ہوسِ زن… چھوٹے نے بڑے بھائی کو موت کے گھاٹ اتار دیا

نور محمد سومرو  اتوار 3 جون 2018
 زبیر کی اپنی بھابھی سے محبت کی پینگیں بڑھیں تو حافظ جنید کو راستے سے ہٹانے کا پروگرام بن گیا۔ فوٹو: فائل

 زبیر کی اپنی بھابھی سے محبت کی پینگیں بڑھیں تو حافظ جنید کو راستے سے ہٹانے کا پروگرام بن گیا۔ فوٹو: فائل

رحیم یار خان: کائنات کا وجود عمل میں آنے کے بعد زمین پر جو پہلا جرم ہوا وہ قتل تھا، اس واقعہ میں ایک بھائی نے اپنے سگے بھائی کو عورت کی خاطر قتل کر دیا تھا۔

ایسی ہی ایک واقعہ گزشتہ ماہ رحیم یار خان کی تحصیل خان پور میں دہرایا گیا، جہاں سگے بھائی نے اپنی بھابھی سے ناجائز تعلقات کے شاخسانہ اور اس سے شادی کرنے کی خواہش میں اپنے سگے بھائی جو کہ حافظ قرآن بھی تھا کو بے دردی کے ساتھ موت کے گھاٹ اتارا اور پھر خود کو معمولی زخمی کر کے واقعہ کو ڈکیتی کی واردات کا رنگ دینے کی کوشش کی۔

خان پور کے شہری علاقہ سادات کالونی کے رہائشی مقتول جنید احمد ولد الیاس قریشی کا والد غلہ منڈی میں آڑھتی کا کام کرتا تھا مگر حافظ قرآن جنید احمد نے غلہ منڈی کے کام کے بجائے گھر کے ساتھ ہی اپنی ایک کریانہ کی دکان بنائی اور وہاں پر رزق حلال کمانے میں مصروف ہو گیا۔

6 سال قبل اس کی شادی نازیہ دختر محمد غوری قریشی سے ہوئی، جن کے ہاں 2 بیٹوں کی پیدائش ہوئی، جن میں سے پہلا بیٹا مقتول جنید نے اپنے بڑے بھائی قاسم کو دے دیا کیوں کہ قاسم سالوں سے اولاد جیسی نعمت سے محروم تھا۔

گزشتہ ماہ 13مئی کی شب حافظ جنید احمد اپنے سگے بھائی محمد زبیر کے ہمراہ موٹرسائیکل پر ریلوے کالونی سے براستہ ٹیلی فون ایکسچینج اپنے گھر سادات کالونی کی طرف آ رہا تھا کہ راستے میں محمد جنید کا قتل ہو گیا جبکہ اس کے چھوٹے بھائی محمد زبیر کو معمولی زخم آئے۔ پولیس نے موقع پر پہنچ کر جائے وقوعہ کا معائنہ کیا اور زخمی اور جاں بحق ہونے والے بھائی کو ضلعی ہیڈ کوارٹر شیخ زید ہسپتال میں منتقل کر دیا۔

پولیس نے جب تفتیش کا کام شروع کیا تو اسے معلوم ہوا کہ قتل ہونے والے حافظ جنید کے جسم پر 27ضربات کے مقابلہ میں محمد زبیر کے جسم پر محض 3معمولی چوٹیں تھیں۔ پولیس نے اسی وقت بھانپ لیا کہ دال میں کچھ کالا نہیں بلکہ یہاں پوری دال ہی کالی نظر آتی ہے۔

ابتدا میں اس واقعہ کو ڈکیتی کی واردات کا رنگ دینے کی کوشش کی گئی، زخمی ہونے والے محمد زبیر قریشی نے پولیس کو اپنا بیان دیتے ہوئے بتلایاکہ اسے اور اس کے مقتول بھائی حافظ جنید احمد پر 4نامعلوم افراد نے حملہ کر کے چھریوں کے وار کیے، جس سے حافظ جنید جاں بحق ہو گیا جبکہ زبیر کو بھی ہاتھوں اور پاؤں پر معمولی خراشیں آئیں۔ پولیس نے ابتدائی طور پر دونوں کے بڑے بھائی محمد قاسم کی مدعیت میں قتل کا مقدمہ درج کیا اور اس پر تحقیقات شروع ہو گئیں۔

اس دوران شہر کی مختلف تنظیموں نے اس واقعہ کو ڈکیتی کا رنگ دینے کی کوشش پر احتجاج کی کال دے دی۔ پولیس نے اپنے شک کے دائرے کو وسعت دیتے ہوئے زخمی ہونے والے زبیر کے موبائل فون کا ڈیٹا چیک کیا تو اس فون سے ایک نمبر پر روزانہ 200سے زائد میسجز مسلسل بھیجے جاتے تھے اور جب پولیس نے اس نمبر کے بارے میں معلومات کیں تو پتہ چلا کہ وہ کسی اور کا نہیں بلکہ مقتول حافظ جنید احمد کی بیوہ اور زبیر کی سگی بھابھی نازیہ کا تھا۔

پولیس نے اسی موبائل ڈیٹا کے حوالے سے اس پر مزید معلومات اکٹھی کیں تو چونکا دینے والے حقائق سامنے آئے جس سے نہ صرف رشتوں کا تقدس پامال ہونے کی ایک لرزہ خیز سٹوری سامنے آئی بلکہ تخلیق کائنات کے بعد جرم کی پہلی واردات کی کہانی کا منظر ہر شخص کی آنکھوں کے سامنے آگیا۔ پولیس نے اپنی ابتدائی تفتیش کے بعد قتل کے تیسرے روز ہی حافظ محمد جنید مقتول کی قل خوانی ختم ہوتے ہی اس کے سگے بھائی محمد زبیر کو دھر لیا۔

ملزم زبیر نے تھوڑی حیل و حجت کے بعد پولیس کو اپنے ابتدائی بیان میں بتایا کہ 6 سال قبل جب اس کی بھابھی نازیہ کا رشتہ مقتول حافظ جنید احمد کے لیے آیا تو اس سے قبل نازیہ اور اس کے درمیان عشق کی داستان زوروں پر تھی مگر شادی حافظ جنید کے ساتھ ہونے کی وجہ سے نازیہ اور زبیر کی محبت ادھوری رہ گئی، مگر اس واردات سے محض 4ماہ قبل مقتول حافظ جنید اور محمد زبیر کی والدہ بیمار ہونے کے بعد رحیم یار خان کے ایک ہسپتال میں داخل ہوئیں، جہاں وہ 2ماہ تک ہسپتال میں مسلسل زیر علاج رہیں، اسی دوران ان کی دیکھ بھال پر گھر کی خواتین میں سے مقتول حافظ جنید کی بیگم نازیہ اور مردوں میں سے حافظ جنید کا قاتل بھائی محمد زبیر کی ڈیوٹی لگی۔

اس دوران نازیہ اور زبیر کی سابقہ عشقیہ داستان نے دوبارہ جوش مارا اور ان میں ایک بار پھر مراسم پیدا ہو گئے۔ پولیس کی تفتیش کے دوران قاتل محمد زبیر نے یہ اعتراف کیا کہ اس نے اپنی بھابھی نازیہ کے ساتھ مل کر اپنے سگے بھائی اور نازیہ کے خاوند کو مارنے کی منصوبہ بندی کی۔ منصوبے کے مطابق ایک رات وہ بھائی حافظ جنید احمد کو کچھ رقوم کی وصولی کا بہانہ بنا کر موٹر سائیکل پر ریلوے کالونی کی طرف لے گیا۔

ملزم محمد زبیر نے بتایا کہ اس کا بھائی حافظ جنید احمد موٹر سائیکل چلا رہا تھا اور وہ اس کے پیچھے بیٹھ کر قتل کی جگہ کا انتخاب کر رہا تھا جونہی موٹر سائیکل ریلوے واٹر سپلائی ٹینکی کے قریب پہنچی تو جنید نے اپنی سائیڈ میں چھپائی ہوئی چھری کو نکال کر ہوس زن میں اپنے سگے بھائی حافظ جنید پر پہلا وار کیا، چھری پیٹ کے ساتھ پسلیوں کے درمیان گھس گئی، حافظ محمد جنید نے موٹر سائیکل روکی اور زخمی حالت میں وہاں سے بھاگنے کی کوشش کی تو ملزم محمد زبیر نے پیچھے سے جا کر تین بار جنید کے پیٹ میں چھریاں مار دیں۔

ملزم نے سمجھا کہ اب کام پورا ہو گیا، لیکن جنید ابھی بھی زندہ تھا، جس پر ملزم نے سر پر سوار وحشت اور ہوس زن میں بھائی کے پیٹ میں 2 درجن کے قریب مزید وار کیے، جس سے حافظ جنید احمد کی موقع پر موت واقع ہو گئی۔ اس کے بعد ملزم محمد زبیر نے اس واقعہ کو ڈکیتی اور حملہ کارنگ دینے کے لیے خود پر بھی اسی چھری سے معمولی وار کیے اور شو ر شرابہ شروع کر دیا۔

ملزم نے موبائل فون پر کال کر کے اپنے گھر والوں کو اطلاع دی کہ 4افراد نے حملہ کر کے دونوں بھائیوں کو زخمی کر دیا ہے، یہ اطلاع پا کر اہل علاقہ ، رشتہ دار اور اہل خانہ موقع پر پہنچے اور انہوں نے دونوں کو ہسپتال منتقل کردیا۔

دودھ کے رشتے کے تقدس کو پامال کر کے ملزم زبیر نے وحشت اور دہشت کی وہ تاریخ رقم کی جس کو خان پور کے باسی ایک عرصہ تک اپنے ذہنوں سے نہیں اتار سکیں گے۔ پولیس نے حقائق معلوم ہونے کے بعد حافظ جنید احمد کے قتل کی منصوبہ بندی میں شامل اس کی بیوی اور ملزم کی بھابھی نازیہ کو بھی اپنی حراست میں لے لیا، جس نے تمام واقعات کا اقرار جرم کر لیا۔ مقتول حافظ جنید اور قاتل محمد زبیر کی بیمار والدہ بیماری کی حالت میں بہاول پور کے ہسپتال میں زیر علاج ہے۔

اسے یہ توپتہ ہے کہ واردات کے دوران اس کا ایک بیٹا قتل ہو گیا ہے مگر ابھی تک یہ قیامت زدہ الفاظ اس کے کانوں اور ذہن تک نہیں پہنچے کہ اس کی کوکھ اجاڑنے والا کوئی اور نہیں بلکہ اس کا ہی دوسرا بیٹا ہے۔ گرفتار خاتون نازیہ نے اپنا ایک بیٹا پہلے سے ہی اپنے بڑے دیور قاسم جو کہ مقدمہ کا مدعی ہے، کو دے رکھا ہے جبکہ دوسرا 3 سالہ بیٹا گھر میں روز اپنی ماں اور باپ کا انتظار کرتا ہے، جو شائد کبھی ختم نہیں ہو گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔