- اسمگلنگ کا قلع قمع کرکے خطے کو امن کا گہوارہ بنائیں گے ، شہباز شریف
- پاکستان میں دراندازی کیلیے طالبان نے مکمل مدد فراہم کی، گرفتار افغان دہشتگرد کا انکشاف
- سعودی دارالحکومت ریاض میں پہلا شراب خانہ کھول دیا گیا
- موٹر وے پولیس اہل کار کو ٹکر مارنے والی خاتون جوڈیشل ریمانڈ پر جیل روانہ
- کراچی میں رینجرز ہیڈ کوارٹرز سمیت تمام عمارتوں کے باہر سے رکاوٹیں ہٹانے کا حکم
- اوگرا کی تیل کی قیمتیں ڈی ریگولیٹ کرنے کی تردید
- منہدم نسلہ ٹاور کے پلاٹ کو نیلام کر کے متاثرہ رہائشیوں کو پیسے دینے کا حکم
- مہنگائی کے باعث لوگ اپنے بچوں کو فروخت کرنے پر مجبور ہیں، پشاور ہائیکورٹ
- کیا عماد، عامر اور فخر کو آج موقع ملے گا؟
- سونے کی قیمتوں میں معمولی اضافہ
- عمران خان، بشریٰ بی بی کو ریاستی اداروں کیخلاف بیان بازی سے روک دیا گیا
- ویمنز ٹیم کی سابق کپتان بسمہ معروف نے ریٹائرمنٹ کا اعلان کردیا
- امریکی یونیورسٹیز میں ہونے والے مظاہروں پر اسرائیلی وزیراعظم کی چیخیں نکل گئیں
- پولیس یونیفارم پہننے پر مریم نواز کیخلاف کارروائی ہونی چاہیے، یاسمین راشد
- قصور ویڈیو اسکینڈل میں سزا پانے والے 2 ملزمان بری کردیے گئے
- سپریم کورٹ نے اسپیکر بلوچستان اسمبلی عبدالخالق اچکزئی کو بحال کر دیا
- مرغی کی قیمت میں کمی کیلیے اقدامات کر رہے ہیں، وزیر خوراک پنجاب
- عوام کو کچھ نہیں مل رہا، سارا پیسہ سرکاری تنخواہوں میں دیتے رہیں گے؟ چیف جسٹس
- وزیراعلیٰ بننے کیلئے خود کو ثابت کرنا پڑا، آگ کے دریا سے گزر کر پہنچی ہوں، مریم نواز
- کلین سوئپ شکست؛ ویمنز ٹیم کی سلیکشن کمیٹی میں بڑی تبدیلیاں
فلیگ شپ ریفرنس میں بھی نواز شریف پر فرد جرم عائد
اسلام آباد: سابق وزیراعظم نواز شریف پر نیب کی جانب سے دائر کردہ تیسرے ریفرنس میں بھی فرد جرم عائد کردی گئی جب کہ ان کے دونوں بیٹوں کو مفرور قرار دے دیا گیا۔
قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے دائر کردہ فلیگ شپ ریفرنس میں سابق وزیراعظم میاں نواز شریف پر فرد جرم عائد کردی گئی جب کہ حسن اور حسین نواز کو مفرور قرار دے دیا گیا۔ عدالت نے ریفرنس کی سماعت 26 اکتوبر تک ملتوی کرتے ہوئے استغاثہ کے گواہ کمشنر ان لینڈ ریونیو جہانگیر احمد کو طلب کرلیا۔
اسلام آباد کی احتساب عدالت میں نیب ریفرنس کی سماعت میں نواز شریف کے نمائندے ظافر خان پیش ہوئے۔ سابق وزیراعظم کی غیر موجودگی میں ان کے نمائندے کو فرد جرم پڑھ کر سنائی گئی جبکہ ظافر خان نے صحت جرم سے انکار کیا۔ نواز شریف نے اپنے نمائندے کے ذریعے بیان میں کہا کہ مقدمے کا سامنا کروں گا اور آئین پاکستان انہیں شفاف ٹرائل کا حق دیتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر پر فرد جرم عائد
فلیگ شپ ریفرنس میں عائد فرد جرم کے مطابق سابق وزیراعظم نے آمدن سے زائد اثاثے بنائے جن کی قانونی حیثیت ثابت کرنے میں وہ ناکام رہے۔ ملزمان نے 15 کمپنیاں قائم کیں جن میں حارث اسٹون پراپرٹیز، کیو ہولڈنگ لمیٹڈ، کوئنٹ ایڈن اور کوئنٹ سلون لمیٹڈ شامل ہیں۔ نواز شریف نے حسن حسین کے نام پر بے نامی جائیدادیں بنائیں جبکہ بچوں کے نام پر موجود جائیداد اصل میں والد کی ہے۔
نواز شریف متعدد مواقع ملنے کے باوجود اثاثوں کے ذرائع ثابت نہ کرسکے اور کرپشن کے مرتکب پائے گئے، نیب قوانین کے مطابق ان کا فعل قابل سزا جرم ہے اور کرپشن الزامات پر وہ سزا کے مستحق ہیں، حسن نواز کی لندن میں دس کمپنیاں اور متعدد مہنگی جائیدادیں ہیں حالانکہ نوے کی دہائی میں ان کا کوئی ذریعہ آمدن نہیں تھا لیکن تعلیم مکمل کرتے ہی انہوں نے متعدد کمپنیاں بنا ڈالیں۔
فرد جرم میں کہا گیا کہ نواز شریف وزیر اعلیٰ اور وزیر اعظم کے عہدوں پر فائز رہے جب کہ 2007 سے لے 2014 تک کیپیٹل ایف زیڈ ای کے چیئرمین بھی رہے، نواز شریف نے جے آئی ٹی کو دیے گئے بیان میں اعتراف کیا کہ وہ کمپنیوں میں شیئر ہولڈر ہیں اور انہوں نے سپریم کورٹ میں بھی بیان جمع کرایا۔
چارج شیٹ کے مطابق 1989-90 میں حسن اور حسین نواز والد کی زیر کفالت تھے اور اسی دوران ان کی ملکیت میں بے نامی جائیدادیں بنائی گئیں۔ حسن نواز اپنے والد کے اثاثوں کا انتظام سنبھالتے تھے اور انہوں نے 1990 سے 95 تک کے اثاثوں کا ریکارڈ جمع کرایا۔ حسن نواز نے 2001 میں لندن میں کاروبار شروع کیا۔ فلیگ شپ انویسٹمنٹ کمپنی 2001 میں لندن میں قائم کی گئی اور کیپٹل ایف زیڈ ای بھی 2001 میں بنائی گئی۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ صفدر پر کرپشن کے 2 ریفرنسز ایون فیلڈ اور العزیزیہ اسٹیل ملز میں فرد جرم عائد کی گئی تھی۔ عدالتی وقت ختم ہونے پر تیسرے ریفرنس فلیگ شپ میں فرد جرم عائد کرنے کیلئے سماعت آج جمعہ تک ملتوی کی گئی تھی۔ نواز شریف اہلیہ بیگم کلثوم نواز کی علالت کی وجہ سے لندن میں ہیں اور انہوں نے 24 اکتوبر کو وطن واپسی کا اعلان کیا ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔