فوجی عدالتوں میں توسیع ؛ پارلیمانی رہنماؤں کا ایک اور اجلاس بے نتیجہ ختم

ویب ڈیسک  جمعرات 23 فروری 2017
 پارلیمانی رہنماؤں کا اجلاس کل صبح 10 بجے دوبارہ ہوگا، اسپیکر قومی اسمبلی : فوٹو : فائل

پارلیمانی رہنماؤں کا اجلاس کل صبح 10 بجے دوبارہ ہوگا، اسپیکر قومی اسمبلی : فوٹو : فائل

 اسلام آباد: فوجی عدالتوں کے قیام میں توسیع کے معاملے پر اپوزیشن جماعتیں ایک بار پھر متفق نہ ہو سکیں اور پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس بے نتیجہ ختم ہوگیا ہے۔ 

ایکسپریس نیوز کے مطابق اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کی زیر صدارت فوجی عدالتوں کے قیام میں توسیع کے معاملے پر پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس ہوا۔ اجلاس میں تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی کے ارکان نے شرکت نہیں کی جس پر اسپیکر قومی اسمبلی کا کہنا تھا کہ پارلیمانی کمیٹی کا بائیکاٹ ختم کرنے کے لئے پیپلزپارٹی کے شریک چئیرمین آصف زرداری سے رابطہ کریں گے تاہم پارلیمانی رہنماؤں کا اجلاس کل صبح 10 بجے دوبارہ ہوگا۔

اس خبرکوبھی پڑھیں: فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کا معاملہ

مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ سابق صدر آصف زرداری سے رابطہ ہوا ہے ان کا کہنا ہے کہ فوجی عدالتوں کے معاملے پر آل پارٹیز کانفرنس بلانا چاہتا ہوں۔

اس خبرکوبھی پڑھیں: پارلیمانی رہنماؤں کے اجلاس میں فوجی عدالتوں کی توسیع کا فیصلہ نہ ہوسکا

ایم کیوایم پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار کا کہنا تھا کہ حکومت خانہ پری کرنے کے بجائے واضح عزم کا اظہار کرے کہ فوجی عدالتوں کے قیام میں توسیع  کے ذریعے انتہا پسندی کا خاتمہ اولین ترجیح ہوگی اور فوجی عدالتوں کو توسیع دینی ہے تو اس کی نگرانی بھی کی جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ نیشنل ایکشن پلان پر وفاق سمیت چاروں صوبوں کی حکومتیں ناکام ہوئی ہیں جب ٹوٹی ہوئی کمر والوں نے اتنا کچھ کردیا ہے تو اگر کمر نہ ٹوٹتی تو دہشت گرد کیا کیا کرتے، حکومت اپنی نااہلی چھپانے کے لئے پارلیمنٹ کا سہارا مانگ رہی ہے۔

اس خبرکوبھی پڑھیں: فوجی عدالتوں میں توسیع پر جے یوآئی (ف) اور پیپلز پارٹی کی مخالفت

سربراہ ایم کیوایم پاکستان نے مزید کہا کہ ہم نے 2 سال قبل فوجی عالتوں کی غیر مشروط حمایت کی تھی لیکن 2 سال بعد ایک بار پھر دہشت گردی نے زور پکڑ لیا ہے اب شرائط رکھی جائیں گی۔ فاروق ستار نے آئینی ترمیم کے نئے مسودے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ آئینی ترمیم کے حوالے سے پرانا مسودہ ہی نافذ کیا جانا چاہئے۔

اس خبر کو بھی پڑھیں: فوجی عدالتوں نے کام کرنا بند کر دیا

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔