1948-49تا 19-2018 پاکستان کے میزانیے، ایک تاریخی جائزہ

ڈاکٹر عرفان احمد بیگ  اتوار 6 مئ 2018
 نوابزادہ لیاقت علی، ڈاکٹر شعیب، ڈاکٹر مبشر، ڈاکٹر محبوب الحق کو بجٹ سازی کی ملکی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ فوٹو: فائل

 نوابزادہ لیاقت علی، ڈاکٹر شعیب، ڈاکٹر مبشر، ڈاکٹر محبوب الحق کو بجٹ سازی کی ملکی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ فوٹو: فائل

پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت خان کے دور میں ہمارا پہلا بجٹ مالی سال 1948-49 پیش کیا گیا، اُس وقت مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان ایک ساتھ تھے۔

وطن عزیز کی مجموعی آبادی ساڑھے چھ کروڑ سے کچھ زیادہ تھی، جس میں سے مغربی پاکستان یعنی آج کے پاکستان کی آبادی تین کروڑ تھی، اس کے بجٹ کا حجم 89 کروڑ 57 لاکھ، آمدنی 79 کروڑ 57 لاکھ جبکہ خسارہ 10 کروڑ تھا، مگر اس کے بعد 1953-54 کے بجٹ کے علاوہ مالی سال 1969-70 تک تمام بجٹ خسارے کے بجائے بچت کے بجٹ تھے۔

اس کے بعد صدر جنرل یحییٰ خان کے دور میں مالی سال1970-71  اور 1971-72کے لئے خسارے کے بجٹ پیش کئے گئے۔ 16 دسمبر 1971ء کی جنگ میں ہمیں خاصا نقصان پہنچا، جون 1972 تک مالی سال ختم ہوا تو بھٹو حکومت نے پہلا بجٹ پیش کیا۔ یہ مالی سال 1972-73 کا وفاقی بجٹ اور مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش میں تبدیل ہونے کے بعد پہلا بجٹ تھا، اس کا حجم 8 ارب 96 کروڑ64 لاکھ تھا، لیکن حیرت انگیز طور پر یہ خسارے کا بجٹ نہیں تھا۔ واضح رہے کہ سقوط ڈھاکہ کے بعد ہمارا خزانہ بالکل خالی تھا اور سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کے لیے بھی صرف چار مہینوں کی رقم تھی۔

ذوالفقار علی بھٹو نے 20 دسمبر 1971ء کو اقتدار سنبھالنے کے تھوڑے عرصے بعد سعودی عرب اور لیبا سمیت خلیجی ملکوں کے طوفانی دورے کئے، جس کے نتیجے میں وہ اس قابل ہوگئے کہ اپنا پہلا بجٹ انہوں نے بغیر خسارے کے پیش کیا۔ بھٹو حکومت کا آخری بجٹ 1977-78 کا تھا، جس کا حجم 37 ارب 18 کروڑ تھا، اس میں آمدنی 34 ارب 91 کروڑ62 لاکھ جبکہ بجٹ خسارہ 2 ارب 36 کروڑ تھا۔ اس کے بعد صدر جنرل ضیا الحق کے دور میں پہلا قومی بجٹ 1978-79 کے لئے پیش کیا گیا، جس کا حجم 46 ارب72 کروڑ8 لاکھ تھا اور خسارہ 5 ارب 99 کروڑ81 لاکھ تھا۔

اِن کے دور حکومت میں 1985ء میں ملک میں غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات کرائے گئے اور وزیر اعظم جونیجو کی حکومت آئی تو اس حکومت کا مالی سال 1986-87 کے لئے بجٹ معروف ماہر اقتصادیات ڈاکٹر محبوب الحق نے بنایا، جس کا حجم 1 کھرب 52 ارب21 کروڑ تھا۔ اس بجٹ میں آمدنی1 کھرب52 ارب89 کروڑ تھی اور یوں یہ خسارے کے بجائے 47 کروڑ کی بچت کا بجٹ تھا۔ اس بجٹ میں ڈاکٹر محبوب الحق نے سالانہ افراط زر اور مہنگائی کی بنیاد پر تنخواہوں میں اضافے کا انڈکس پے اسکیل کا فارمولا بھی دیا تھا۔ یہ ہمارا 13 سال بعد بغیر خسارے کا بجٹ تھا اور اس کے بعد آج 31 سالوں تک خسارے سے پاک کوئی بجٹ نہیں آ سکا۔

تقسیم برصغیر کے وقت بھارت نے چار ارب روپے کے سرمایہ میں سے ہمارے حصے کے ایک ارب روپے کے بجائے صرف 20 کروڑ روپے دیئے، اثاثوں کی تقسیم میں ناانصافی کی اور پانی بھی روک دیا۔ 1947-48 میں کشمیر پر جنگ ہوئی اور بغیر کسی بیرونی امداد کے پاکستان نے آدھا کشمیر آزادکروایا۔ 1965ء اور1971ء میں بھارت سے دو مزید جنگیں ہوئیں۔ 1951 ء کی مردم شماری میں اس وقت کے مغربی  پاکستان اور آج کے پاکستان کی آبادی 3 کروڑ70 لاکھ تھی۔ 1961ء کی مردم شماری میں آبادی 4 کروڑ 28 کروڑ ہو گئی۔ 1972ء میں آبادی 6 کروڑ 53 لاکھ،1981ء کی مردم شماری میں 8 کروڑ 37 لاکھ جبکہ 1986ء تک یہ آبادی تقریبا دس کروڑ ہو گئی۔

ان تمام تر مسائل کے باوجود بقول ماہر معاشیات ڈاکٹر عشرت حسین مذکورہ چار دہائیوں میں ہماری معیشت بہت مستحکم رہی اور ہماری اقتصادی ترقی کی رفتار 6 فیصد رہی، سالانہ فی کس آمدنی دوگنا تھی، 1980ء کی دہائی کے آخر تک 46 فیصد غربت کم ہوکر 18 فیصد ہوگئی، اس دوران امریکی ڈالر کی قیمت 1948-49 میں ڈھائی روپے، 1972ء میں دس روپے،1977ء میں گیارہ روپے اور1987 ء میں 17.7 روپے تھی۔ 1972ء میں دس گرام سونے کی قیمت271 روپے، 1977ء میں دس گرام سونے کی قیمت 603 روپے تھی، یہ قیمت 1983ء میں2240 روپے ہوگئی جبکہ 1987ء میں دس گرام سونے کی قیمت 3340 روپے تھی۔

آزادی کے بعد پاکستان نے صنعتی اعتبار سے تیزی کے ساتھ ترقی کی۔ صدر ایوب خان کے دور حکومت میں زرعی شعبہ کے مقابلے میں صنعتی ترقی کی رفتار زیادہ تیزرہی اور ان کے دور حکومت میں منگلا اور تربیلا ڈیمز کی تعمیر بھی شروع ہوئی، البتہ ان کے اقتدار کے آخری برسوں میں صنعتی اور زرعی ترقی میں عدم توازن اور سرمایہ داروں میں ارتکاز ِ زرکی وجہ سے مسائل پیدہ ہوگئے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں 35 لاکھ افرادی قوت کے عرب ملکوں میں جانے سے نہ صرف زرمبادلہ کا ایک مستحکم ذریعہ ہاتھ آگیا بلکہ پاکستان آئی ایم ایف اور مغربی ملکوں کے قرضوں سے کافی حد تک بچ گیا۔

اگست 1988ء میں صدر جنرل ضیا الحق کی وفات کے بعد جمہوریت کی بحالی کا دور شروع ہوا اور وزیر اعظم بے نظیر بھٹوکی حکومت میں دو قومی بجٹ پیش کئے گئے۔ دوسرابجٹ مالی سال1989-90 کا تھا، جس کاحجم 2 کھرب 16 ارب31 کروڑ تھا اور اس میں بجٹ خسارہ 55 ارب روپے ظاہر کیا گیا۔ اس کے بعد نواز شریف وزیر اعظم بنے اور اپنے پہلے دور ِ اقتدار میں ان کی حکومت نے چار بجٹ پیش کئے۔ مالی سال 1993-94 کے چوتھے بجٹ کا حجم 3 کھرب32 ارب روپے تھا، جس میں بجٹ خسارہ ایک کھرب 17 ارب روپے تھا یعنی بجٹ کا تیسرا حصہ خسارہ تھا۔ اِن کے بعد پھر بے نظر بھٹو کی حکومت آئی۔ دوسری بار کی حکومت میں تین بجٹ دئیے گئے۔

اِن کی حکومت کا آخری بجٹ مالی سال1996-97 کا تھا، جس کا حجم5 کھرب20 کروڑ روپے جبکہ خسارہ 1 کھرب 63 ارب روپے تھا۔ اس کے بعد مالی سال 1997-98 کا وفاقی بجٹ 5.5 کھرب روپے کا تھا، جس میں سے خسارہ64 ارب95 کروڑ تھا۔ اس دور میں اقتصادی معاملات کچھ بہتر نہیں تھے، کیوں کہ ایک تو افغانستان میں روسی افواج کے رخصت ہونے کے بعد بحرانی کیفیت تھی اور دوسرا ابھی یہ مالی سال ختم نہیں ہوا تھا کہ مئی کے مہینے میں بھارت نے 5 ایٹمی دھماکے کردیئے، جس کے جواب میں پھر پاکستان نے بھی 28 مئی 1998 ء کو6  دھماکے کردیئے۔ دھماکوں کے باعث پاکستان پر کچھ عالمی پابندیاں لگ گئیں۔ مالی سال 1998-99 کے بجٹ کا حجم 606 ارب تھا اورخسارہ55 ارب روپے تھا۔

اس دور میں پاکستان میں زرمبادلہ کے مسائل پیدا ہوئے، اگرچہ بیرون ملک پاکستانیوں نے ایٹمی دھماکوں کے بعد حکومت کی اپیل پر زر مبادلہ بھیجا مگر ہمارے ہاں اس نازک دور میں بڑی تعداد میں ڈالر ملک سے باہر بھیجے گئے۔ اس کے بعد وزیر اعظم نوازشریف کے رخصت ہونے اور جنرل پرویز مشرف کے اقتدار میںآنے سے پہلے مالی سال 1999-2000 کا بجٹ پیش کیا گیا، جس کا حجم بھاری خسارے کے ساتھ 6 کھرب 42 ارب روپے تھا۔ 1988ء سے اکتوبر1999 تک بے نظیر بھٹو اور میاں محمد نواز شریف دو دو مرتبہ وزیر اعظم رہے، ان گیارہ برسوں میں 1990 ء میںبے نظیر بھٹوکے دور میں امریکی ڈالر 24 روپے کا ہو گیا اور دس گرام سونے کی قیمت بڑھ کر 3750 روپے ہوئی۔

نوازشر یف کاپہلا دورِاقتدار1990-93 رہا، اس دورا ن دس گرام سونے کی قیمت 3850 روپے اور امریکی ڈالر کی قیمت 25 سے 30 روپے رہی۔ اِن کے بعد پھر بے نظیر بھٹو دوسری مرتبہ 1993-96ء تک وزیر اعظم رہیں، ان کے اس دور میں امریکی ڈالر40.36 روپے ہوا اور دس گرام سونے کی قیمت 4450 روپے سے بڑھ کر6300 روپے تک پہنچ گئی۔ بے نظیر بھٹو کے بعد دوسری مرتبہ پھر نواز شریف 1997 ء سے اکتوبر1999 ء تک وزیر اعظم بنے تو امریکی ڈالرکی قیمت 53 روپے ہوگئی۔ واضح رہے کہ نوازشریف کی حکومت کے اس دور میں پاکستان میں دو اہم واقعات ہوئے۔ ایک پاکستان نے ایٹمی دھماکے کئے دوسرا یہ کہ اٹھارہ سال بعد ملک میں مردم شماری کروائی گئی ۔

جس کے مطابق ملک کی آبادی بڑھ کر ساڑھے 13 کروڑ ہوگئی۔ 1980-81ء سے پیدا ہونے والا توانائی کا بحران اتنا بڑھا کہ اس کی وجہ سے صنعتی اور زرعی پیداوار متاثر ہونے لگی۔ اسی طرح پانی کے ذخائر کم ہونے لگے۔  ایک نومولود ملک کی معیشت تقسیم ہند پر دنیا کی تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت اور اس کے ساتھ معاشی، سماجی،ثقافتی،جنگی، اقتصادی اور صنعتی اعتبار سے ہر طرح کے شدید نوعیت کے مسائل برداشت کرنے کے باوجود ترقی کر رہی تھی، مگر اس کی معیشت حقیقت میں 1980 ء سے بحران کا شکار ہونے لگی۔

1980-81ء میں جب افغانستان میں سابق سوویت یونین کی فوجیں داخل ہوئیں تو اقوام متحدہ کی جانب سے اس کو جارحیت قرار دینے پر پاکستان اس جنگ میں فرنٹ لائن کا ملک بن گیا اور ایک بار پھر یہاں تاریخی ہجرت ہوئی اور تقریبا 50 لاکھ افغان مہاجرین نے پاکستان میں پناہ لی، مگر یہ ہجرت 1947 ء سے1951 ء تک بھارت سے ہونے والی ہجرت سے بہت مختلف تھی۔ اس وقت مشرقی پاکستان میں ہندو بنگالیوں کا تناسب تقریبا 19 فیصد تھااور وہاں سے بہت ہی کم ہندو بنگالیوں نے بھارتی مغربی بنگال ہجرت کی تھی کیوں کہ وہاں قتل وغارت کو روکنے میں حسین شہید سہروردی نے مہاتما گاندہی کا بھر پور ساتھ دیا تھا، جب کہ اس کے مقابلے میں مغربی پاکستان میں خونریز فسادات پنجاب کی تقسیم پر خود بھارتی لیڈروں نے کروائے کیونکہ ریڈ کلفٹ ایوارڈ تقسیم فارمولے کے تحت مشرقی پنجاب میں مسلم اکثریتی علاقے فیروزپور،گورداسپور،زیرہ کی تحصیلیں بھارت کو دے دی گئی تھیں اور پھر ان علاقوں کو مسلمان آبادی سے بالکل خالی کروانے کے لیے ما سٹر تارا سنگھ سردار ولب بھائی پاٹیل نے یہاں مسلمانوں کا قتل عام کروایا تھا، جس کی وجہ سے مغربی پاکستان میں بھارت اور پاکستان میں آبادی کی منتقلی کا توازن اسی وقت بگڑ گیا تھا۔

آج کے پاکستان اور اس وقت کے مغربی پاکستان، جس کا مجموعی رقبہ796096 مربع کلو میٹر ہے، یہاں سے 45 لاکھ ہندوں اور سکھوں نے بھارت ہجرت کی اور اس کے مقابلے میں بھارت جس کا رقبہ 3165596 مربع کلو میٹر ہے، وہاں سے 65 لاکھ مسلمان ہجرت کرکے پاکستان آئے یوں پاکستان کی آبادی میں مہاجر آبادی کا تناسب 20فیصد ہوا اور بھارت کی آبادی مسلم ہجرت کی وجہ سے قدرے کم بھی ہوئی اور اس میں مہاجر آبادی کا تناسب ایک یا سوا فیصد رہا۔ اگرچہ علم آبادیات کے اعتبار سے آبادی کی منتقلی کا یہ تناسب ثقافتی ،لسانی اور سماجی لحاظ سے بھارت کے حق میں اور پاکستان کے بہت خلاف تھا مگر دو قومی نظریہ کی بنیاد پر اس وقت پاکستان کے مقامی لوگوں نے واقعی انصار کا حق ادا کیا ساتھ ہی یہ مہاجریوں مختلف اور فائد ہ مند تھے کہ اس وقت جو ہندو اور سکھ بھارت گئے تھے ان میں سے زیادہ تر تعلیم یافتہ ،ہنر منداور مختلف شعبوں کے ماہرین تھے اور ان کے جانے سے جو خلا پیدا ہوا تھا اس کو بھارت سے آنے والے مسلمان مہاجرین نے فوری پُر کیا۔

اس کے علاوہ لیاقت علی اور پنڈت جواہرلال نہرو میں یہ معاہدہ ہوا تھا کہ پاکستان سے بھارت جانے والے جو یہاں اپنی جائیدادیں چھوڑکر جائیں گے ان کو بھارت میں مسلمان مہاجرین کی چھوڑی ہوئی جائیدادیں کلیم پر دی جائیں گی اور پاکستان میں یہی صورت ان جائیدادوں کی ہوگی جو ہندو اور سکھ یہاں چھوڑ کر جائیں گے۔ یہ وجہ تھی کہ پاکستان کے قیام کے فورا بعد نہ صرف معیشت مضبوط ہوئی بلکہ ہم نے بہت تیز رفتار صنعتی ترقی بھی کی، لیکن یہ تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان کو افغانستان میں سابق سوویت یونین کی فوجی جارحیت کی وجہ سے جب بطور فرنٹ لائن ملک کردار اداکرنا پڑا تو ہمیں بہت زیادہ اور متواتر نقصان برداشت کرنا پڑا اور یہ نقصان اب تک جاری ہے۔

اقتصادی ترقی کی سطح 1990ء میں 3 فیصد سے 4 فیصد سالانہ رہی جبکہ غربت کی شرح بڑھ کر 33 فیصد ہوگئی، افراد زر دو ہندسوں میں پہنچ گیا اور بیرونی قرضے تقریبا پورے جی ڈی پی تک پہنچ گئے۔ 1988 ء سے 1999 ء تک بینظیر بھٹو اور نوازشریف دو دو مرتبہ وزیر اعظم بنے 1999 ء میں سرکاری قرضے فیصد تناسب کے اعتبار سے جنوبی ایشیا میں بلند ترین سطح پر پہنچ گئے۔ 1999-2000 میں ہم پر بیرونی قرضوں کا کل بوجھ 32 ارب ڈالرتھا جو 2001 ء میں بڑھ کر 38 ارب ڈالر ہوا مگر اس کے بعد آئندہ چار برسوں یعنی2005 ء تک31 ارب ڈالر سے33 ارب ڈالر کے درمیان رہا یہ وہ دور ہے جب نائن الیون کے واقعہ کے بعد پاکستان نے یو ٹرن لے کر امریکہ کا ساتھ دیا تھا۔ پھر 2006ء سے پاکستان امریکہ تعلقات میں شک وشہبات دونوں جانب سے بڑھنے لگے کیوں کہ امریکہ نے جنوبی اور سنٹرل ایشیا کے لیے اپنی پالیسیوں میں بنیادی تبدیلیاں شروع کر دی تھیں۔

یوں 2006ء میں بیرونی قرضے38.8 ارب ڈالر تک پہنچے اور اس کی سطح 2008 ء میں بھی یہی تھی، جب پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت قائم ہوئی، وزیر اعظم یو سف رضا گیلانی اور صدر مملکت آصف علی زرداری ہوئے یوں اگرچہ 2001 ء سے 2007-8 تک ہماری اقتصادی صورتحال قدرے بہتر ہوئی لیکن اس کی بھی دو وجوہات تھیں، ایک یہ کہ نائن الیون کے واقعہ کے بعد ہمیں فوری طور پرزرِمبادلہ کے حصول میں سہولت ملی، لاجسٹک سپورٹ فنڈ اور امریکی اور نیٹوافواج کو معاونت فراہم کرنے کی وجہ سے امداد بھی ملی جو اس وقت امن و امان کی کچھ بہتر صورت ہونے کی وجہ سے سود مند ثابت ہوئی لیکن یہی پالیسی جو یو ٹرن کے اعتبار سے لی گئی تھی آنے والے دنوں میں ہمارے لیے بہت مصیبت کا سبب بنی لیکن دوسری جانب یہ بھی کہا جا تا ہے کہ یہ مصیبت اس لیے بھی زیادہ بحرانی ثابت ہوئی کہ افغانستان کے حوالے سے جو پالیسی 2001ء سے 2007 ء تک اپنائی گئی تھی، 2008ء کے بعد آنے والی دونوں حکومتوں نے اس کے بالکل متضاد پالیسیاں اپنائیں، یوں 2008 ء سے 2015-16 تک کا دور امن وامان اور بیرونی جارحیت کے خطرات کے لحاظ سے ملک کی تاریخ کا سب سے نازک اور نقصان دہ دور ثابت ہوا، اسی زمانے میں پاکستان کی اقتصادی ترقی نہ صرف رک گئی بلکہ اس کا گراف تیزی سے نیچے کی جانب جانے لگا۔

مالی سال2006-07 پرویز مشرف کی حکومت کا آخری بجٹ تھا، جسے شوکت عزیز نے پیش کیا تھا، اس کا مجموعی حجم 1500 ارب روپے تھا اور خسارہ 373 ارب روپے۔ بے نظیر بھٹو اور نواب اکبر خان بگٹی کی شہادت کی وجہ سے ملک شدید سیاسی اور اقتصادی بحرانوں کا شکار تھا، بیرونی قرضے 38.8 ارب ڈالر تھے اور ڈالر کی قیمت 61 روپے ہوچکی تھی۔ اس کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت آئی اور اس کا پہلا بجٹ مالی سال 2007-08 ء میں آیا، جس کا حجم 1874 ارب روپے تھا اور بجٹ خسارہ 398 ارب روپے تھا۔

اس سال بیر ونی قرضوں کا بو جھ بڑھ کر 42.32 ارب روپے ہو گیا اور ڈالر کی قیمت 63.83 روپے ہوگئی۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے اپنا آخری بجٹ مالی سال 2012-13 میں دیا، جو وفاقی وزیر خزانہ ڈاکٹرعبدالحفیظ شیخ نے پیش کیا تھا، یہ 2960 ارب روپے کا تھا، جس میں خسارے کا ہدف 4.6 فیصد تھا اور 1.2 ارب ڈالر بیرونی قرضوں کی مد میں ادا کئے گئے۔ بعدازاں بیرونی قرضے56.19 ارب ڈالر ہوگئے اور ڈالر کی قیمت تقریباً 100 روپے ہوگئی جب کہ دس گرام سونے کی قیمت 43457 روپے تک پہنچ گئی۔ اس کے بعد الیکشن کے نتیجے میں مسلم لیگ ن کی حکومت آئی اور اسحاق ڈار وزیر خزانہ بنے، انہوں نے 13 جون 2013ء کو مالی سال 2013-14 کا بجٹ پیش کیا، جس کا حجم 3.50 کھرب روپے تھا اور اس میں بجٹ خسارے کا ہدف 6.3 فیصد تھا، 56 ارب ڈالر کے قرضوں میں سے کچھ ادائیگی ہوئی۔

اس دور میں ڈالر کی قیمت کم ہو کر 98 روپے جبکہ دس گرام سونے کی قیمت 45010 روپے ہوگئی۔ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اپنا آخری بجٹ مالی سال2017-18 ء 26 مئی 2017ء  کو پیش کیا، جو 4.75 کھرب روپے کا تھا اور اس میں خسارے کا ہدف 4.1 فیصد تھا، اس وقت ملک پر قرضوں کا بوجھ 75.66 ارب ڈالر ہوا، ڈالر کی قیمت 112 روپے ہوگئی جب کہ دس گرام سونے کی قیمت 55 سے60 ہزار روپے تک پہنچ گئی اور ساتھ ہی اندرونی قرضوں کا بوجھ خوفناک حد تک بڑھ گیا۔2018 ء کے آغاز پر اندرونی قرضے88891 ملین ڈالر تک پہنچ گئے۔

اسی طرح ملک کا تجارتی خسارہ بھی متواتر اور نہایت تیزی سے بڑھ رہا ہے اور درآمدات اور برآمدات کے حالیہ اعداد وشمار یوں ہیں، برآمدات209996 ملین روپے اور درآمدات 529775 ملین روپے یعنی ہمارا تجارتی خسارہ 319779 ملین روپے ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار جن پر عدالت میں مقدمہ ہے اور وہ گزشتہ چند مہینوں سے بقول ان کے لندن میں زیر علاج ہیں، نے گذشتہ پانچ قومی بجٹ پیش کئے تھے اور اب اس حکومت کا چھٹا اور آخری بجٹ اسحاق ڈار کی عدم موجودگی میں ان کی جگہ وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے پیش کیا ہے، اس سے ایک روز قبل انہوں نے وفاقی وزراء احسن اقبال اور ہارون اخترکے ساتھ رواں مالی سال2017-18 ء کا اقتصادی سروے جاری کیا، جس میں حکومت کے مطابق مالی سال 2017-18 میںشرح نمو 5.79 فیصد، مہنگائی3.8 فیصد، زرعی ترقی3.81 فیصد، صنعتی ترقی5.8 فیصد رہی۔

برآمدات24 ارب50 کروڑ ڈالر اور درآمدات 53 ارب دس کروڑ ڈالر رہیں۔ اس سے ایک دن پہلے اقتصادی کونسل کے اجلاس سے تین صوبوں سندھ ،خیبر پختونخوا ہ اور بلوچستان کے وزرائے اعلیٰ نے احتجاجا اجلاس کا بائیکاٹ کیا، ان کی یہ رائے بھی تھی کہ چوں کہ حکومت کی آئینی مدت مئی میں ختم ہورہی ہے اس لیے اسے چاہیے کہ وہ صرف آئندہ چار ماہ کے ا خراجات کا مختصر بجٹ پیش کرے، ان وزرائے اعلیٰ کو وفاقی بجٹ میں پی ایس ڈی پی پر اعتراضات اور تحفظات تھے کہ اس میں ان تینوں صوبوں کو ترقیاتی منصوبوں کا ان کا حق نہیں دیا گیا۔

مالی سال2018-19 کا بجٹ کئی حوالوں سے تاریخی بجٹ ثابت ہوگا۔ بجٹ سے چند گھنٹوں پہلے سینٹ اور قومی اسمبلی کی رکنیت نہ رکھنے کے باوجود مفتاح اسماعیل وزیر خزانہ ہوگئے اور اسحاق ڈار جو چند روز قبل سینٹر بھی منتخب ہوئے تھے، وفاقی وزیر خزانہ نہیں رہے، لیکن وہ متواتر اپنی حکومت پر اقتصادی منصوبہ بندی اور خصوصا ڈالر کی قیمتوں میں اضافے پر تنقید کررہے ہیں، جب کہ یہ تلخ حقیقت ہے کہ وہ ملک کی تاریخ کے سب سے متنازع وزیر خزانہ رہے اور مستقبل قریب اندیشہ ہے کہ انہوں نے اقتصادی ترقی کے جو اعداد وشمار دئیے تھے وہ بھی شاید غلط ثابت ہوں۔ 27 اپریل کو جب نئے نئے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے بجٹ پیش کیا تو اپوزیشن کا احتجاج دیدنی تھا، بھاری خسارے کے ساتھ بجٹ کا مجموعی حجم5661  ارب روپے ہے۔ بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخوہوں میں ایڈہا ک ریلیف 10 فیصد اور ہاؤس رینٹ میں50  فیصد اضافہ کیا گیا۔

75 سالہ پینشنرز کی کم سے کم پینشن پندرہ ہزار روپے کردی گئی ہے اور ساتھ ہی کم سے کم پنشن دس ہزار روپے رکھی گئی ہے، جس پر عوام سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار کا شکریہ ادا کررہے ہیں کہ انہوں نے صرف چند روز پہلے اس کا نوٹس لیا تھا۔ اگرچہ حکومت اور عالمی سطح کی غربت کے بارے میں واضح کردہ تعریف کے مطابق دو ڈالر یومیہ سے کم آمدنی کے حامل افراد کو غریب تصور کیا جاتا ہے، اس لیے دس ہزار روپے پنشن کی حد بھی کم ہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر چیف جسٹس اس کا نوٹس نہ لیتے تو یہ اضافہ بھی ممکن نہیں تھا۔ یہ بجٹ اس حکومت کے لیے تو شاید مسائل پیدا نہ کرے لیکن آنے والی حکومت بلکہ عام انتخابات سے قبل دو یا تین ماہ کی عبوری حکومت کے لیے بھی معاشی اقتصادی مسائل کا سبب بنے گا۔

اس کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ صرف دو مہینوں میں جب سے سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار لندن گئے ہیں امریکی ڈالر 104 سے بڑھ تقریبا 120 روپے کا ہوچکا ہے اور ابھی اس میں ٹھہراؤ نہیں آیا ہے۔ اس بجٹ میں محصولات کا ہدف 4435 ارب روپے، دفاعی بجٹ 110 ارب، صوبوں کے لیے 3070 ارب روپے جبکہ ترقیاتی بجٹ 1030 رکھا گیا ہے۔گھریلو بجٹ اور قومی بجٹ میں یہ بنیادی فرق ہوتا ہے کہ گھریلو بجٹ میں پہلے آمدنی آتی ہے اور پھر اس آمدنی کو مدنظر رکھ کر اخراجات طے کئے جاتے ہیں۔

اگر آمدنی کم ہو تو اخراجات بھی کم کئے جاتے ہیں مگر قومی بجٹ ایسا نہیں ہوتا، اس میں پہلے اخراجات رکھے جاتے ہیں اور پھر ان کے لیے ٹیکسوں میں ردو بدل کرکے نئے ٹیکس لگا کر یا پھر بھاری قرضے لے کر اخراجات کو پورا کیا جا تا ہے، یوں یہ بھاری خسارے والا بجٹ بھی ہے اور ماہرین اعتراف کر رہے ہیں کہ حکومت نے اس مالی سال کے لیے ٹیکسوں کی وصولی کے لیے جو اہداف رکھے ہیں وہ پورے نہیں ہوں گے۔ تاریخی اعتبار سے پاکستان کی بجٹ سازی کو دیکھیں تو یہ ملک کی معیشت ، اقتصادیات ، سیاست ، صنعت ،خارجہ پالیسی، دفاع اور اب سلامتی کے لحاظ سے بھی اہم ہے۔ قیام پاکستان کے فورا بعد لیاقت علی خان کے دو سرے قومی بجٹ سے پاکستان مستحکم ہونے لگا تھا، اسی سال پہلی پاک بھارت جنگ میں بغیر غیر ملکی امداد کے آدھا کشمیر آزاد کروایا گیا تھا۔ لیاقت علی خان کو جب اکتوبر1951 ء میں شہید کیا گیا تو اس نواب زادہ ریاست کرنال کی بنیان پھٹی ہوئی تھی۔

جیب میں ایک روپیہ پانچ آنے تھے اور بنک میں تقریبا 52 روپے تھے۔ ایوب خان کے دور میں وزیر خزانہ شعیب نے ملک کی ترقی کے کامیاب منصوبے بنائے، بھٹو دور میں وزیر خزانہ ڈاکٹر مبشر حسن نے عام آدمی کی قوت خرید میں بھی اضافہ کیا اور ملک کو بڑے پیداواری منصوبے بھی دیئے۔ وزیراعظم محمد خان جونیجو کے دور حکومت میں دنیا کے معروف ماہر اقتصادیات ڈاکٹر محبوب الحق نے طویل عرصے بعد خسارے سے پاک بجٹ دیا لیکن ان کوصرف ایک ہی بجٹ بنانے دیا گیا۔ 1988ء تا 1999ء تک پاکستان کی معیشت تیزی سے تنزلی کا شکار ہوئی، جس کو ڈاکٹر شوکت عزیر نے کچھ بہتر کیا، اس کے بعد خصوصا 2008 ء سے صورت حال بگڑتی چلی جا رہی ہے۔

اب جب اگست یا ستمبر تک نئی منتخب حکومت برسر اقتدار آئے گی تو اس کے سامنے بہت بڑے چیلنج ہوں گے۔ واضح رہے کہ 1972-73 کا بجٹ بڑے المیے کے بعد بنایا گیا تھا اور یہ ایسا بجٹ تھا کہ اس کے بعد ہم دفاعی و خارجی امورکی تشکیل میں عالمی معاشی اقتصادی دباؤ سے آزاد ہو گئے تھے ، مگر بدقسمتی دیکھئے کہ ہم 1987-88 سے معاشی طور پر عالمی مالیاتی اداروں کے شکنجے میں آچکے ہیں، جس کی قصوروار ہماری ساری حکومتیں ہیں۔ 27 اپریل کو مفتاح اسماعیل نے 71 واں قومی بجٹ دیا ہے، یہ ان کا شاید پہلا اور آخری بجٹ ہو، لیکن یہ بجٹ ملک کی معاشی، اقتصادی تاریخ کا نازک بجٹ ہوگا ،اور معلوم نہیں کہ اس مالی سال 20018-19 ء کے اختتام تک کتنی بار ماہرینِ اقتصادیات کو منی بجٹوں کی صورت میں ایسے اقدامات کرنے پڑیں کہ جن کا براہ راست نشانہ اقتصادی طور 20 کروڑ سے زیادہ عوام بنیں اور نجانے 2018 ء کے اختتام تک ہمیں کتنی بار آئی ایم ایف سے رجوع کرنا پڑے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔