احد چیمہ، راؤ انوار اور دوہرا سماجی و قانونی معیار

عماد ظفر  منگل 27 فروری 2018
موجودہ نظام راؤ انوار جیسے غنڈوں کو تحفظ فراہم کرتا ہے لیکن احد چیمہ جیسے قابل افسران کو پیغام دیتا ہے کہ قابلیت اور ذہانت کی اس سماج میں کوئی گنجائش نہیں۔ (فوٹو: فائل)

موجودہ نظام راؤ انوار جیسے غنڈوں کو تحفظ فراہم کرتا ہے لیکن احد چیمہ جیسے قابل افسران کو پیغام دیتا ہے کہ قابلیت اور ذہانت کی اس سماج میں کوئی گنجائش نہیں۔ (فوٹو: فائل)

آپ کو وطن عزیز میں اگر قانون کے دو مختلف ترازو دیکھنے ہیں یا ریاست کے اندر ایک اور ریاست دیکھنی ہے تو احد چیمہ اور راؤ انوار کی مثالوں سے بہ آسانی وطن عزیز میں دو مختلف بیانیوں اور انصاف کے دوہرے معیار کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ احد چیمہ ایک سول سرونٹ ہے اور مقابلے کے امتحان میں منتخب ہو کر آیا۔ مشرف دور میں چوہدری پرویز الہی نے پنجاب حکومت کے ’’پڑھا لکھا پنجاب‘‘ کے پروجیکٹ کےلیے اسے منتخب کیا۔ بعد ازاں مسلم لیگ نون کی صوبائی حکومت میں اسے اس کی گزشتہ کارکردگی کی بغیر پر لاہور میٹرو پروجیکٹ کا انچارج بنایا گیا۔

جس قلیل مدت میں اس نے یہ منصوبہ تعمیر کروایا، اس کی وجہ سے اسے ’’میٹرومین‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ اپنی کارکردگی اور قابلیت کی بدولت احد چیمہ نے مختلف محکمہ جات میں اہم پوزیشنوں پر کام کیا۔ دوران ملازمت جس محکمے میں بھی احد چیمہ کو تعینات کیا گیا، اس نے اپنی صلاحیتوں اور قابلیت سے وہاں گرانقدر خدمات انجام دیں۔ چوہدری پرویز الہی کا دور ہو یا مسلم لیگ نواز کی صوبائی حکومت، احد چیمہ نے بغیر کسی سیاسی تعصب یا وابستگی کے اپنے محکموں کا کام بہترین انداز میں انجام دیا۔

لیکن پھر احد چیمہ کی زندگی اور کیریئر میں ایک انتہائی اہم موڑ آیا اور نادیدہ قوتوں کی مسلم لیگ نواز سے ناراضگی اور لڑائی کا خمیازہ احد چیمہ کو بھگتنا پڑا؛ اور نیب نے بغیر کسی ثبوت کے، محض الزامات کی بنیاد پر اسے انتہائی توہین آمیز انداز میں گرفتار کرلیا۔ احد چیمہ کو ہتھکڑیاں لگائی گئیں بکتر بند گاڑی میں اسے عدالت سے نیب کی حوالات میں شفٹ کیا گیا اور سلاخوں کے پیچھے سے اس کی تصاویر پورے ملکی میڈیا پر نشر کروائی گئیں۔ آمر مشرف کے تلوے چاٹنے، زرداری کی بیعت کرنے والے اور اب عمران خان کے قدم چومنے والے سیاسی نوسر باز فواد چوہدری سے احد چیمہ کے خلاف ایک پریس کانفرنس کروائی گئی جس میں اسے شہباز شریف کا فرنٹ مین قرار دیا گیا اور اس پر لاتعداد جرائم کی فردِ جرم، میڈیا ٹاک کے ذریعے عائد کردی گئی۔ احد چیمہ ایک دن میں ایک قابل ترین افسر سے ولن بنوادیا گیا۔ اب وہ چاہے انہی عدالتوں سے بے گناہی کا سرٹیفیکیٹ بھی لے آئے، اس کی باقی زندگی معاشرے میں ایک مجرم کی مانند ہی گزرے گی۔ اس کے بچے اور خاندان کے دیگر افراد اس معاشرے میں اس کی بے گناہی کی وضاحتیں دیتے پھریں گے۔ ایک ہی دن میں ایک قابل انسان کو کیسے ہیرو سے زیرو بنایا جاتا ہے، احد چیمہ اس کی زندہ مثال ہے۔

اب آئیے راؤ انوار کی جانب۔ راؤ انوار نے 450 کے قریب ماورائے عدالت قتل کیے اور دھڑلے سے ایک کے بعد ایک جعلی پولیس مقابلے کرتا رہا۔ کراچی میں زمینوں پر بڑے افراد اور اداروں کا ناجائز قبضہ کروانے میں پیش پیش رہا۔ پولیس کے اپنے ذرائع کے مطابق راؤ انوار نے نجی عقوبت خانے بنا رکھے تھے جہاں وہ اپنے مخالفین یا اپنے آقاؤں کے بھیجے گئے بندوں کو تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد مار دیا کرتا تھا۔ بھتہ خوری، ماورائے عدالت قتل، منشیات فروشوں کی سرپرستی اور زمینوں پر قبضے جیسے سنگین جرائم میں نہ صرف وہ ملوث رہا بلکہ اس دوران اسے مقتدر حلقوں کی مکمل پشت پناہی بھی حاصل رہی۔ نقیب اللہ محسود کے قتل اور اس کے بعد عوامی دباؤ کی وجہ سے راؤ انوار کو ملازمت سے برخاست کیا گیا لیکن تمام گواہوں اور ثبوتوں کے ہوتے ہوئے بھی اس پر ہاتھ نہ ڈالا گیا۔

جب تک اعلی عدلیہ نے راؤ انوار کو گرفتار کرنے کا حکم دیا، تب تک وہ بہ آسانی ملک کے تمام قانون نافذ کرنے والے اداروں کو چکما دے کر روپوش ہو چکا تھا اور تادم تحریر روپوشی میں ہے۔ راؤ انوار ہمارے ملک کے ریاستی جبر اور دوہرے قانون کے معیار کا وہ مکروہ چہرہ ہے جس کی پشت پر موجود قوتوں کا نام لینا ہی زندگی کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہوتا ہے۔ محترم عمران خان، راؤانوار کو کچھ عرصہ قبل تک محض ایم کیو ایم کی سیاسی مخالفت میں ہیرو قرار دیا کرتے تھے جبکہ زرداری صاحب کی نظروں میں وہ آج بھی بہادر بچہ ہے۔

ایک طرف راؤ انوار نامی اجرتی قاتل ہے جس نے پورے قانونی نظام کو اپنے جوتے کی نوک پر رکھا اور تمام تر الزامات ثابت ہونے کے باوجود آج بھی اطمینان سے اپنی پناہ گاہ میں بیٹھا ملک کے قانونی اور عدالتی نظام کے ساتھ واٹس ایپ پر میسج میسج کھیل رہا ہے۔ جبکہ دوسری جانب احد چیمہ کسی بھی الزام کے ثابت ہوئے بغیر اس وقت حوالات میں قید ہے۔

یہ دو مختلف اشخاص اور ان کے ساتھ برتا جانے والا انتقامی و امتیازی سلوک اس بات کا غماز ہے کہ موجودہ نظام راؤ انوار جیسے غنڈوں کو نہ صرف تحفظ فراہم کرتا ہے بلکہ ان کی پشت پناہی کے دم پر اپنے مخالفین پر جبر و ستم کے پہاڑ توڑتا ہے۔

دوسری جانب یہی نظام احد چیمہ جیسے قابل افسران کو یہ پیغام دیتا ہے کہ قابلیت اور ذہانت کی اس سماج میں کوئی گنجائش نہیں اور اگر آپ مقتدر قوتوں کی منشا کے بغیر ایک قدم بھی چلنے کی کوشش کریں گے تو آپ کا انجام کال کوٹھڑی ہو گا۔

آپ بدقسمتی ملاحظہ کیجیے کہ احد چیمہ ایک قابل سول سرونٹ ہے اور مختلف امداد فراہم کرنے والے بین الاقوامی ادارے پنجاب حکومت کے ساتھ اپنے مشترکہ منصوبوں میں اس کے کام کی افادیت اور اس کی قابلیت کو تسلیم کرچکے ہیں۔ احد چیمہ جب چاہتا کسی بھی بین الاقوامی ادارے سے وابستہ ہوکر بیرون ملک مقیم ہوسکتا تھا اور اس قدر تنخواہ اور مراعات حاصل کرسکتا تھا جنہیں حاصل کرنا اس ملک کے اکثریتی طبقے کےلیے ایک خواب سے کم نہیں۔

شاید وہ اپنے مقدمات سے فارغ ہونے کے بعد یہی کرے گا اور نتیجتاً پاکستان ایک قابل دماغ سے محروم ہوجائے گا۔ احد چیمہ کی مثال دیکھ کر اور بھی بہت سے قابل اور نوجوان افسران وطن عزیز چھوڑ کر، باہر مقیم ہوکر زندگی بسر کرنے کا سوچیں گے۔ اور یوں وطن عزیز کئی قابل دماغوں سے محروم ہوجائے گا۔ پھر وطن عزیز میں راؤ انوار جیسے غنڈے اور فواد چوہدری جیسے سیاسی وارداتیے باقی رہ جائیں گے۔

اپنی سیاسی و فکری وابستگیوں کے تعصب میں ہم سب اندھے ہوکر محض الزامات کی بنیاد پر کسی بھی مخالف کو چور، مجرم اور غدار تو قرار دے دیتے ہیں لیکن یہ نہیں سوچتے کہ ہماری اس تماش بینی کی علت کا نقصان ہمارے ہی سماج اور وطن کو ہوتا ہے۔

احد چیمہ کو سزا دینے کی پھرتیاں دکھانے والے ادارے کے سربراہ آج تک ایبٹ آباد کمیشن رپورٹ کو دبا کر بیٹھے ہوئے ہیں۔ عدل و حکمرانی کی باتیں کرنے والی عدلیہ آج بھی مشرف کا ریڈوارنٹ جاری کرنے کا حکم دیتے ہوئے تھرتھر کانپتی ہے۔ سماجی رویّے ہوں یا آئین و قانون یا پھر ریاست کی مقتدر قوتیں، سب ایک دوہرے معیار کا شکار نظر آتے ہیں۔ دوہرے معیار اور اقدار کے سہارے پنپنے والے سماج اور نظام گول دائروں میں تو گھوم سکتے ہیں لیکن آگے بڑھنے اور ترقی کے عمل میں شریک نہیں ہوسکتے۔

آپ ملکی ستر سالہ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجیے، آپ کو وطن عزیز صرف دائروں میں گھومتا نظر آئے گا اور مقتدر قوتیں ان دائروں کے بڑھنے پر آپ کو راستوں کی طوالت کم قرار دینے کے جھوٹے دعوے کرتی دکھائی دیں گی۔ ان دونوں کیسز کو سامنے رکھیے اور خود فیصلہ کیجیے کہ آپ اپنے بچوں کو احد چیمہ جیسے قابل دماغ دینا چاہتے ہیں یا راؤ انوار جیسے اجرتی اور پیشہ ور قاتل؟ یاد رکھیے کہ درست اور مناسب فیصلے سیاسی و نظریاتی تعصبات سے بالاتر ہوکر، دوہرے معیار کو ترک کرکے لیے جاتے ہیں۔

اپنے آپ کو احد چیمہ کی جگہ رکھ کرایک بار تنہائی میں سوچیے گا کہ آپ کو کیسا لگے گا اگر کل آپ پر کوئی دوران ملازمت چوری یا رشوت لینے کا الزام لگائے یا آپ پر آپ کے کاروباری دفتر یا دکان میں آکر فراڈ اور جعلسازی کا الزام لگائے۔ ابھی الزام کسی بھی قانونی عدالت میں ثابت بھی نہ ہونے پائے لیکن آپ کو گرفتار کرلیا جائے۔ میڈیا پر آپ کی ہتھکڑیاں لگی تصاویر جاری کی جائیں اور فواد چوہدری جیسے اجرتی سیاستدانوں سے آپ کے بارے میں جرائم کی الف لیلوی داستانیں گھڑ کر بیان کروائی جائیں۔ کیا آپ اور آپ کا خاندان یہ سب کچھ برداشت کرسکیں گے؟

اگر اس کا جواب ’’ہاں‘‘ ہے تو پھر زور و شور سے تماش بینی جاری رکھتے ہوئے الزامات کی بنیاد پر مقتدر قوتوں کے پروپیگنڈے کے زیر اثر جگتیں لگائیے، فقرے کسیے، اور احد چیمہ جیسے لوگوں کے خلاف ’’چور چور‘‘ کے نعرے مار کر وقت گزاری کیجیے۔ اگر اس کا جواب نفی میں ہے تو پھر ببانگِ دُہُل یہ تقاضا کیجیے کہ احتساب کے نام پر انتقام اور مقتدر قوتوں کی پشت پناہی پر عدل کے مختلف پیمانوں کا معیار رکھنا بند کیا جائے۔

احد چیمہ جیسے افسران کو سیاسی لڑائی میں بلی کا بکرا بنانے اور راؤ انوار جیسے اجرتی قاتلوں کو پیدا کرنے والی قوتوں کو جب تک قانون کے کٹہرے میں نہیں لایا جائے گا، تب تک یہ نظام اور ریاست دوہرے پن کی تصاویر پیش کرتے ہوئے محض گول دائروں میں گھومتے ہی چلے جائیں گے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

عماد ظفر

عماد ظفر

بلاگر گزشتہ کئی سال سے ابلاغ کے شعبے سے منسلک ہیں۔ ریڈیو، اخبارات، ٹیلیویژن اور این جی اوز کے ساتھ وابستگی بھی رہی ہے۔ میڈیا اور سیاست کے پالیسی ساز تھنک ٹینکس سے بھی وابستہ رہے ہیں۔ باقاعدگی سےاردو اور انگریزی بلاگز اور کالمز لکھتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔