
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com
پٹرول اور ڈیزل عوام کی روزمرہ کی ضرورتوں میں شامل ہیں جن کی قیمتوں میں اضافے سے عوام براہ راست متاثر ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ پٹرول اور ڈیزل پر جی ایس ٹی کی شرح 13 فیصد کردی ہے یہ پہلا موقع نہیں کہ حکومت نے پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ کیا ہے بلکہ اس سے قبل بھی یہ عوام دشمن پریکٹس بار بار دہرائی جاتی رہی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ حکومت کو بد ترین معاشی مسائل کا سامنا ہے اور ان سے نمٹنے کے لیے کسی نہ کسی کے سر پر مہنگائی کا تاج رکھنا پڑے گا۔ پاکستان میں یہ روایت عام ہوگئی ہے کہ حکومت کسی کی ہو مشکلات سے نکلنے کا واحد راستہ عوام کے سروں پر مہنگائی کا پہاڑ رکھ دیا جاتا ہے۔
پی ٹی آئی حکومت ایک مڈل کلاسر حکومت ہے، اشرافیائی اسٹیٹس کو کو توڑ کر برسر اقتدار آئی ہے اور عوام حکومت سے یہ توقع کرنے میں حق بجانب ہیں کہ یہ حکومت انھیں ریلیف دے گی، لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ حکومت غریب عوام اور مڈل کلاس کا گلا دبا رہی ہے۔ بے چارے عوام حیران ہیں کہ کریں تو کیا کریں۔اس میں ذرہ برابر ابہام نہیں ہے کہ یہ سب کیا دھرا ہماری اشرافیہ کا ہے جو عوام کے سروں پر سوار ہے لیکن اس کیے دھرے کا یہ حل نہیں کہ پہلے سے ادھ موئے عوام کو مسلسل رگڑا جائے۔
ہماری ہزاروں ،ارب پتیوں پر مشتمل اشرافیہ کے پاس دولت کی فراوانی کا عالم یہ ہے کہ اگر اس سے اس کی دولت کا 5 فیصد حصہ بھی دولت ٹیکس کے نام پر مزید لیا جائے تو اس کی امارت پر توکوئی اثر نہیں پڑے گا البتہ غریب طبقات کے گلے پر چھری چلانے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ اس کے علاوہ اشرافیہ پر اربوں نہیں کھربوں کی کرپشن کے الزامات ہیں اور ان محترمین پر ریفرنسز بھی دائر ہیں۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق کرپشن کی مرتکب اشرافیہ کے خلاف حکومت کے پاس ثبوت بھی ہیں لیکن یہ ریفرنسز تعطل کا شکار ہیں ، ملزم مجرم اس وقت تک نہیں ہوتا جب تک اس کے خلاف ٹھوس ثبوت نہ ہوں ہم جس دنیا کے امتیازی نظام سرمایہ داری میں رہ رہے ہیں اس میں گواہ ثبوت کو ہوا میں اڑا دیا جاتا ہے ، عام تاثر یہ ہے کہ جو وکیل قتل کے ملزم کو بچا لیتا ہے وہ سب سے بڑا وکیل مانا جاتا ہے، جس ملک کی نفسیات کا عالم یہ ہو وہاں انصاف کا اور قانون کا کیا حال ہوگا اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔
ہمارے کالم کا بنیادی موضوع مہنگائی ہے جو پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے آسمان سے زیادہ اونچی ہوگئی ہے اور اس بلائے بے درماں کا شکار غریب عوام ہی ہوتے ہیں، اشرافیہ ان بلاؤں کوکچرا سمجھ کر جھاڑ دیتی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ ان تک محدود نہیں ہوتا بلکہ اشیائے صرف کی قیمتوں میں بلاجواز اضافے کا سبب بھی بن جاتا ہے ۔ ایک عام سبزی، گوشت فروش بھی پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافے کو جواز بناکر ان اشیا کی قیمتوں میں اندھا دھند اضافہ کردیتا ہے جس کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔ سارا نزلہ غریب طبقات کے اوپر گرتا ہے۔
اور ملکوں کی طرح ہمارے ملک میں بھی پرائس کنٹرول کمیشن موجود ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس ادارے بلکہ اہم ترین ادارے کا عملہ مہنگائی کے بوجھ سے عوام کو نجات دلانے جاتا ہے اور اپنی جیبیں بھاری کروا کر واپس آتا ہے یہ بوجھ بھی عوام کے سروں پر آتا ہے۔ کہا جاتا ہے ہمارے ملک میں کرپشن کے خلاف جو ادارے کام کر رہے ہیں وہ بالواسطہ کرپشن میں اضافے کا سبب بن رہے ہیں یہ سرمایہ دارانہ نظام کا کمال ہے۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ کرپٹ'' اسٹیٹس کو'' کو توڑ کر جو مڈل کلاسر حکومت برسر اقتدار آئی ہے کیا وہ عوام کو مہنگائی سے نجات دلائے گی یا مہنگائی میں اور اضافہ کرے گی؟ ہم سمیت بہت سارے وہ قلم کار اشرافیائی اسٹیٹس کو کے ٹوٹنے سے خوش اور مطمئن تھے اور امید کر رہے تھے کہ اب عوام کو کچھ نہ کچھ ریلیف ملے گا اب آسمان کو چھوتی ہوئی مہنگائی سے نہ صرف شرمندہ ہیں بلکہ حیران ہیں کہ ہماری امیدیں اور خوش فہمیاں اندھے کا خواب بن گئی ہیں اور عوام سے شرمندہ ہیں۔
دنیا میں بڑے بڑے معاشی ماہرین، دانشور اور مفکر ہیں جو مشکل وقت میں حکمرانوں کو اپنے قیمتی مشوروں سے نوازتے ہیں۔ ہوسکتا ہے ہمارا خیال غلط ہو لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ عموماً معاشی ماہرین، دانشور، مفکر اس نظام میں نظام کے غلاموں کی طرح کام کرتے ہیں، سو ان اکابرین سے یہ توقع رکھنا کہ وہ عوام کو مہنگائی کے عذاب سے نکالنے کے لیے حکمرانوں کو کوئی نسخہ کیمیا بتائیں گے ''خیال است و محال است و جنوں'' کے علاوہ کچھ نہیں کیونکہ ''ہرکہ در کان نمک رفت نمک شد'' والا معاملہ ہے عمران خان نے اگر غریب عوام کو مہنگائی سے نجات نہ دلائی تو عوام سڑکوں پر آجائیں گے۔