شام، فلسطین، یمن، عراق، ہند (آخری قسط)

اوریا مقبول جان  جمعـء 23 اکتوبر 2015
theharferaz@yahoo.com

[email protected]

شام کی سرزمین پر جو جنگ و جدل اور خونریزی ہے اور جس طرح مغربی طاقتیں امریکا اور روس اس پر قبضے کی جنگ لڑ رہے ہیں، اسی طرح مسلم امّہ کی دو طاقتیں سعودی عرب اور ایران بھی وہاں اپنے غلبے کی لڑائی لڑ رہی ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ امریکا اور روس کھل کر اعلان کرتے ہیں کہ یہ ہمارے اس خطے میں مفادات کی جنگ ہے، لیکن سعودی عرب اور ایران اسے مسلک کا لبادہ اوڑھا کر منافقت کرتے ہیں اور اپنے علاقائی ایجنڈے کو حق و باطل کی جنگ بنا کر پیش کرتے ہیں۔

یہ نہ شیعہ کی لڑائی ہے اور نہ سنی کی، یہ وہ قتل و غارت اور خانہ جنگی ہے جس نے پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ مارچ 2011ء میں شام کے صدر بشارالاسد کے خلاف بھی ویسی ہی عوامی تحریک اٹھی تھی جیسی مصر، تیونس، مراکش، لیبیا اور یمن میں تحریکیں اٹھیں۔ پہلی جماعت جس نے بشارالاسد کے خلاف تحریک سے جنم لیا اسے حساّن عبود ابو عبداللہ نے منظم کیا، جسے حرکتِ احرار الشام الاسلامیہ کہتے ہیں۔ گیارہ نومبر 2011ء کو اس نے اپنے قیام کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا کسی عالمی جہادی تنظیم سے کوئی تعلق نہیں۔ اس دوران بشارالاسد کے مظالم اسقدر شدید ہو گئے کہ لاکھوں لوگ ہجرت کر گئے اور بھوک کا عالم یہ تھا کہ لوگ مردہ جانوروں کا گوشت تک کھا کر زندہ رہنے پر مجبور ہو گئے۔

اس ظلم کے ردعمل میں بشار حکومت کے خلاف ہر علاقے میں جہادی گروہوں نے جنم لینا شروع کیا۔ سعودی عرب نے اپنے ایک عالمِ دین امیر زہران علوش کو مکمل امداد کے ساتھ وہاں بھیجا جس نے جیش الاسلام کے نام سے تنظیم بنائی۔ یہ غوطہ شہر پر قابض ہیں اور انھوں نے دمشق پر حملہ کرنے کے لیے درجنوں سرنگیں کھود رکھی ہیں۔ چند ماہ قبل انھوں نے شام کے وزیرِ انصاف کو دمشق کے ریڈ زون سے اغوا کیا اور بدلے میں پانچ سو قیدیوں کو چھڑایا۔ 22 نومبر 2013ء کو حسان عبود نے ان تمام تنظیموں کو اکٹھا کیا اور گیارہ جماعتوں کے اتحاد کے بعد “الجبہۃالاسلامیہ” کا اعلان کر دیا۔

اس اتحاد میں کردوں کی بہت بڑی تنظیم الجبہۃ الاسلامیہ کردیہ بھی شامل تھی۔ یہ وہ موڑ تھا جس سے عالمی طاقتوں کو اس کھیل میں کودنے کا موقع ملا۔ سعودی عرب کی جیش الاسلام کی حمایت کے بعد ایران ویسے تو بشارالاسد کی پہلے سے ہی مدد کر رہا تھا، لیکن اب وہ کھل کر سامنے آ گیا۔ اپنے پاسداران اور  بسیج کے نوجوانوں کو وہاں لڑنے کے لیے بھیجا اور دنیا بھر میں اسے حق و باطل کا معرکہ قرار دے کر لوگوں کو وہاں لڑنے کے لیے اکسایا۔ اس وقت وہاں ایران کی مدد سے تین ملیشیا لڑ رہے ہیں جو کہتے ہیں ہم اپنے مقدس مقامات کے تحفظ کی جنگ لڑ رہے ہیں۔

دوسری جانب دولتِ الاسلامیہ یعنی داعش کو اٹھایا گیا تا کہ کسی طور پر بھی شام کی سنی اکثریت جو دس فیصد علوی بشارالاسد کے پرتشدد عہد میں رہ رہی ہے وہ متحد نہ ہو نے پائے۔ داعش کے قیام میں عراق اور شام کی حکومتوں نے جس طرح تعاون کیا اس کی مثال عراق میں موصل اور شام میں تدمر کے شہروں کی داعش کے ہاتھوں فتح ہے۔ موصل کو چھوڑتے ہوئے عراقی فوجی اپنا اسلحہ، ٹینک، دیگر ساز و سامان داعش کے لیے چھوڑ گئی۔

اسی طرح شام کے شہر تدمر کو جب بشارالاسد کی فوجوں نے خالی کیا تو جدید اسلحہ، گولہ بارود اور ٹینک داعش کے لیے چھوڑ گئے۔ گزشتہ تین سالوں سے شام کی فوج حمص شہر پر قبضے کی کوشش کر رہی ہے لیکن دو ماہ پہلے وہ وہاں سے پیچھے ہٹ گئی ہے اور حیرانی کی بات ہے کہ اب ان سے بشارالاسد کی یہ لڑائی لڑنے کے لیے داعش جا رہی ہے جو حمص سے چند کلو میٹر فاصلے پر ہے۔ شام کے شہر لاتاکیہ میں ایرانی فوج کا جرنیل قاسم سلیمانی پہنچ چکا ہے جس کی تصاویر رائٹرز نے جاری کیں، جب وہ ایرانی پاسداران اور حزب اللہ کے دستوں سے مشترکہ خطاب کر رہا تھا۔

اب یہ میدان بہت گرم ہونے جا رہا ہے، اس کی کئی وجوہات ہیں۔ 3 دسمبر 2014ء کو جب گیارہ جماعتوں کے اتحاد کا اجلاس ادلب میں ہو رہا تھا جس میں حسان عبود سمیت تمام قائدین جمع تھے تو ایک بہت بڑا دھماکا ہوا جس میں سب کے سب جاں بحق ہو گئے۔ یہ سب اس وقت “وحدت الصف” یعنی ایک ساتھ لڑنے کا طریقہ کار طے کر رہے تھے۔ اس کے بعد سے ہر کوئی اپنے طور پر لڑ رہا ہے۔ اس دوران داعش نے اپنی جگہ بنا لی ہے، کیونکہ اس کا ایک خفیہ اتحاد بشارالاسد کی افواج سے ہے اسی لیے شام میں داعش نے اب تک صرف دیگر جہادی تنظیموں سے ہی جنگ کی ہے۔

روس، عراق اور ایران کے اتحاد اور امریکی حکمتِ عملی کی وجہ سے یہ جنگ بہت طویل بھی ہو سکتی ہے کیونکہ یہ سب طاقتیں مل کر بشارالاسد کو مستحکم اور مضبوط بنا دیں گی۔ یہ جنگ جسے ایران اور سعودی عرب نے حق و باطل کی جنگ بنا کر مسلم امّہ کو ہیجان میں مبتلا کیا ہے، دراصل وہ فساد ہے جس کی نشاندہی میرے آقا سید الانبیاء ﷺ نے کی تھی۔ آپ ذرا احادیث کو ترتیب سے دیکھیں تو حیران رہ جائیں گے چودہ سو سال پہلے آپﷺ نے کیسے خبردار کیا تھا۔

فرمایا “جزیرۃ العرب اس وقت تک خراب نہ ہو گا جب تک مصر خراب نہ ہو جائے (الفتن)، عنقریب تم افواج کو پاؤ گے شام، عراق اور یمن میں ( البیہقی)، خبردار کرتے ہوئے فرمایا “جب شام میں فساد ہو تو تمھاری خیر نہیں (مسند احمد بن حنبل)۔ حضرت اسحٰق بن ابی یحییٰ الکعبی حضرت اوزاعی سے روایت کرتے ہیںکہ “جب پیلے جھنڈوں والے مصر میں داخل ہوں تو اہلِ شام کو زمین دوز سرنگیں کھود لینا چاہیں (السنن الواردۃ الفتن)۔ ان احادیث کو موجودہ زمانی ترتیب سے دیکھ لیں۔ عرب بہار کا آغاز سب سے پہلے مصر سے ہوا اور جیسے وہیں تحریر اسکوائر پر چار انگلیوں والے پیلے رنگ کے جھنڈے بلند ہوئے اور ادھر بشار الاسد کی فضائیہ نے نہتے عوام پر حملے شروع کر دیے اور اب تو پوری دنیا شام کے عوام پر حملہ آور ہے جنھیں آپ ﷺ کے ارشاد کے مطابق زمین دوز سرنگیں کھود لینا چاہیں۔

یہ فساد جو اس وقت برپا ہے اس کا انجام کیا ہو گا۔ ایک تو وہ تجزیہ ہے جو سیاسی، عسکری اور عالمی تجزیہ نگار کرتے ہیں۔ یہی تجزیے آپ کو نیویارک، لندن، تہران اور ریاض کے اخباروں میں ملیں گے۔ ہر کوئی اپنے حساب سے تجزیہ کر رہا ہے۔ لیکن ایک تجزیہ وہ ہے جو رسولِ اکرم ﷺ کی احادیث کی اور پیش گوئیوں کی روشنی میں ہے، اور وہی حق ہے کہ صادق و امین پیغمبر کی زبان سے جاری ہوا ہے۔

اس سارے فساد اور لڑائی سے کسی خیر کی کوئی توقع نظر نہیں آ رہی بلکہ اس کے بطن سے شام پر ایک شخص کی حکومت قائم ہو گی “جس کا نام عبداللہ ہو گا اور وہ سفیانی کے نام سے مشہور ہو گا، اس کا خروج مغربی شام میں اندر نامی جگہ سے ہو گا” (الفتن۔ نعیم بن حماد)۔ دوسری روایت “ام المومنین امِ سلمہ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ سے سنا کہ سفیانی کا خروج شام میں ہو گا، پھر وہ کوفہ کی جانب روانہ ہو گا تو مدینہ منورہ کے جانب بھی لشکر روانہ کرے گا، چنانچہ وہ لوگ وہاں لڑائی کریں گے جب تک اللہ چاہے، اور حضرت فاطمہ کی اولاد میں سے ایک پناہ لینے والا حرم شریف میں پناہ لے گا، لہٰذا وہ لشکر اس کی طرف نکلیں گے تو جب یہ لوگ مقامِ بیداء میں پہنچیں گے تو ان سب کو زمین میں دھنسا دیا جائے گا سوائے ایک شخص کے جو لوگوں کو ڈرائے گا (علل ابن ابی حاتم)۔ اس دھنسانے کے واقعہ کے بعد اس بڑی عالم گیر جنگ کا صحیح آغاز ہو گا۔ اس لیے وہ پناہ لینے والے شخص امام مہدی ہونگے جن کے بارے میں تمام مسالک متفق ہیں۔

امت اس وقت جس انتشار اور فساد میں مبتلا ہے اس کو متحد صرف انھی کی ذاتِ گرامی کرے گی۔ ان کا ہیڈ کوارٹر شام کا شہر غوطہ ہو گا۔ سفیانی کے دھنسائے جانے کے بعد جو جنگ شروع ہو گی اس بارے میں فرمایا “جب رومی جنگِ عظیم میں اہلِ شام سے جنگ کریں گے تو اللہ دو لشکروں کے ذریعے اہلِ شام کی مدد کرے گا، ایک مرتبہ ستر ہزار سے اور دوسری مرتبہ80 ہزار اہلِ یمن سے جو اپنی بند تلواریں لٹکائے آئیں گے۔ وہ کہتے ہوں گے ہم پکے سچے اللہ کے بندے ہیں (الفتن)۔ مغرب کی طاقتوں سے یہ جنگ اعماق اور دابق کے مقام پر ہو گی۔ یہ دونوں قصبے شام کے شہر حلب سے پنتالیس کلو میٹر کے فاصلے پر ہیں۔ رسولِ اکرم ﷺ نے فرمایا “اہلِ روم اعماق اور دابق کے مقام پر پہنچیں گے۔

ان کی جانب ایک لشکر مدینہ کی طرف سے پیشقدمی کرے گا جو اس زمانے کے بہترین لوگوں میں سے ہو گا۔ جب دونوں لشکر آمنے سامنے ہوں گے تو رومی کہیں گے تم ہمارے اور ان لوگوں کے درمیان سے ہٹ جاؤ جو ہمارے لوگ قید کر کے لائے ہیں، ہم انھی لوگوں سے جنگ کریں گے۔ مسلمان کہیں گے اللہ کی قسم ہم ہر گز تمہارے اور اپنے بھائیوں کے درمیان سے نہیں ہٹیں گے۔ اس پر تم ان سے جنگ کرو گے۔ اب ایک تہائی مسلمان بھاگ کھڑے ہوں گے، جن کی توبہ اللہ کبھی قبول نہیں کرے گا، ایک تہائی شہید کر دیے جائیں گے، باقی ایک تہائی فتح حاصل کریں گے (مسلم، ابنِ حباّن)۔ یہ ہے وہ میدانِ جنگ جو سیدنا امام مہدی کی سربراہی میں برپا ہو گا۔ اس وقت امتِ مسلمہ جس افتراق، انتشار، خانہ جنگی اور مسلکی بنیاد پر قتل و غارت کا شکار ہے، ہر کوئی ایک دوسرے کا گلہ کاٹنے کو حق سمجھتا ہے۔ مفادات نے مسالک میں پناہ لے لی ہے۔ ذاتی تعصب کو لوگ حق و باطل کی جنگ سمجھتے ہیں۔

مغرب سے مغلوبیت اور ان کی کاسہ لیسی کو کامیابی تصور کیا جاتا ہے۔ ایسے میں ڈیڑھ ارب مسلمان کیا کسی ایک جگہ اکٹھا ہو سکتے ہیں۔ اس کا جواب نفی میں نظر آتا ہے۔ ہاں صرف اسی وقت اکٹھا ہوں گے جب اللہ کے رسولﷺ کے فرمان کے مطابق سیدنا امام مہدی جیسی قیادت ان کے درمیان موجود ہو گی۔ حالات و واقعات اسی جانب پیش قدمی کر رہے ہیں۔ اس فساد نے ظالموں کو ظالموں سے لڑا کر ختم کرنا ہے اور اس کی کوکھ سے اتحاد نے جنم لینا ہے۔     (ختم شد)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔