ہو کہ وہ اپنی ضروریات کے لئے خود ٹوائلٹ جا سکیں۔ ہم مشترکہ خاندانی نظام کے تحت ایک ہی بڑے سے گھر میں رہتے تھے ، گھر میں اور بھی بچے موجود تھے مگر کوئی بھی اس جیسا نہیں تھا،یہ ان کی طرف کھیلنے کے لئے بھاگتا تھا ۔ شروع شروع میں تو یہ ان کے ساتھ کھیلتا تھا مگر پھر ایک دن میری بھابھی نے اپنے بچوں کو اس کے ساتھ کھیلنے سے روک دیا کہ یہ تو پاگل ہے ایسے ہی کسی دن کسی کو مار ہی نہ دے۔ ہم اسے مختلف ڈاکٹرز کے پاس لے کر جاتے ان کی بھی اپنی اپنی رمزیں تھیںوہ سب سے پہلے یہی سوال کرتے کہ آپ کی کزن میرج ہے تو اسی لئے یہ بچہ ایسا ہے مگر ہم انہیں کہتے کہ ہم دونوں تو دور کے بھی رشتہ دار نہیں ہیں پھر ان کی تان یہیں آکر ٹوٹتی کہ اللہ کہ مرضی ہے۔

کچھ ڈاکٹرز نے تو ایسے سیرپ دے دیئے جس سے یہ بچہ سارا دن سوتا ہی رہتا تھا اور پھر جب رات ہوتی تو اٹھ کھڑا ہوتا۔بعض دفعہ میں چڑ بھی جاتا تھا مگر میری بیوی مجھے سمجھاتی کہ آپ تو سمجھدار ہیں۔وہ تو ماں ہے ناں ،ماں کا تو دل خدا کے گھر کی طرح ہوتا ہے اولاد جتنی بھی بری ہو دروازے کھلے ہی ملتے ہیں۔میرے سب رشتہ داروں نے یہی مشورہ دیا کہ اسے آپ گھر ہی رکھا کریں اور ایک نے تو اسے باندھ کر بٹھانے کا بھی کہا۔

آپ خود سوچیں کہ اگر ایک نارمل بچے کو بھی کھیلنے کے لئے جگہ نہ ملے اور آپ اسے ایک کمرے تک محدود کر دیں تو وہ کیا اس میں تشدد کا عنصر بڑھے گا نہیں کیا ؟وہ چیخے گا نہیں؟وہ کب تک کھلونوں سے یا کارٹون چینلز سے بہلا رہے گا؟ ابھی اس کی باتیں جاری تھیں کہ ٹرین آہستہ ہونا شروع ہو گئی ، اسٹیشن آنے والا تھا اور میرا سفر تو ختم ہو چکا تھامگر ان جیسے بے شمار والدین کا سفر اس وقت تک ختم نہیں ہوگا جب تک ہم جو خود کو نارمل سمجھتے ہیں ہم نے اپنے روئیے اور سوچ نہ بدلی۔

ہمیں اپنے وجود سے باہر نکل کر بھی دوسرے انسانوں کے بارے میں سوچنا ہوگا جن میں مختلف وجوہات کی وجہ سی کمی رہ جاتی ہے۔ سرکار کو تو اپنے چونچلوں سے فرصت نہیں ہے ان کی طرف دیکھنا فضول ہوگا مگر ہمیں مل کر ایسے اداروں کی تشکیل کرنا ہوگی جہاں ان ذہنی طور پر معذور بچوں کو زندگی ملے۔ہم عورتوں، بچوں اور مزدوروں کے حقوق کی بات کرتے ہیں مگر ذہنی طور پر معذور ان زندہ انسانوں پر تو قانون بھی خاموش ہے اور آئین بھی۔ ان کی آواز کون بلند کرے گا؟ان ٹوٹے ہوئے تاروں کو کون مکمل کرے گا؟

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

شہباز علی خان

شہباز علی خان

آپ انٹرنیشنل ریلیشنز میں ماسٹر ہیں، اور فری لانس رائٹر کے طور پر کام کرتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔