نااہلی کیس؛ کس بنیاد پرعمران خان کے سرٹیفکیٹ کو جھوٹا کہیں، سپریم کورٹ

ویب ڈیسک  بدھ 2 اگست 2017
الیکشن کمیشن کو آڈیٹر کی رپورٹ مسترد کرنے کا   اختیار ہے، چیف جسٹس	 فوٹو: فائل

الیکشن کمیشن کو آڈیٹر کی رپورٹ مسترد کرنے کا اختیار ہے، چیف جسٹس فوٹو: فائل

 اسلام آباد: چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے عمران خان کی نااہلی سے متعلق درخواست کی سماعت کے دوران ریمارکس دیئے ہیں کہ درخواست گزار کی دستاویزات میں کئی مسائل ہیں پھر کس بنیاد پر عمران خان کے سرٹیفکیٹ کو جھوٹا کہیں۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 3 رکنی بینچ عمران خان کی نااہلی اور پی ٹی آئی کو ملنے والی غیر ملکی فنڈنگ سے متعلق مقدمے کی سماعت کررہا ہے۔ سماعت کے دوران درخواست گزار حنیف عباسی کے وکیل اکرم شیخ نے جواب الجواب میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آج اخباروں میں لگی ہیڈ لائن سے متعلق میری پیش گوئی سچ ثابت ہوئی ہے،چیف جسٹس کی آبزرویشن کو انگریزی اخباروں نے ہیڈلائن کے طور پر شائع کیا، اخباروں میں لکھا گیا ہے عمران خان کو نااہل قرار نہیں دیا جاسکتا، عدالتی آبزرویشن کی وضاحت ضروری ہے۔

اکرم شیخ نے کہا کہ پی ٹی آئی کے وکیل انور منصور رقم وصول کرنے کے حوالے سے دلائل میں اقرار کر چکے ہیں، پارٹی سربراہ کاسرٹیفکیٹ ممنوعہ فنڈنگ نہ لینے کی تصدیق کرتا ہے، سیاسی جماعتیں صرف انفرادی شخصیات سے فنڈز لے سکتی ہیں،غیرملکی افراد انفرادی شخصیات میں شامل نہیں ہوتے، ملٹی نیشنل کمپنیوں سے فنڈز لینے پر قوم کو وضاحت دینا ضروری ہے، ممنوعہ اور لوٹی گئی رقم کو ضبط کرنے کے لیے قانون موجود ہے، ممنوعہ فنڈز کو ضبط کیا جاسکتا ہے، یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ممنوعہ فنڈ ضبط ہوجائے اور فنڈ لینے والے کو چھوڑ دیا جائے۔ جھوٹا سرٹیفکیٹ دینے والوں کو اس کے نتائج بھی بھگتنا ہوں گے، جھوٹا سرٹیفکیٹ دینے والا صادق اور امین کیسے ہو سکتا ہے، اس کے نتائج نااہلی کے ہی ہوں گے، جس پر جسٹس عمرعطاء بندیال نے ریمارکس دیئے کہ اس کے لیے پہلے ممنوعہ فنڈز کا وصول کرنا ثابت کرنا ہوگا ،پی ٹی آئی کے مطابق ممنوعہ فنڈز پاکستان منتقل ہوئے ہی نہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سیاسی جماعتوں کو موصول ہونے والے فنڈز کی تفصیلات دینی ہوتی ہیں، پارٹی سربراہ کا سرٹیفکیٹ بھی موصول ہونے والے فنڈز پر ہوتا ہے، فنڈز ممنوعہ ہیں یا نہیں یہ تعین بھی الیکشن کمیشن کو کرنا ہے، ایسے کون سے شواہد ہیں جن کی بنیاد پر فنڈز کو ممنوعہ قرار دیں، غیر متنازعہ شواہد ہیں تو سامنے لائیں، جس پر اکرم شیخ نے کہا کہ قانون میں فنڈز جمع کرنے اور موصول ہونے میں فرق نہیں، بیرون ملک ایجنٹ بھی پی ٹی آئی کا حصہ ہیں اور انہوں نے ممنوعہ فنڈز لینا تسلیم کیا ہے۔ الیکشن کمیشن کا اس معاملہ میں کوئی تعلق نہیں، عدالت نے الیکشن کمیشن کو بطور انکوائری کمیشن بنانے کی بات کی تھی، اگر کمیشن بنایا گیا تو اسے تمام فنڈز کی تحقیقات کا کہا جائے۔

اکرم شیخ نے کہا کہ پی ٹی آئی نے اپنے دستاویزات میں ممنوعہ فنڈنگ تسلیم کی، کہا گیا کہ انہوں نے فنڈنگ لی لیکن پاکستان نہیں بھجوائی گئی، اس کے علاوہ دہری شہریت والوں سے لیا گیا فنڈز بھی ممنوعہ ہے۔ ممنوعہ فنڈز بھی تحریک انصاف کے لیے دئیے گئے تھے۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ فنڈز کا پاکستان آنا تسلیم کہا کیا گیا ہے، سرٹیفکیٹ پاکستان منتقل ہونے والے فنڈز پر دیا گیا۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ کیا آپ نے پی ٹی آئی اکاوٴنٹس کی آڈٹ رپورٹ دیکھی؟، تحریک انصاف نا تو کوئی کمپنی ہے نا ہی رجسٹرڈ سوسائٹی، پی ٹی آئی یو ایس اے ایل ایل سی کمپنی ہے، تحریک انصاف نہیں،پی ٹی آئی امریکہ اور پی ٹی آئی یو ایس ایل ایل سی دو مختلف چیزیں ہیں، ایجنٹ نے ممنوعہ فنڈز نہ لینے کا حلف نامہ دیا، پارٹی سربراہ کو اس صورتحال میں ذمہ دار کیسے قرار دیں۔فارا ویب سائٹ اور پی ٹی آئی اکاوٴنٹس کا موازنہ کیا جاسکتا ہے۔اگر ممنوعہ فنڈز پاکستان منتقل نہیں ہوئے تو دیکھنا ہوگا نتائج کیا ہوں گے۔

حنیف عباسی کے وکیل نے کہا کہ پی ٹی آئی یو ایس اے ایل ایل سی تحریک انصاف کے لیے فنڈ جمع کرتی ہے، کمپنی کے معاہدے میں لکھا ہے کہ فنڈز تحریک انصاف کی سرگرمیوں پر خرچ ہوں گے۔ جس پر جسٹس عطا بندیال نے استفسار کیا کہ کیا کہیں لکھا ہے کہ تمام فنڈز پاکستان بھجوانا لازمی ہے۔ اکرم شیخ نے جواب میں کہا کہ معاہدے میں ممنوعہ فنڈز نہ لینے کا ذکر نہیں، فنڈز زیادہ لیے گئے اور کم دکھائے گئے، میں کسی بدنیتی سے بات نہیں کررہا، عدالت کیس سن کر جو چاہے فیصلہ کرے، عدالت نے حال ہی میں ایک اہم فیصلہ کیا ہے، عوام عدالت کا 28 جولائی کا فیصلہ بھی دیکھ رہے ہیں۔

اکرم شیخ کی بات پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 184/3 کا مقدمہ تسلیم شدہ حقائق پر ہوتا ہے، عدالت تمام معاملات سے اچھی طرح آگاہ ہے، آپ چاہتے ہیں فیصلہ 184/3 میں ہی ہوجائے، ابھی تک فنڈز کی نوعیت کا تعین نہیں ہوسکا، ہمیں ایک ایک ملنے والے فنڈ کا جائزہ لینا ہوگا، سوالات پوچھنے کا مقصد حقائق جاننا ہوتا ہے۔ اکرم شیخ نے کہا کہ مارچ 2013 سے ستمبر 2016 تک پی ٹی آئی کو کیلی فورنیا سے 11لاکھ 56 ہزار ڈالر ملے۔ پی ٹی آئی کو ٹیکساس سے 23 لاکھ ڈالرز ملے جس میں سے 20لاکھ ڈالرز بھجوائے گئے، جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ دستاویزات میں واضح لکھا ہے کہ فنڈز پاکستانیوں سے لیے گئے۔

چیف جسٹس نے دوران سماعت ریمارکس دیئے کہ غیر ملکی پیسے کا دروازہ بند کرنے کے لیے متعلقہ فورم موجود ہے، جس پر اکرم شیخ نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے پاس عمران خان کو نااہل قرار دینے کا اختیار نہیں اور الیکشن کمیشن کا دائرہ اختیار ہی پی ٹی آئی تسلیم نہیں کرتی، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ دائرہ اختیار کا فیصلہ عدالت کرے گی۔

اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے اکرم شیخ نے کہا کہ فنڈز جمع کرنے اور پاکستان بھجوانے میں امتیاز نہیں برتا جاسکتا۔ جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ امریکی کمپنی پولیٹکل پارٹیز آرڈر کی نہیں امریکی قانون کی پابند ہوتی ہے، اکرم شیخ نے کہا کہ امریکا میں بیٹھ کر بھی پاکستانی شہری وفاداری کا پابند ہوتا ہے، دہشت گردوں کو بھی غیر ملکی فنڈنگ ہی ہوتی ہے، امریکہ جا کر کسی کا آلہ کار نہیں بنا جاسکتا۔ عدالت نے بھی ملک کے تحفظ کا حلف اٹھایا ہے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ بات فنڈنگ کی ہورہی ہے سازش کی نہیں، فنڈز میں سے کتنا ممنوعہ ہے اور کتنا غیر ممنوعہ،یہ تعین کیسے ہو گا۔ ممنوعہ فنڈز کی تحقیقات ہونی چاہییں۔ اگر کوئی پاکستانی کمپنی سیاسی جماعت کے رکن کو کھانے کی دعوت دے تو کیا وہ ممنوعہ ہے ، کیا ایسی دعوت پاکستان کی خود مختاری کے خلاف ہو گی، پولیٹیکل پارٹی آرڈر کا سیکشن 6 وہ نہیں کہتا جو آپ کہہ رہے ہیں۔

چیف جسٹس نے دوران سماعت ریمارکس دیئے کہ پولیٹیکل پارٹی آرڈر آئین کے آرٹیکل 17 کے تحت بنا، آپ کا الزام غیر ملکی حکومت سے مدد لینے کا نہیں، آپ کا کیس فنڈز کا ہے جس میں چندہ اور امداد بھی شامل ہوتی ہے، آپ کے مطابق دہری شہریت والے بھی غیر ملکی ہیں، آپ کے پاس شواہد صرف فارا کی ویب سائٹ ہے، آپ نے غیر مسلم ناموں کا بھی ذکر کیا تھا لیکن درخواست گزار کی دی گئی فہرست میں ممنوعہ ذرائع صرف غیر ملکی کمپنیوں کے ہیں۔آپ کی دستاویزات میں بھی کئی مسائل ہیں، واضح نہیں ہو رہا کہ کس نے کتنے پیسے دیئے، کس بنیاد پر عمران خان کے سرٹیفکیٹ کو جھوٹا کہیں۔ اکرم شیخ نے کہا کہ کیلیفورنیا سے 40 ہزار ڈالر غیر ملکی کمپنیوں سے لیے گئے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کیا معلوم یہ کمپنیاں پاکستانیوں کی ہوں یا ٹریڈ نام رکھے گئے ہوں۔

حنیف عباسی کے وکیل نے کہا کہ آپ کی بات سے یہ نتیجہ اخذ کر رہا ہوں کہ اگر ممنوعہ فنڈز اگر امریکہ میں خرچ ہو جائے تو کیا درست ہو گا۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم صرف سوچ رہے ہیں نتیجہ نہیں سنا رہے۔ اس حد تک متفق ہیں کہ غیر ملکیوں سے فنڈنگ نہیں کی جا سکتی۔ اکرم شیخ نے کہا کہ اگر پاکستانی کمپنی ہو تو بھی فنڈز ممنوعہ ہو گا۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ یہی تو اصل مسئلہ ہے، یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ ممنوعہ فنڈز پاکستان نہیں آیا، بہت سی نئی باتیں بھی سامنے آ رہی ہیں، قانون غیر ملکی کمپنیوں سے فنڈز لینے کی اجازت نہیں دیتا بلکہ قانون تو مقامی کمپنیوں سے فنڈز لینے کی اجازت بھی نہیں دیتا۔انور منصور صاحب آپ کو اس حوالے سے وضاحت دینا ہو گی۔

اکرم شیخ نے کہا کہ بیرون ملک پاکستانیوں کو ووٹ کا بھی حق حاصل نہیں، فنڈ دینے والے کا نام، پتہ اور دیگر تفصیلات دینا ضروری ہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کیا آپ چاہتے ہیں ہم سمندر پار پاکستانیوں اور دہری شہریت والوں کو غیر ملکی کہیں، کیا سمندر پار پاکستانیوں کی تمام خدمات بھول جائیں، اگر کوئی خود کو پاکستان ظاہر کرے تو کیا ہو گا۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آئین دہری شہریت والوں کو ووٹ کا حق دیتا ہے، لاجسٹک مسائل کی وجہ سے ووٹنگ ممکن نہیں یہ الگ بات ہے۔

جسٹس فیصل عرب نے اکرم شیخ سے استفسار کیا کہ آپ کی باتوں سے لگتا ہے کہ عمران خان کے بچے بھی ان کی پارٹی کو فنڈ نہیں دے سکتے، جس پر اکرم شیخ نے کہا کہ انہوں نے کسی سے قبل وزارت داخلہ سے معلومات لی تھیں، جمائما خان نے کبھی پاکستانی شہریت نہیں لی اور عمران خان کے بچے بھی پاکستانی شہریت نہیں رکھتے، چیف جسٹس نے کہا کہ یہ ذاتی معاملات ہیں ہمیں ان باتوں میں نہیں جانا چاہئے۔

چیف جسٹس نے اکرم شیخ سے استفسار کیا کہ کیا آڈٹ کرنے والے کو ممنوعہ فنڈنگ سے متعلق سوال کا بتایا گیا۔ جس پر اکرم شیخ نے کہا کہ پارٹی اکاؤنٹس کی تفصیلات چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ تیار نہیں کرتا، الیکشن کمیشن کو چھان بین کا مکمل اختیار ہے، یہ سوال الیکشن کمیشن کو پارٹی سے پوچھنا چاہیے تھا۔ آڈٹ رپورٹ میں غلطی ہو تو نتائج سیاسی جماعت کوبھگتنا ہوں گے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ قانون الیکشن کمیشن کو سیاسی جماعتوں کے گوشواروں کی جانچ پڑتال سے نہیں روکتا،الیکشن کمیشن کو آڈیٹر کی رپورٹ مسترد کرنے کا بھی اختیار ہے۔

اکرم شیخ نے کہا کہ عمران خان نے پہلے جواب میں کہا کہ فلیٹ کی تمام رقم یک مشت ادا کی گئی۔ جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ کہنا چاہتے ہیں پہلے اور بعد کے موقف میں تضاد ہے۔ اکرم شیخ نے جواب میں کہا کہ نعیم بخاری کے بقول نیازی سروسز شیل کمپنی رہ گئی تھی، جمائما کو ادائیگی کے بعد بھی نیازی سروسز کے اکاوٴنٹ میں ڈیڑھ لاکھ ڈالر موجود تھے، نیازی سروسز کو ٹیکس اور انتخابی گوشواروں میں ظاہر کرنا ضروری تھا، عمران خان نے فراڈ کرکے ایمنسٹی اسکیم سے فائدہ اٹھایا حالانکہ عمران خان نے فراڈ کرکے ایمنسٹی سکیم سے فائدہ اٹھایا، شیل کمپنیاں اصل ملکیت چھپانے کے لئے بنائی جاتی ہیں، لندن فلیٹ بھی عمران خان کے نام نہیں تھا، نیازی سروسز کے اکاؤنٹس کی تفصیل کیوں نہیں آئی۔

اکرم شیخ نے سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ عدالت نے نیازی سروسز کے قیام سے اختتام تک بینک ریکارڈ مانگا تھا، کیا شیل کمپنی اثاثہ نہیں ہوتی، کیا اسے ظاہر کرنا ضروری نہیں،  کیا علم میں لایا گیا کہ نیازی سروسز کب غیر فعال ہوئی،  کیا نیازی سروسز کے شیل کمپنی بننے کا ریکارڈ دیا گیا، 2002 کے گوشواروں میں عمران نے کوئی بیرونی دورہ ظاہر نہیں کیا لیکن اپنے بیان حلفی میں عمران خان نے کہا کہ وہ جمائما کو منانے بیرون ملک جاتے رہے، عمران خان کبھی نان ریزیڈنٹ نہیں رہے، تو کیا عمران خان کو جہاز کا کرایہ اور پاسپورٹ کا ٹھپہ معاف ہے، کیا عمران خان پر کوئی قانون لاگو ہوتا ہے یا سب معاف ہے۔ عدالت جتنا چاہے عمران خان کو فائدہ دے۔  جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ گزشتہ سال ساڑھے 7 لاکھ افراد نے ریٹرنز دیئے،   ٹیکس وصولی کے لئے اعتماد جیتنا ہوگا، بات فائدہ دینے کی نہیں، عمران خان نیازی سروسز کہ نہ مالک ہیں نہ شیئر ہولڈر، آپ کیسے ثابت کریں گے کہ عمران خان نیازی سروسز کے مالک ہیں۔ جس پر اکرم شیخ نے کہا کہ  عمران خان نیازی سروسز کے بنک اکاؤنٹس خود چلاتے تھے،   عمران خان نے جمائما کو نیازی سروسز کے بنک اکاؤنٹ سے ادائیگی کی۔ اکرم شیخ کے دلائل جاری ہیں تاہم کیس کی مزید سماعت کل ہوگی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔