مسجد وزیر خان (خورد)

مدثر بشیر  اتوار 3 جون 2018
ارباب اختیار کی غفلت سے اپنی پہچان کھو  دینے والا قدیم تاریخی ورثہ۔ فوٹو : فائل

ارباب اختیار کی غفلت سے اپنی پہچان کھو  دینے والا قدیم تاریخی ورثہ۔ فوٹو : فائل

پہلے وقتوں میں لوگ نوزائید بچوں کو ایک دعا یہ بھی دیتے تھے ’’گن وان چاہے نہ ہو بھاگ وان ضرور ہو‘‘ اور اگر انسان گن وان ہو، محنتی بھی ہو اور اس کے اوپر بھاگ وان بھی ہو تو وہ تاریخ کے آکاش پر ایک روشن ستارے کی مانند دکھائی دیتا ہے۔ اسی طرح کا ایک ستارہ شیخ علیم الدین انصاری کا بھی ہے۔

کچھ روایات میں علم الدین انصاری بھی ملتا ہے۔ ان کا جنم عہد جہانگیری میں چنیوٹ (پنجاب) کے ایک پڑھے لکھے خاندان میں ہوا۔ ان کے والد صاحب کا نام شیخ عبداللطیف اور دادا کا نام شیخ حسام الدین تھا ۔ ان دونوں شخصیات کا شمار شہر کے معتبرین میں ہوتا تھا۔ علم و فلسفہ کے ساتھ عربی اور فارسی زبانوں کی سکھلائی ان کے گھر ہی سے ہوئی۔ حکمت کی تعلیم انہوں نے حکیم دوائی اور کچھ روایات میں حکیم راوی بھی بتایا جاتا ہے سے حاصل کی۔

ایک دن قسمت آزمائی کی خاطر چنیوٹ سے لاہور آئے اور بعد ازاں دلی چلے گئے۔ کچھ عرصہ قیام کرنے کے بعد دلی سے اکبر آباد (آگرہ) چلے گئے۔ حالات بدلتے گئے اور مغل دربار تک رسائی ہوگئی۔ شہزادہ خرم (شاہ جہان) کے ساتھ تعلق داری بڑھتی گئی جس کے باعث کئی شاہی گدیاں ان کا مقدر بنی۔ اس سلسلے میں ایک اقتباس نقوش لاہور نمبر (ص۔802) سے یوں ہے۔ ’’حکیم علیم الدین کچھ عرصہ لاہور قیام کرنے کے بعد دہلی چلے گئے مگر جب وہاں بھی روزگار کا بندوبست نہ ہوا تو آگرے روانہ ہوگئے اور وہاں تھوڑے عرصے ہی میں آپ کا مطب بہت مشہور و مقبول ہوگیا۔

شہزادہ خرم (شاہ جہان) کی ملازمت مل گئی۔ رفتہ رفتہ آپ بادشاہ، شہزادگان اور تمام بیگمات کے معالج بن گئے اور اس درجہ رسوخ حاصل ہوا کہ ’’دیوان بیوتات‘‘ پھر ’’میرساماں‘‘ کے مراتب حاصل کیے اور بعد میں ’’دیوان‘‘ کے بلند پایہ عہدے پر فائز ہوئے۔ شہزادہ خرم آپ کی بے حد عزت کرتا تھا اور حکیم صاحب بھی اس کے بڑے وفادار تھے۔ حتیٰ کہ جب جہانگیر اور شاہ جہان میں مخالفت ہوئی تو آپ نے شاہ جہان ہی کا ساتھ دیا‘‘۔

شہنشاہ جہانگیر کی سب سے ناز و اندام والی ملکہ ’’ملکہ نور جہاں‘‘ کے پیر میں ایک بیماری عرق النساء کی وجہ سے پس پڑگئی۔ ملکہ نے پیر پر نشتر نہ لگوایا، زخم بڑھتا گیا لیکن وہ نشتر نہ لگوانے پر بضد رہی۔ بغیر نشتر کے علاج کی خاطر ماہر حکیم اور اطباء کو دربار بلایا گیا۔ لیکن اس زخم کا علاج ممکن نہ ہوا ۔ شہزادہ خرم کے توسط سے شیخ علیم الدین کو علاج کی غرض کی خاطر بلا بھیجا گیا۔ انہوں نے ایک کمرے میں صحرائی ریت بچھوائی اور ملکہ سے درخواست کی کہ اس ریت پر ننگے پیر چلیں ۔ ملکہ جب اس ریت پر چلی تو قدموں کے نشان واضح ہوتے گئے اور ان میں زخم والی جگہ الگ سے نمایاں تھی ملکہ کو باہر بھجوا دیا گیا اور علیم الدین نے کمال ہوشیاری سے زخم والی جگہ کے نشان پر انتہائی باریک اور چھوٹے نشتر رکھ دیئے۔ کچھ روایات میں کانچ کے ٹکڑے رکھے جانے کا بھی بتلایا جاتا ہے۔

ملکہ سے دوبارہ قدموں کے نشانات پر چلنے کی درخواست کی گئی۔ دوبارہ چلنے کے دوران غیر محسوس طریقے سے زخم اپنے آپ کھل گیا اور تمام فاسد مادہ باہر نکل گیا اور یوں حیکم صاحب کی تدبیر کے باعث بغیر تکلیف کے علاج پایہ تکمیل تک پہنچا۔ ملکہ اس طریقۂ علاج سے اتنی خوش ہوئی کہ اس وقت زیب تن کیے تمام زیور ،گہنے اتار کر حکیم صاحب کو دان کردیئے ۔ ملکہ کے اس عمل کو دیکھتے ہوئے اس کے ساتھ اس کی کنیزوں اور دیگر نوکرانیوں نے بھی اپنے تمام زیور گہنے حکیم صاحب کی خدمت میں پیش کردیئے۔ ملکہ کی جان کے اس صدقے کی قیمت اس عہد میں بائیس لاکھ روپے سے زائد تھی۔ حکیم صاحب نے اپنی کسی منت کو پورا کرتے ہوئے عین وسط شہر لاہور میں عظیم الشان مسجد ’’نواب وزیر خان‘‘ تعمیر کروائی اور ملکہ کے علاج سے حاصل ہوئی تمام رقم اس پر صرف ہوئی۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ شہزادہ خرم اور حیکم صاحب کی قربت بھی بڑھتی گئی۔ جہانگیر کے آخری ایام میں نور جہاں اور شہزادہ خرم میں تخت کی جنگ چھڑگئی۔ نور جہاں اپنی بیٹی لاڈلی بیگم کے شوہر شہریار کو بادشاہ بنوانا چاہتی تھی جوکہ شہزادہ خرم کا سوتیلا بھائی تھا ۔ آصف جاہ جوکہ نور جہاں کا بھائی بھی تھا اور ممتاز محل کا باپ بھی جوکہ شہزادہ خرم کی سب سے لاڈلی ملکہ تھی اور اس ہی کی یاد میں دھرتی کی ایک بے مثال عمارت ’’تاج محل‘‘ کی تعمیر ہوئی تھی۔ آصف جاہ نے اپنے داماد کا بھر پور ساتھ دیا اور دوسری جانب شہزادہ خرم نے حکیم علیم الدین کی حفاظت میں دکن تک کا طویل سفر طے کیا ۔ اسی دوران جہانگیر کشمیر سے لاہور واپسی پر راستے میں انتقال کرگیا ۔ پھر کئی محلاتی سازشوں کے بعد شاہ جہاں ہندوستان کا بادشاہ بنا ۔

بادشاہت حاصل کرنے کے کچھ عرصے بعد ہی حکیم صاحب کو نواب وزیرخان کے خطاب سے نوازا گیا۔ اس کے بعد آج کے روز تک وہ اسی نام سے جانے جاتے ہیں۔ اسی کے ساتھ پنجاب کی گورنری بھی ملی۔ بادشاہ کی مانند انہیں بھی تعمیرات سے ایک خاص لگاؤ تھا ۔ انہوں نے لاہور میں مسجد نواب وزیر خان، شاہی حمام، شاہی حمام کے ساتھ ایک سرائے، باراں دری، باغ نخلسیہ (کھجوروں کا باغ، جس مقام پر آج کل پنجاب پبلک لائبریری ہے)، ان تعمیرات کے ساتھ انہیں وزیر آباد شہر کا بانی بھی کہا جاتا ہے۔ پالکو نالہ کے قریب ثمن برج ان یادگاروں میں سے ایک ہے جو راج گھاٹ کے علاقے کو وزیر آباد شہر بنانے کا سبب بنیں۔

درج بالا ان کی کئی تعمیرات چنیوٹ، آگرہ کے علاقوں میں بھی ملتی ہیں۔ انہوں نے شاہی ٹکسالی لاہور کے قریب ایک محل خواتین کے لیے بھی تعمیر کیا تھا اور اس کے ہی نزدیک ایک چھوٹی مگر نہایت خوبصورت مسجد محلہ سمیاں میں تعمیر کروائی جس کا نام مسجد ’’نواب وزیر خان خورد‘‘ تھا ۔ اسی سلسلے میں ایک اقتباس نقوش لاہور نمبر (ص۔556) سے درج ہے۔

’’یہ قدیم طرز کی چھوٹی سی مسجد ٹکسالی دروازے کی جانب جنوب بازار سمیاں میں واقع ہے۔ اسی مقام پر نواب وزیر خان صوبہ لاہور نے شاہ جہانی عہد میں اپنا زنانہ محل تعمیر کرایا تھا جو اب گر چکا ہے۔ سکھوں کے وقت میں مدت تک اس محل کے آثار اور کھنڈر موجود رہے۔ انگریزوں نے اس زمین کو ہموار کردیا۔ یہ مسجد اسی محل سے متعلق تھی جہاں  گھر کی عورتیں نماز پڑھا کرتی تھیں۔ راستہ محل کے اندر سے تھا ۔

شہر لاہور میں قدیم عمارات، جگہوں، محلوں، ہندو پراپرٹی اور دیگر مقامات کی مذہبی اور سیاسی بنیادوں پر ان کے نام بدلنے کا انتہائی طاقتور رجحان موجود ہے جس کی وجہ سے قدیم جگہوں کی تلاش ایک انتہائی مشکل کام ہوگیا ہے۔ میں اس مسجد کی تلاش کے لیے بارہا محلہ سمیاں تک پہنچا اور تقریباً ہر بار مسجد میاں یاسین وال پر کھڑا ہوا، حوالہ جاتی کتب کی مدد سے یہی مسجد ’’مسجد نواب وزیر خان خورد‘‘ معلوم ہوتی تھی لیکن اہل محلہ اور مسجد کی انتظامیہ کا اس مسجد کی تاریخ سے نابلد ہونا ایک بڑا مسئلہ تھا۔ وہ سب اسے مسجد میاں یاسین والی ہی کہتے۔ پھر بھلا ہو خالد بہزاد ہاشمی کا جنہوں نے اس مسجد پر ایک مفصل مضمون روزنامہ نوائے وقت میں آج سے چند برس قبل 11 فروری 2007ء کو تحریر کیا تھا۔ انہوں نے بھی زیر بحث مسجد کی نشاندہی ’’مسجد میاں یاسمین والی‘‘ ہی کہی تھی۔ اس مضمون کا کچھ اقتباس درج ذیل ہے۔

’’ٹکسالی گیٹ سے بازار شیخو پوریاں میں داخل ہوں تو بائیں ہاتھ مسجد عبداللہ کابلی (ٹکسالی کی اونچی مسجد) آتی ہے۔ تھوڑے فاصلے پر دائیں جانب پاکستان ٹاکیز واقع ہے اور اس لائن میں تقریباً دس دکانیں چھوڑ کر دائیں ہاتھ بازار ٹھٹھی ملاحاں اندرون ٹکسالی گیٹ شروع ہو جاتا ہے جس میں قدیم عمارات اور ان کا طرز تعمیر دیکھنے والوں کو رکنے پر مجبور کردیتا ہے۔ اسی سڑک پر دائیں ہاتھ معروف تاریخی مسجد ٹھٹھی ملاحاں واقع ہے۔ یہ سڑک سے تقریباً آٹھ سیڑھیاں بلند ہے اور اس کا نیا نام مسجد حنفیہ رضویہ ہے اور لوگ اس کو اسی نام سے جانتے ہیں۔ تھوڑے فاصلے پر چوک محلہ سمیاں میں نواب وزیر خان کی وہ چھوٹی مسجد واقع ہے جو مولانا غلام یاسین والی مسجد کہلاتی ہے۔ اہل محلہ یا عام لوگوں کا تو کیا کہنا محکمہ آثار قدیمہ اور محکمہ اوقاف دونوں اس کے محل وقوع سے ناواقف ہیں۔ تقریباً ایک صدی قبل اس تاریخی مسجد کو مولانا غلام یاسین نے آباد کیا تھا ۔ اس لیے یہ مسجد ان کے نام سے منسوب چلی آرہی ہے۔ حالانکہ اس کا اصل نام ’’مسجد وزیر خان خورد‘‘ برقرار رہنا چاہیے تھا۔ یہ مسجد وزیر خان کی طرح منقش روغنی کام اور سنگ مر مر سے آراستہ تھی جس کا تمام نقشہ بدل دیا گیا۔ مسجد کی حالت کا ذکر ان الفاظ میں کیا گیا ۔

’’چھت سے سامنے مسجد کی جانب دیکھیں تو نظریں ایک دم ٹھٹھک جاتی ہیں۔ برآمدے کی چھت کے دوسری جانب تین ڈبل گنبد اس مختصر سے گوشہ میں اپنا اپنا جلال چھپانے کی ناکام سعی کرتے نظر آتے ہیں ۔ زمانے کے ہاتھوں ان کی بے قدری اور تنہائی دیکھ کر دل بہت دکھی ہوا اور مجھے لگا جیسے وہ زبان حال سے کہہ رہے ہوں ’’آخر تم آگئے!‘‘۔

یہ گنبد مسجد مریم زمانی ( بیگم شاہی مسجد) مستی گیٹ کے گنبد کی طرح دہرے بنے ہیں۔ ان گنبدوں کا بالائی حصہ الٹے گھڑوں یا الٹے پیالوں سے بھر دیا جاتا ہے جنہیں گنبد کا بالائی حصہ مکمل ہونے پر خالی چھوڑی گئی چھوٹی سی جگہ سے باہر نکال لیا جاتا ہے۔ باہر انہیں اندر ہی رہنے دیتے ہیں۔ یہ انمول گنبد تین جانب گھروں کے نرغے میں بے چارگی سے کھڑے آثار قدیمہ اور اوقاف دونوں کی نگاہ التفات کے منتظر ہیں۔

’’چھت کی بائیں جانب نیچے کی سمت ایک بڑا محرابی دروازہ جس کی حالت خاصی خستہ ہوچکی ہے، چھپا ہوا ہے۔ یہ اس مسجد کی محرابی ڈیوڑھی ہے جو گلی سے نظر نہیں آتی۔ کیونکہ اس کے فرنٹ پر اینٹوں اور سیمنٹ سے بنی دیوار حائل ہے۔ نواب وزیر خان کے حرم کی مسجد کا یہ حصہ کسی کھنڈر کا منظر پیش کرتا ہے جس میں کاٹھ کباڑ بھرا ہے اور اس کی بلند و بالا وسطی محراب کے اوپر خودرو پودے اور جھاڑ جھنکاڑ اُگے ہیں۔ اس قدر خستہ حالی کے باوجود یہ محرابی ڈیوڑھی اپنے شاندار ماضی کی امین ہے۔ اس کے دونوں جانب مستطیل اور مربع خانے بنے ہیں جو ایک دور میں مسجد وزیر خان کی طرح روغنی اور منقش کام سے آراستہ تھے۔

عہد حاضر میں اس تاریخی مسجد تک رسائی کے دو راستے ہیں۔ ایک راستہ جو ٹکسالی دروازے سے ہے اور اس کا تفصیلاً ذکر خالد بہزاد کے حوالے میں موجود ہے۔ دوسرا راستہ بھاٹی دروازے سے اندر کو آتا ہے۔ بھاٹی دروازے کے ساتھ متصل فصیل میں ہی بھاٹی تھانے کی عمارت ہے جس سے کچھ فاصلے پر برلب سڑک ایک مشہور پرانی ’’اچی مسیت‘‘ (لال مسجد) ہے جس کے ساتھ ہی بائیں ہاتھ کچھ فاصلے پر ایک گلی ’’گلی نور محمد‘‘ کے نام سے ہے جوکہ ہلال چاند کی مانند گھومتی رستہ بناتی مسجد تک جاتی ہے۔ اسی گلی میں غلام فاطمہ ٹرسٹ ویلفیئر کی عمارت ہے اس سے آگے سامنے کی سیدھ میں ایک اور مشہور گلی ’’سیڑھیاں والی گلی‘‘ ہے۔

اسی جگہ پر ایک بزرگ سیاسی کارکن مائی گلابو کا گھر ہے۔ ان کا اصل نام شمیم ہے۔ ان کی عمر اسی برس سے اوپر کی ہے۔ اپنی سیاست کا آغاز ذوالفقار علی بھٹو کی پارٹی پیپلزپارٹی سے کیا ۔ طویل عرصہ اسی پارٹی سے وابستگی رہی۔ اب کچھ برس ہوئے مسلم لیگ(ن) میں شمولیت اختیار کرلی ہے۔ ان کے گھر سے آگے محلہ سمیاں شروع ہو جاتا ہے۔ محلے کے آغاز ہی میں ایک مزار شریف ’’سرکار حاجی رحمت علی قادر طرطوسی‘‘ کے نام سے جا ملتا ہے۔ اس سے کچھ آگے ایک اور بزرگ ہستی کا مزار ’’حضرت معصوم شاہ‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ اسی جگہ پر دائیں اور بائیں سیدھ میں کبھی دو قدیم کنوئیں بھی ہوا کرتے تھے۔ جن کو اہل علاقہ ’’کھاری کھوہی‘‘ کہہ کر پکارا کرتے تھے۔ ان سے آگے بائیں جانب ایک اور قدیم گلی ’’جندل کتھال‘‘ ہے۔

اس سے کچھ فاصلے پر چوک حضرت عمر فاروقؓ ہے۔ یہ تمام علاقہ بازار اور محلہ ’’بازار سمیاں‘‘ کے طور پر معروف ہے۔ اس سے کچھ آگے بائیں جانب ایک گلی ’’جسٹس لطیف‘‘ محلہ کے نام سے جانی جاتی ہے۔ جسٹس سید لطیف نے انگریز سرکار کے عہد میں تاریخ لاہور، تاریخ پنجاب، تاریخ آگرہ اور کئی دیگر مستند کتب تحریر کیں۔ ان ہی کے نام سے ایک احاطہ قبرستان میانی صاحب میں بھی موجود ہے جس میں ان کی قبر کے ساتھ ساتھ ان کے خاندان کے دیگر افراد کی قبور بھی موجود ہیں۔

جسٹس لطیف محلے کے آغاز ہی میں موجودہ عہد کے ایک معروف طبلہ نواز ’’استاد طافو‘‘ کا آبائی گھر بھی ہے جس کے نزدیک ایک قدیمی کٹری بھی ہے جس کے باہر ایک تختی انگریز عہد کی کندہ تھی جس میں یہ کٹری کسی رانی کی ملکیت بتلائی جاتی تھی۔ آج کل یہ کٹری ’’کٹری پاناں والی‘‘ کے نام سے جانی جاتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی ایک اور قدیم کٹری بھی ہے جس کے ساتھ شباب الدین کا نام منسوب ہے۔ اس کی ملکیت ولائیت بیگم کی بتائی جاتی ہے۔ اسی جگہ سے راستہ مسجد نواب وزیر خان خورد تک جاتا ہے۔ مسجد سے آگے یہی راستہ ٹھٹھی ملاحاں اور اس سے آگے باہر بازار شیخو طوریاں تک بڑھتا چلا جاتا ہے۔

اب مسجد کی موجودہ صورتحال پر نظر ڈالتے ہیں۔ خالد بہزاد صاحب کے مضمون تک مسجد کی اندرونی دیواروں میں چینی کاری کا کام دیکھنے کو مل جاتا تھا۔ اس کے علاوہ انہوں نے جن دروازوں اور جھروکوں کا ذکر کیا تھا وہ بھی دیکھے جاسکتے تھے۔ لیکن اب مسجد کا احاطہ وسیع کرنے کے سبب اس کی ابتدائی تعمیرات کے نشان ختم ہوتے جا رہے ہیں۔ مسجد کے تین قدیم گنبدوں کے ساتھ اس کی ایک بچی ہوئی وسطی دیوار پر چینی کاری کی لکھت دکھائی دیتی ہے۔ پہلی منزل پر اس کے سامنے مشرقی سیدھ میں امام صاحب کی رہائش گاہ تعمیر ہو چکی ہے جس کی وجہ سے یہ لکھت بھی عام لوگوں کی دسترس سے باہر ہے۔ مسجد کے داخلی دروازے کے ساتھ بائیں جانب ایک نیا ہال تعمیر کردیا گیا ہے جب کہ دائیں جانب پرانے حمام کے ساتھ قدیم دیواروں کے آثار دیکھے جا سکتے ہیں۔ اس حمام اور دیگر قدیم نشانات کا تذکرہ خالد بہزاد صاحب نے کچھ یوں کیا تھا ۔

اس تاریخی مسجد کی مضبوطی کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کا حمام آج بھی کارآمد ہے اور اہل محلہ اس سے مستفید ہوتے ہیں۔ اس تاریخی حمام میں اس وقت ظہور احمد حجام کی دکان بنی ہوئی ہے جس کا دروازہ لکڑی کا ہے۔

مولانا محمد یاسین کے نام سے منسوب اس مسجد کے ان کے بعد کے امام صاحبان کے نام کچھ اس طرح ہیں۔ عبدالغنی صاحب، ظریف صاحب، قاری محمد مظہر اقبال صاحب، رضوی ولد مفتی غلام جان قادری صاحب۔

سڑکوں کی بھر مار اور کھوکھلی ترقی کے نام پر قدیم لاہور اپنے نشانات کھوتا جا رہا ہے۔ محکمہ آثار قدیمہ اور محکمہ اوقاف کے پاس نہ صرف فنڈز کی کمی ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ادھر کے ملازمین کی کسی بھی طرح کی خاص تربیت نہیں کی گئی کہ ان کو اس عظیم ورثہ کی قدر کا خیال ہو جس کے باعث مسجد نواب وزیر خان خورد اور اس کی مانند کی کئی عہد رفتہ کی یادگاریں اپنے بچے کھچے اثرات کے ساتھ آخری سانسوں پر ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔