پاکستان بھارتی ریاستی دہشت گردی کا شکار ہے، ترجمان دفتر خارجہ

ویب ڈیسک  جمعرات 3 اگست 2017

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کیلئے سبسکرائب کریں

 اسلام آباد: ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ پاکستان پر بھارتی بے بنیاد الزامات دہشتگردی سے رنگے ہاتھ چھپانے کی کوشش ہے جب کہ پاکستان خود بھارتی ریاستی دہشت گردی کا شکار ہے۔

ہفتے وار بریفنگ میں ترجمان دفتر خارجہ نفیس زکریا نے افغانستان میں دہشت گرد حملوں میں قیمتی جانوں کے ضیاع پر افسوس اور دہشت گرد حملوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہم افغانستان میں امن و استحکام چاہتے ہیں اور وہاں امن لانے کے ہر عمل میں شریک رہے۔ ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی، دہشت گردی ہے اور ہر قسم کی دہشت گردی جہاں بھی ہوں پرزور مذمت کرتے ہیں، معصوم انسانی جانوں کو نشانہ بنانا انتہائی قابل مذمت ہے۔

اس خبر کو بھی پڑھیں : مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی سے صورتحال بگڑرہی ہے

نفیس زکریا کا کہنا تھا کہ پاکستان کے لیے افغانستان کی انتہائی زیادہ اہمیت ہے، افغان امن کے لیے ہر قسم اور ہر طرح سے اپنی ذمہ داریاں نبھائیں جب کہ سرحد کے دونوں جانب دہشت گردی کے خلاف مربوط کارروائی اور مکمل امن کے لیے کوشاں ہیں۔ ان کاکہنا تھا کہ افغان سرزمین پر عدم استحکام کے باعث داعش کو جگہ مل رہی ہے اور افغانستان میں داعش کی موجودگی پاکستان کے لیے خطرہ ہے، داعش اور منشیات و انسانی اسمگلنگ کی رو ک تھام کے لیے موثر سرحدی انتظام ضروری ہے، ایسا سرحدی انتظام چاہتے ہیں جہاں عوام، تجارت اور راہداری سہولیات باہم حاصل ہوں۔

ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ بھارتی قابض فوج نہتے کشمیریوں پر طاقت کا وحشیانہ استعمال کررہی ہے، 8 کشمیریوں کو شہید کیا جاچکا ہے جب کہ بھارت تحریک آزادی کو دہشت گردی قرار دینے کی کوشش کررہا ہے جسے عالمی برادری مسترد کرچکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حریت رہنماوں کی نظر بندی و گرفتاری کی مذمت کرتے ہیں جب کہ کشمیریوں کو مسلسل آٹھویں جمعہ نماز کی ادائیگی سے روکا جارہا ہے۔

نفیس زکریا نے کہا کہ امریکہ جنوبی ایشیا کے حوالے سے پالیسی کا جائزہ لے رہا ہے، جان مکین اور امریکی قیادت نے بارہا پاکستان کی قربانیوں کا اعتراف کیا جب کہ امریکی وفد کا دورہ پاکستان مثبت رہا جس میں کشمیر سمیت تمام معاملات پر بات چیت کی گئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایلس ویلز کا دورہ پاکستان امریکہ کی خطے کے حوالے سے پالیسی کے جائزے کے تناظر میں ہی ہے، امریکی نمائندہ خصوصی کا دورہ پاکستان، خطے کے حوالے سے امریکی پالیسی کی تشکیل کے لیے ہے جب کہ امریکی وفد کے ساتھ مسئلہ کشمیر، بھارتی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، افغان صورتحال سمیت تمام امور گفتگو کا حصہ ہیں۔

اس خبر کو بھی پڑھیں : مقبوضہ کشمیر میں مزید 2 نوجوان شہید

بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کی جانب سے پاکستان پر دہشت گردی کے الزامات پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے ترجمان نے کہا کہ بھارتی بے بنیاد الزامات اپنے دہشتگردی سے رنگے ہاتھ چھپانے کی کوشش ہے، بھارت پاکستان پر دہشتگردی پرمسلط کرتا ہے اور دہشت گردی کی کاروائیوں میں ملوث ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان خود بھارتی ریاستی دہشت گردی کا شکار ہے جب کہ بھارتی سرکاری حکام نے پاکستان میں ریاستی دہشت گردی کے پھیلاوٴ کو تسلیم کیا ہے۔

سابق ہائی کمشنر بھارت عبد الباسط کی ریٹائرمنٹ کے حوالے سے ترجمان نے کہا کہ ان کی پاکستان واپسی اور قبل ازوقت ریٹائرمنٹ انتظامی معاملہ ہے جب کہ عبدالباسط نے ذاتی وجوہات پر قبل از وقت سبکدوشی اختیار کی اور اب ترکی میں تعینات سہیل محمود بھارت میں بطور ہائی کمشنر خدمات سرانجام دیں گے۔

ترجمان نے کہا کہ خطے کی سلامتی کے لیے افغان سرزمین پر امن ناگزیر ہے، افغان مفاہمتی عمل کے لیے 4 ملکی فورم کی اہمیت کا تمام رکن ممالک کو ادراک ہے اور امریکہ تاحال چار ملکی فورم کا حصہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ انڈس واٹر ٹریٹی پر سیکرٹری لیول مذاکرات ورلڈ بینک ہیڈ کوارٹر میں ہوئے جب کہ مذاکرات کا اگلہ مرحلہ ستمبر میں ہو گا۔

نفیس زکریا کہا کہنا تھا کہ بھارتی رویے نے نہ صرف سارک سمٹ کو سبوتاژ کیا بلکہ بھارت نے سارک تنظیم کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچایا،بھارت کی مقبوضہ کشمیر میں غیر کشمیریوں کی آبادکاری اقوام متحدہ سلامتی کونسل کی قراردادوں کی خلاف ورزی ہے۔ ان کاکہنا تھا کہبھارتی ہٹ دھرمی کے باعث دونوں ممالک کے تعلقات ٹھیک نہیں رہے، مودی سرکار کے دور میں دوطرفہ تعلقات مزید خراب ہوئے۔

ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ مسئلہ کشمیر دونوں ممالک کے درمیان بنیادی وجہ تنازعہ ہے، مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کو ستر سال بیت گئے، کشمیریوں کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حق خودارادیت ملنا چاہیے تاہم بھارت پاکستان کے خلاف آج بھی بچگانہ حرکتیں کررہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ خطے میں امن و سلامتی کے لیے پرامن انداز سے مسائل کا حل تلاش کیا جانا چاہیے اور اس کے لیے دونوں ممالک کو باہمی تعاون کو یقینی بنا کر پر امن انداز سے مسائل کو حل کرنا ہو گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔