بین المذاہب رواداری
انسانوں کی معلوم تاریخ مذہبی تفریق سے عبارت ہے اور اس تفریق کی وجہ سے دنیا لہو لہان ہوتی رہی۔
دنیا کے اہل علم اہل دانش کی ذمے داری ہے کہ وہ ایسے مسائل کی نشان دہی کریں جو انسانوں کے درمیان دوری، تعصب، اجنبیت اور نفرتیں پیدا کرنے کا باعث بن رہے ہیں اور ایسے مسائل کا مثبت اور بامعنی حل تلاش کرنے کی کوشش کریں، اس قسم کے متنازعہ مسائل میں ایک مسلمہ مذہبی تفریق ہے۔
ہر مذہب کے ماننے والے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کا مذہب انسانوں کی بھلائی کی تلقین کرتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ انسانوں نے مذاہب کو انسان سے مخاصمت برتنے انسان کو انسان سے دور کرنے کا ذریعہ بنا رکھا ہے، بات یہیں تک رہتی تو پریشانی کی بات نہ تھی، بات کو اس قدر سنگین اور خطرناک بنادیا گیا ہے کہ انسان انسان کے سامنے کھڑا ہوگیا ہے۔
آج آپ فلسطین پر نظر ڈالیں تو وہاں کے حالات وہاں کے انسانوں کی ایک دوسرے سے نفرت اور قتل و غارت گری دیکھ کر حساس انسانوں کے سر شرم سے جھک جاتے ہیں۔ دنیا میں اگرچہ انسان مختلف حوالوں سے تقسیم ہیں لیکن مذہبی تقسیم اسی قدر گہری اور خطرناک ہے کہ اگر اسے کنٹرول کرنے کی کوشش نہ کی گئی تو انسان انسان کا دشمن بنا رہے گا اور انسانیت کا خون ہوتا رہے گا۔
انسانوں کی معلوم تاریخ مذہبی تفریق سے عبارت ہے اور اس تفریق کی وجہ سے دنیا لہو لہان ہوتی رہی لیکن دکھ اور افسوس اس بات کا ہے کہ اس طویل تاریخ میں مذہب کی آگ پر تیل ڈالنے والے تو آتے اور جاتے رہے لیکن اس آگ پر پانی ڈالنے والے بہت کم نظر آئے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس تفریق کو ختم کرنے اور مذاہب کے درمیان رواداری اور یکجہتی پیدا کرنے کی منظم کوشش کیوں نہیں کی گئی، مذاہب کے حوالے سے تفریق پیدا کرنا محض مذہبی اکابرین کا معصومانہ عمل نہیں ہے بلکہ اس کی پشت پر سیاسی رہنما کھڑے ہیں جن کے مفادات کا تقاضا ہے کہ انسان بٹا رہے اور ایک دوسرے سے برسر پیکار رہے۔ فلسطین کو لے لیں، مدتوں سے فلسطین عربوں کا وطن تھا اور فلسطینی عوام پرامن زندگی گزار رہے تھے۔
سرمایہ دارانہ نظام کے سر پرستوں امریکا، برطانیہ وغیرہ نے جن کی نظر عربوں کے تیل پر تھی اور ان کو خطرہ تھا کہ عرب متحد ہوکر تیل پر مغرب کی اجارہ داری کے لیے خطرہ نہ بنیں، ہٹلر کے ظلم سے تنگ آکر دنیا کے مختلف ملکوں میں پناہ گزیں یہودیوں کو اکٹھا کرکے ان کے ساتھ ہمدردی اور نیکی کے بہانے عربوں کے سینے میں اسرائیل کا خنجر گھونپ دیا اور ایک منظم اور گہری سازش کے تحت اسرائیل کو فوجی لحاظ سے اس قدر طاقتور بنادیا کہ وہ سارے مشرق وسطیٰ کا دادا بن گیا۔
عربوں کے پاس تیل کی بے بہا دولت ہے، چونکہ عرب کے بادشاہوں اور شیوخ کا مفاد اور ان کی حکمرانی کا تحفظ امریکا کی ذمے داری بنادیا گیا تھا اس لیے عرب حکمرانوں نے اسرائیل کی بلیک میلنگ اور فلسطینیوں کے تحفظ کے لیے ہتھیاروں کی صنعت ہی نہیں بلکہ عام صنعتی ترقی سے بھی عرب حکمرانوں کو دور رکھا جس کا نتیجہ یہ ہے کہ عرب ممالک اسرائیل کے باجگزار بنے ہوئے ہیں اور صنعتی پسماندگی کا عالم یہ ہے کہ کھانے پینے کی اشیا بیرونی ملکوں سے امپورٹ کرتے ہیں۔
عرب حکمرانوں کا عالم یہ ہے کہ سعودی عرب جیسے مسلمانوں کے لیے کشش رکھنے والے ملک کے اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم ہیں جب کہ ہر روز فلسطین میں فلسطینیوں کا خون بہایا جا رہا ہے اور مذہبی منافرت پھل پھول رہی ہے۔
اسرائیل امریکا برطانیہ کا تشکیل دیا ہوا ملک ہے کیا یہ ملک اگر اسرائیل پر دباؤ ڈال کر فلسطین کا مسئلہ حل کرانا چاہیں تو اسرائیل ان کوششوں کو رد کر سکتا ہے لیکن صورت حال یہ ہے کہ اگر اقوام متحدہ میں کوئی ملک اسرائیلی بربریت کے خلاف ایک قرارداد پیش کرنا چاہے تو امریکا اسے ویٹو کردیتا ہے، خطے میں ایران ایک ایسا ملک ہے جو اسرائیلی بربریت کو روک سکتا ہے لیکن امریکا اور اس کے اتحادیوں نے ایران پر اقتصادی پابندیاں لگا کر اس کی معیشت کا گلا گھونٹ دیا ہے۔
ایران اسرائیلی جارحیت کا مقابلہ کرنے کے لیے ایٹمی ہتھیار بنانا چاہتا ہے ایک طاقتور اور جارح ملک سے دفاع کے لیے کمزور ملکوں کو دفاعی ہتھیار بنانے کا حق ہے لیکن امریکا اور اس کے اتحادی ایران کو سخت اقتصادی پابندیوں میں اس طرح جکڑے ہوئے ہیں کہ ایران اس حوالے سے کسی قسم کی پیشرفت کے قابل نہیں۔
اس کا بہترین اور منصفانہ حل یہ تھا کہ اسرائیل کو اس کے تحفظ کی مشروط ضمانت دیتے ہوئے اسے ایٹمی ہتھیاروں سے غیر مسلح کردیا جاتا لیکن مذہبی تقسیم مذہبی عداوت مذہبی نفرت سامراجی ملکوں کے مفاد میں ہے اس لیے اسرائیل ایٹمی ہتھیار رکھنے میں آزاد ہے اور ایران پابند ہے۔
اب آئیے مذہبی تفریق کے دوسرے شاہکار کشمیر پر ایک نظر ڈالیں۔ کشمیر ایک مسلم اکثریتی علاقہ ہے تقسیم ہند کے فلسفے کے تحت کشمیر کو پاکستان کا حصہ بننا چاہیے تھا لیکن تقسیم کے وقت پاکستان چونکہ فوجی طاقت کے حوالے سے بھارت کا ہم پلہ ملک نہ تھا لہٰذا بھارت نے کشمیر پر بزور طاقت قبضہ کر لیا۔
یہ مسئلہ اقوام متحدہ میں گیا اقوام متحدہ نے رائے شماری کے ذریعے کشمیر کا مسئلہ حل کرنے کی قرارداد منظور کی طاقتور بھارت نے اس قرارداد کو ردی کا ایک ٹکڑا بنا کر رکھ دیا آج 70 سال سے کشمیر لہو لہان ہے 70 ہزار سے زیادہ کشمیری اپنی جانوں سے جاچکے ہیں اور ہر روز مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں کی لاشیں گر رہی ہیں جنازے اٹھ رہے ہیں۔ ہم نے فلسطین اور کشمیر کا ذکر اس لیے کیا کہ مذہبی تفریق کی تباہ کاریوں کا اندازہ ہوسکے۔
سامراجی ملک جو بالواسطہ طور پر سرمایہ دارانہ نظام کے سرپرست ہیں یہ جانتے ہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام کے بڑھتے ہوئے مظالم دنیا کے عوام میں بے چینی پیدا کر رہے ہیں اس بے چینی کا رخ نہ موڑا گیا تو دنیا کے عوام متحد ہوکر سرمایہ دارانہ نظام کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے لہٰذا سرمایہ دارانہ نظام کے سرپرستوں کی یہ ضرورت ہے کہ دنیا کے عوام کو مختلف حوالوں سے تقسیم کرکے رکھا جائے جس میں ایک گہری تقسیم مذہب کی ہے وہ اہل قلم اہل دانش جو مذہبی تقسیم کی تباہ کاریوں کو سمجھتے ہیں ان کی ذمے داری ہے کہ وہ بین المذاہب رواداری کے لیے اپنی ساری توانائیاں صرف کردیں تاکہ مذہب کے نام پر بہنے والا خون اور نفرتوں کا خاتمہ ہوسکے۔