طہارت و پاکیزگی

اسلامی عقائد میں جو اہمیت توحید کی ہے وہی حیثیت عبادت میں طہارت کی ہے۔


August 04, 2017
جیسے توحید کے بغیر کوئی عمل قبول نہیں ہو سکتا، ویسے ہی طہارت کے بغیر کوئی عبادت قبول نہیں ہوسکتی۔ فوٹو : فائل

اسلام میں صفائی ستھرائی اور طہارت و پاکیزگی کو بڑا مقام حاصل ہے۔ اسلام اپنے پیروکاروں سے طہارت و پاکیزگی کا پرُزور مطالبہ کرتا ہے۔

قرآن ِ پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے، مفہوم : '' بے شک اللہ پسند کرتا ہے بہت توبہ کرنے والوں کو اور عزیز رکھتا ہے ستھروں کو۔''

مفہوم : '' اس میں ایسے لوگ ہیں جو پاک صاف رہنے کو پسند کرتے ہیں۔ اور اللہ بھی پاک رہنے والوں کو ہی پسند کرتا ہے۔ ''

ان دونوں آیات سے ہی اسلام میں طہارت و پاکیزگی کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ صحیح مسلم اور مسند احمد میں ارشاد نبویؐ ہے :

'' طہارت و پاکیزگی ایمان کا حصہ ہے۔''

ان ارشادات کا یہ مطلب نہیں ہے کہ طہارت و پاکی کا تعلق صرف بدن اور کپڑوں سے ہے۔ بل کہ حقیقت میں اس کے چار درجے ہیں۔ پہلا درجہ تو باطن کو شرک سے پاک کرنا ہے۔ اس سے مقصود یہ ہے کہ جب دل شرک سے پاک ہوگا تو تب ہی وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ منسلک ہوگا۔ اور یہی کلمہ طیّبہ لا الہ الا اللہ کی تحقیق ہے۔

دوسرا درجہ حسد، تکبر، ریا، حرص، عداوت اور رعونت وغیرہ جیسے اخلاق رذیلہ سے دل کو پاک کرنا ہے، تاکہ دل تواضع ، قناعت، توبہ، صبر، خوف، رجا اور محبت جیسے اچھے اخلاق سے آراستہ ہوجائے اور یہ متقی لوگوں کے ایمان کا درجہ ہے۔ ناپسندیدہ اخلاق سے دل کو پاک کرنا نصف ایمان ہے۔ تیسرا درجہ غیبت، جھوٹ، اکل حرام، خیانت، نامحرمات کو دیکھنا اور اس قسم کے گناہوں سے اعضاء کو پاک رکھنا ہے تاکہ یہ تمام اعضاء نیکی کے کاموں میں فرماں برداری و ادب سے آراستہ ہو جائیں اور یہ زاہدوں کے ایمان کا درجہ ہے۔ چوتھا درجہ کپڑے اور بدن کو نجات سے پاک رکھنا ہے تاکہ رکوع و سجود وغیرہ ارکان نماز سے آراستہ ہوجائیں اور یہ عام مسلمانوں کی طہارت کا درجہ ہے۔ اس لیے کہ مسلمان اور کافر میں نماز ہی فرق کرنے والی چیز ہے۔ تو یہ طہارت بھی نصف ایمان ہے۔

اس سے معلوم ہو ا کہ ایمان کے چاروں درجات پر پاکی نصف ایمان ہے۔ بدن اور کپڑے کی طہارت و پاکیزگی کی طرف تو سب لوگ متوجہ بھی ہوتے ہیں اور اس کے لیے کوشش بھی کرتے ہیں۔ حالاں کہ یہ تو آخری درجے کی پاکی ہے۔ اس میں توجہ اور انہماک کی وجہ یہ ہے کہ طہارت کی باقی اقسام سے یہ آسان ہے اور اس سے نفس بھی خوش ہوتا اور آرام بھی محسوس کرتا ہے اور دوسرے لوگ بھی اس ظاہری پاکی کو دیکھتے اور اسی سے اس کے زہد و پارسائی کا چرچا ہوتا ہے۔ اس وجہ سے یہ لوگوں کو آسان معلوم ہوتی ہے۔ لیکن جہاں تک حسد، ریا، حبِ دنیا سے دل کو پاک کرنے اور گناہوں سے بدن کو صاف کرنے کا تعلق ہے، اس میں نفس کا کچھ حصہ نہیں یعنی اس میں نفس کو لطف نہیں ملتا اور نہ ہی مخلوق کی نگاہ اس پر پڑتی ہے۔

اس لیے کہ یہ باتیں تو اللہ دیکھتا ہے، مخلوق نہیں دیکھتی۔ اس لیے عام لوگ اس طرف توجہ نہیں دیتے۔ ظاہری و باطنی طہارت جدا جدا ہیں۔ جس طرح باطنی طہارت کی تین اقسام ہیں۔ گناہوں سے ظاہری اعضاء کی طہارت، برے اخلاق سے ظاہری دل کی طہارت اور شرک سے باطن دل کی طہارت۔ اسی طرح ظاہری طہارت کی بھی تین قسمیں ہیں۔ ایک نجاست سے طہارت، دوسرے حدث و جنابت سے طہارت اور تیسرے ان چیزوں سے طہارت جو بدن میں بڑھ جاتی ہیں، جیسے ناخن اور ناپسندیدہ بال وغیرہ۔

پہلی قسم ظاہری نجاست اور پلیدگی سے جسم، لباس اور جگہ کو پاک و صاف کرنا ہے۔ دوسری قسم جن حالتوں میں غسل یا وضو واجب ہے، ان حالتوں میں غسل یا وضو کرکے شرعی طہارت و پاکیزگی حاصل کرنا ہے۔ اور تیسری قسم جسم کے مختلف حصوں میں جو گندگی اور میل پیدا ہوتا رہتا ہے اس کی صفائی کرنا ہے، جیسے ناک، دانتوں اور ناپسندیدہ بالوں کی صفائی۔

اسلامی عقائد میں جو اہمیت توحید کی ہے وہی حیثیت عبادت میں طہارت کی ہے۔ جیسے توحید کے بغیر کوئی عمل قبول نہیں ہو سکتا، ویسے ہی طہارت کے بغیر کوئی عبادت قبول نہیں ہوسکتی۔ جس طرح ہم توحید کو مذہبی اعتقادات کا اصل الاصول سمجھتے ہیں اسی طرح طہارت پر اپنی عبادات کا دار و مدار بھی مانتے ہیں۔

نبی پاک ؐ نے ارشاد فرمایا : '' اے انسؓ ! پوری طہارت کیا کرو تاکہ تمہاری عمر دراز ہو۔''

( کیمیائے سعادت)

گویا آپ ؐ نے درازیٔ عمر کے لیے طہارت و صفائی کو لازم قرار دیا اور ہمیشہ باوضو رہنے کو سراہا۔ (بہ حوالہ ترمذی شریف)

اللہ تعالیٰ ہمیں عقائد و اعمال کی پاکیزگی اور ظاہری و باطنی ہر قسم کی نجاستوں سے طہارت و پاکیزگی اختیار کرنے کی توفیق سے نوازے۔ آمین۔

(عظمیٰ علی )

مقبول خبریں