موبائل فون کینسر پیدا کرتا ہے؟

سید عاصم محمود  منگل 15 مئ 2018
سائنس اس اہم سوال کا جواب ڈھونڈنے میں مصروف۔ فوٹو: سوشل میڈیا

سائنس اس اہم سوال کا جواب ڈھونڈنے میں مصروف۔ فوٹو: سوشل میڈیا

برطانیہ میں ’’چلڈرن ود کینسر‘‘ نامی ایک سماجی تنظیم نچلے طبقے سے تعلق رکھنے والیغریب گھرانوں کے ان  بچوں کا مفت علاج کراتی ہے جو کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلا ہوں۔ کچھ عرصہ قبل تنظیم نے سائنس دانوں کی ایک ٹیم کو یہ کام سونپا کہ وہ تحقیق کرکے دیکھیں، پچھلے بیس سال (1995ء تا 2015ء) میں دماغی کینسر کے مریضوں میں اضافہ ہوا ہے یا کمی آئی؟

سائنس داں اس تحقیق پر جت گئے۔ پچھلے ہفتے اس تحقیق کا نتیجہ سامنے آیا۔ اس کی رو سے بیس سال پہلے برطانیہ میں ہر سال ’’ایک ہزار پچاس ‘‘انسان دماغی کینسر کی ایک قسم، گلیوبلاسٹوما ملٹی فورم (Glioblastoma Multiforme ) میں مبتلا ہوتے تھے۔ اب مریضوں کی تعداد ’’تین ہزار‘‘  تک پہنچ چکی۔ یاد رہے، گلیوبلاسٹوما ملٹی فورم دماغی کینسر کی انتہائی خطرناک قسم ہے۔

خاص بات یہ کہ نتائج بیان کرتے ہوئے سائنس دانوں نے یہ خدشہ ظاہر کیا کہ موبائل فون اور سمارٹ فونوں سے نکلنے والی ریڈیائی لہریں بھی دماغی کینسر پیدا کرنے کا سبب بن سکتی ہیں۔ ان جملوں نے برطانیہ میں طوفان کھڑا کردیا۔ بعض طبی ماہرین نے سائنس دانوں کا خدشہ درست قرار دیا۔ کئی ماہرین سمجھتے ہیں کہ ریڈیائی لہریں انسان میں کینسر پیدا نہیں کرسکتیں۔

ریڈیائی لہریں ’’برق مقناطیسی شعاع ریزی‘‘ (electromagnetic radiation) کی ایک قسم ہیں۔ ان لہروں میں گاما، ایکس رے، الٹراوائٹ، روشنی، انفراریڈ، مائکرو ویو اور ریڈیائی لہریں شامل ہیں۔ ان ساتوں لہروں کو ’’ویولینتھ‘‘ (دور جانے کی صلاحیت) اور ’’فریکوئنسی‘‘ (لہروں کے اوپر نیچے ہونے کے چکر) کے لحاظ سے تقسیم کیا گیا ہے۔

قابل ذکر بات یہ  کہ یہ سبھی لہریں انسانی جسم میں داخل ہوکر ہمارے خلیوں سے چھیڑ چھاڑ کرتی ہیں۔ اگر کسی لہر کی شدت کم ہے، تو وہ خلیوں کو زیادہ نقصان نہیں پہنچاتی۔ لیکن شدت زیادہ ہے تو وہ کسی بھی خلیے یا خلیوں کا قدرتی ڈھانچا تباہ کرسکتی ہے۔ خلیوں میں خرابی آنے کی وجہ ہی سے  انسان کینسر کا نشانہ بن جاتا ہے۔

گاما لہروں کی ویولینتھ اور فریکوئنسی سب سے کم ہے۔ اس لیے یہ انسانی جسم کے لیے سب سے زیادہ خطرناک ہے کہ کم مقدار میں لہریں بھی زیادہ شدت رکھتی ہیں۔ مگر طرفہ تماشہ یہ کہ گاما لہریں قیمتی انسانی جانیں بچانے میں بھی کام آتی ہیں۔ دراصل مطلوبہ مقدار میں گاما لہریں انسانی جسم میں کینسر کیخلیے مار ڈالتی ہیں۔ اسی لیے بعض اقسام کے کینسروں کا علاج کرتے ہوئے استعمال ہوتی ہیں۔تاہم روزمرہ زندگی میں انسان کا گاما لہروں سے کم ہی واسطہ پڑتا ہے۔

برق مقناطیسی شعاع ریزی میں شامل تمام لہروں میں ریڈیائی لہریں سب سے لمبی ویولینتھ اور فریکوئنسی رکھتی ہیں۔ اسی لیے ریڈیو، ٹی وی سے لے کر جنگی ریڈاروں اور موبائل فونوں تک مواصلاتی ڈیٹا کی ترسیل میں ریڈیائی لہریں کام آتی ہیں۔ ’’ٹرانسمیٹر‘‘ ڈیٹا کی حامل ریڈیائی لہریں پیدا کرتے اور ’’رسیور‘‘ انہیں پکڑ لیتے ہیں۔

لمبی ترین ویولینتھ اور فرئکوئنسی رکھنے والی ریڈیائی لہریں زیادہ سے زیادہ ایک سو کلو میٹر (62 میل) تک جاسکتی ہیں۔ لہٰذا اگر ڈیٹا رکھنے والی  ریڈیائی لہروں کو مزید آگے پہنچانا مقصود ہے، تو ہر سو کلو میٹر بعد ریسور لگائے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے آج ہر ملک میں کھمبوں کی شکل میں ریسیوروں کا جال بچھا نظر آتا ہے۔واضح رہے،بجلی کے کھمبے بھی برق مقناطیسی شعاع ریزی خارج کرتے ہیں۔اسی لیے ان کے نزدیک رہائش رکھنے سے اجتناب برتنے میں فائدہ ہے۔

جیسا کہ بتایا گیا ہے، ریڈیائی لہریں بھی انسانی جسم میں داخل ہوکر ہمارے خلیوں اور ان کے سالمات (مالیکیولز) سے چھیڑ چھاڑ کرتی ہیں۔ تاہم کم شدت رکھنے کی وجہ سے یہ چھیڑ چھاڑ زیادہ خطرناک نہیں ہوتی… لیکن یہ طبی ماہرین کا محض ’’خیال‘‘ یا ’’نظریہ‘‘ ہے۔ یہ عین ممکن ہے کہ اگر کوئی انسان طویل عرصہ ریڈیائی لہروں کی زد میں رہے، تو اس کے خلیے بھی خراب ہوکر کینسر زدہ ہوسکتے ہیں۔ آخر پتھر پر مسلسل پانی کا قطرہ گرتا رہے، تو ایک دن وہ بھی اس میں سوراخ کردیتا ہے۔

دنیا میں بہت سے ڈاکٹروں اور سائنس دانوں کو یہی خدشہ ہے کہ ریڈیائی لہریں رفتہ رفتہ بنی نوع انسان کے لیے خطرناک بن رہی ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ موبائل اور سمارٹ فونوں کا بڑھتا استعمال ہے۔ آج دنیا میں ’’پانچ ارب‘‘ سے زائد انسان موبائل فون استعمال کرتے ہیں۔ کئی کروڑ تو ایسے ہیں کہ چوبیس گھنٹے موبائل فون ی اسمارٹ فون ان کے ساتھ چمٹا رہتا ہے۔ گویا یہ لوگ چوبیس گھنٹے ریڈیائی لہروں کی زد میں رہتے ہیں۔

اب طبی ماہرین تجربوں اور تحقیق کے ذریعے یہ جاننے کی کوشش کررہے ہیں کہ انسان اگر مسلسل ریڈیائی لہروں کی زد میں رہے، تو اس کی صحت پر کس قسم کے منفی اثرات پیدا ہوتے ہیں؟ ابھی تک کوئی ایسی تحقیق سامنے نہیں آئی جو براہ راست کسی مرض کا موجد ریڈیائی لہروں کو قرار دے ڈالے۔ تاہم وقتاً فوقتاً طبی تحقیقات کے ایسے نتائج ضرور سامنے آرہے ہیں جو ریڈیائی لہروں کی طرف شک و شبے کی نگاہ سے انگی اٹھاتے ہیں۔ ’’چلڈرن ود کینسر‘‘ کے محققوں کی تحقیق بھی اسی قسم کی ہے۔

سچ یہ ہے کہ طبی سائنس اب تک دریافت نہیں کرسکی کہ اگر کوئی انسان چوبیس گھنٹے ریڈیائی لہروں کی زد میں رہے، تو اس کی صحت پر کیسے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔لیکن یہ عین ممکن ہے کہ وہ کسی عجیب و غریب بیماری میں مبتلا ہوجائے۔ آج کل پوری دنیا میں کیا بچے اور کیا بڑے، بہت سے انسان یکایک کسی بیماری کا نشانہ بنتے اور دیکھتے ہی دیکھتے چل بستے ہیں۔سوال یہ ہے کہ کیا نت نئی بیماریوں کے جنم دینے میں ریڈیائی لہروں کا بھی ہاتھ ہے؟ آخر بیسویں صدی سے قبل پوری انسانی تاریخ میں ریڈیائی لہروں کا کوئی وجود دکھائی نہیں دیتا۔ انہوں نے پچھلے ایک سو برس سے انسانوں کو اپنی لہروں میں نہلانا شروع کیا ہے۔

اگر ریڈیائی لہریں طویل المیعاد طور پر مضر صحت اثرات رکھتی ہیں تو ان سے بچنے کا طریقہ یہی ہے کہ موبائل فون صرف ضرورت کے وقت ہی استعمال کریں۔ خاص طور پر اسے دماغ کے قریب کم سے کم لے جائیں۔ اگر لمبی کال کرنا ہے، تو ہینڈ فری آلہ استعمال کریں۔ یوں موبائل سے پھوٹنے والی ریڈیائی لہریں دماغ کے خلیوں سے بہ شدت چھیڑ چھاڑ نہیں کریں گی۔

یاد رکھیے، صحت دنیا کی سب سے بڑی دولت ہے۔ آپ کی تھوڑی سی احتیاطیں آپ کو اس دولت سے مالا مال کرسکتی ہیں۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ جان ہے تو  جہاں  ہے!لہٰذا ہر ممکن حد تک  ریڈیائی لہروں سے بچئے اور ان کے طویل المیعادی منفی اثرات سے محفوظ رہیے۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔