سقوطِ ڈھاکہ کتنی حقیقت کتنی کہانی

مکتی باہنی کے دہشت گردوں نے ہزاروں بہاری عورتوں کی آبروریزی کی اور الزام پاکستانی فوج پر لگا دیا


رؤف بٹ December 16, 2018
بھٹو اور مجیب، دونوں اس دوڑ میں لگے رہے کہ کسی طرح فوجی حکمرانوں کو گرا کر خود اقتدار میں بیٹھ جائیں۔ (فوٹو: فائل)

کچھ عرصہ پہلے بنگلہ دیشی وزیرِاعظم شیخ حسینہ واجد نے بیان دیا تھا کہ بنگلہ دیش کے جن لوگوں کے دل میں اب بھی پاکستان کی محبت زندہ ہے، انہیں سزا ملنی چاہیے۔ شیخ حسینہ واجد صاحبہ نے مزید فرمایا کہ اگر بنگالی عوام میں پاکستان کےلیے یہ محبت نہ دبائی گئی تو شاید کچھ عرصے بعد بنگلہ دیش کا وجود نہ رہے۔ درحقیقت وہ اس بات سے بھی پریشان تھیں کہ جو پروپیگنڈا اُن کے والد شیخ مجیب الرحمان نے ہندوستان کے ایماء پر پاکستان کے خلاف پوری دُنیا میں پھیلایا، وہ اب دم توڑ تا جارہا ہے۔ سوشل میڈیا کے دور میں جب حقائق چھپائے نہیں جاسکتے تو جلد ہی بنگلہ دیشی عوام یہ حقیقت جان لیں گے کہ ہندوستان اور عوامی لیگ نے آج تک 1971 کے بارے میں ان سے جھوٹ بولا ہے۔ متعصب بنگلہ دیشی حکومت ہندوستان کے اشاروں پر پاک فوج پر مسلسل بہتان تراشیاں کرتی چلی آرہی ہے تاکہ جنگی جرائم کا مرتکب قرار دلوا کر پاکستان کو کمزور کرسکے۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ اس عمل میں بغیر کچھ سوچے سمجھے ہمارے کچھ لوگ ان کی معاونت میں مصروف ہیں؛ جس کی مثال بنگلہ دیش میں ہمارے چند قلمکاروں کا حسینہ واجد سے ایوارڈ وصول کرنا ہے، جن کے بزرگوں نے بنگلہ دیش کی خاطر پاکستان کی مخالفت کی تھی۔

مسئلہ یہ نہیں کہ ہندوستان اور عوامی لیگ نے سقوطِ ڈھاکہ پر پاکستان کے بارے میں منفی پروپیگنڈا پھیلایا۔ دُکھ تو اس بات کا ہے کہ ہمارے اپنوں نے جانتے ہوئے بھی کبھی پاکستانی عوام کے سامنے سچائی نہ دکھائی۔ میڈیا پر کچھ سیاستدان پاک آرمی کے بارے میں بہتان تراشتے رہتے تھے۔ یہ وہی زبان ہے جو بھارت اور حسینہ واجد اینڈ کمپنی بولتی ہے۔ تمام سیاستدانوں کو اب یہ تسلیم کر لینا چاہے کہ سقوطِ ڈھاکہ بھٹو اور مجیب کے اقتدار کے لالچ کا نتیجہ تھا جس کی معاونت ہندوستان کی سازشوں نے کی۔ پاک فوج کو عین وقت پر قربانی کا بکرا بنایا گیا۔

جب چند محبِ وطن لوگوں نے جنرل ضیاء کو سمجھایا تھا کہ بھٹو پر مقدمہ 1965 اور 1971 کی سازشوں کا چلایا جائے تو اس نے ایک معمولی قسم کے مقدمے میں بھٹو کو الجھا دیا۔ جنرل ضیاء کو اینگلو امریکن بلاک کی طرف سے اس کی اجازت نہ تھی۔ جنرل ضیاء نے بھٹو کو پھانسی چڑھایا مگر اسے قادیانی افسروں، احمد برادران کو ہلانے کی ہمت تک نہ ہوئی۔ بھٹو نے یحییٰ کو اُتارا لیکن اس کی بھی ان سازشی برادران کو ہٹانے کی ہمت نہ ہوسکی۔

یہ وہی دو بھائی ہیں جو ایوب خان کو بریفنگ دیا کرتے تھے کہ مشرقی پاکستان سے جان چھڑاؤ، صرف تب ہی مغربی پاکستان کی ترقی کی رفتار بڑھ سکتی ہے۔ یہ وہ منحوس بھائی تھے جنہوں نے پاکستان میں ایک لفظ کی بنیاد رکھی جسے اسٹیبلشمنٹ کہا جاتا ہے۔

بھٹو اور مجیب، دونوں اس دوڑ میں لگے رہے کہ کسی طرح فوجی حکمرانوں کو گرا کر خود اقتدار میں بیٹھ جائیں اور اس ضمن میں بھرپور سازشیں کرتے رہے۔ میجر امیر افضل خان اپنی کتاب ''میری آہ و زاری'' میں لکھتے ہیں: بھٹو، جنرل گل حسن، احمد بردران، جنرل یحییٰ، میجر مصطفی (بھٹو کا ہندو ماں سے بھائی) نے اپریشن جبرالٹر کے ذریعے ہندوستان کو اس بات کا یقین دلانے کی کوشش کی کہ پاکستان میں اتنا دم نہیں کہ دلی تک پہنچ سکے بلکہ جنرل سرفراز، جو ایوب کا پسندیدہ تھا اور لاہور تعینات تھا، اس کو ناکام کر کے یحییٰ کو آرمی چیف بنانے کےلیے لاہور تھالی میں رکھ کر انڈیا کو پیش کیا گیا۔ وہ تو بھلا ہو واہگہ بارڈر بی آر بی پر تعینات کریک بٹالین کا جس نے خون کی قربانی دے کر لاہور بچا لیا۔ جب مارچ 1971 میں جنرل یحییٰ ڈھاکہ گئے تو پاک آرمی کو عوامی لیگ سے اجازت لینا پڑی کہ اگر عوامی لیگ کے غنڈے ناکہ کھول دیں تو صدر صاحب بذریعہ سڑک پی سی ہوٹل چلے جائیں۔ بریگیڈیئر صدیق سالک اپنی کتاب ''Witness to Surrender'' میں لکھتے ہیں کہ عوامی لیگ نے بذریعہ سڑک جانے کی اجازت دے دی۔

جنرل نیازی اپنی کتاب ''مشرقی پاکستان میں غداریاں'' میں لکھتے ہیں کہ آپریشن سرچ لائٹ 26 مارچ 1971 کو شروع ہوا مگر اس سے پہلے پاکستانی فوج کو ہتھیار اُٹھانے کی اجازت نہیں تھی۔ اینکر حامد میر اپنے پروگرام میں کہتا ہے کہ جب عوامی لیگ نے مارچ 1971 سے پہلے ہی لاکھوں بے گناہ پاکستانی اور بہاریوں کو ہلاک کر ڈالا تھا تو اس وقت کمانڈر ایسٹرن کمانڈ صاحبزادہ یعقوب کو کارروائی کرنے کےلیے کہا گیا تو انہوں نے یہ کہہ کر کارروائی سے انکار کر دیا کہ وہ اپنے ہی ہم وطنوں (عوامی لیگ) پر گولی نہیں چلا سکتے۔ قیامِ پاکستان کے وقت مغربی پاکستان میں تو بڑی تعداد میں ہجرت ہوئی لیکن ایسا مشرقی پاکستان میں نہ ہوا۔

بھارت نواز ہندو اور ماؤسٹ اساتذہ نے اس وقت کی بنگالی نسل کے دلوں میں پاکستان سے نفرت بھرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ سیاسی اور مالی محرومیوں کی آڑ میں مشرقی پاکستان میں ملک دشمن عناصر نے قیامِ پاکستان کے بعد سے ہی کام شروع کر دیا تھا۔ ہندوستان نے ان عناصر کی مکمل مدد کی۔ ملک کے دونوں حصوں کے درمیان فاصلے نے حکومت کی گرفت کمزور کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔

یہ بات نہ تھی کہ وہاں کے لوگوں میں پاکستان کےلیے محبت نہ تھی، بلکہ مشرقی پاکستان کی اکثریت پاکستان کی حامی تھی۔ مگر مکتی باہنی اور شیخ مجیب جتھے کی بدمعاشی کے آگے سب بے بس تھے۔ دُنیا کی تاریخ میں آزادی کی جتنی بھی تحریکیں تھیں، ان میں کبھی بھی معصوم عوام کو نشانہ نہیں بنایا گیا لیکن عوامی لیگ اور مکتی باہنی نے نہتے عوام پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑدیئے اور پاکستان کو چاہنے والے لاکھوں بہاریوں اور بنگالیوں کو شہید کر دیا۔

کہا جاتا ہے کہ 1970 کے انتخابات ملکی تاریخ کے شفاف ترین انتخابات تھے۔ آج جب امریکا جیسے ترقی یافتہ ملک میں بھی دھاندلی کے الزامات لگتے ہیں تو 1970 میں دھاندلی سے پاک انتخابات کیسے ممکن تھے؟ بھارت نے عوامی لیگ کو خوب فنڈنگ کی تھی۔ عوامی لیگ کے مسلح بدمعاش دندناتے پھرتے تھے اور تمام پولنگ اسٹیشنوں پر مرضی کے رزلٹ لائے گئے۔ ان انتخابات کی بناء پر مجیب نے حکومتِ پاکستان سے بلیک میلنگ شروع کردی اور یہ سب کچھ سوچی سمجھی سازش کے طور پر ہوا۔ اگر مجیب کو حکومت ملتی تو کوئی شک نہیں کہ وہ صرف مشرقی پاکستان ہی نہیں توڑتا، بلکہ مغربی پاکستان بھی پارہ پارہ کردیتا۔ اگرتلہ سازش میں پورے ثبوتوں کے ساتھ ایک محب وطن بنگالی افسر نے مجیب کو پکڑا اور جب اس کی ملک دشمنی میں کوئی شک نہیں رہا تو مغربی پاکستان کے چندسیاستدانوں نے شور مچایا کہ اسے چھوڑ دو۔ دباؤ میں آکر حکومت کو مجیب کو چھوڑنا پڑا۔

جب بھی ملک پر مشکل وقت آتا ہے تو بے ضمیر سیاستدان دشمن کی زبان ہی بولتے ہیں۔

مارچ 1971 تک مشرقی پاکستان کے حالات انتہائی خراب ہوچکے تھے۔ عوامی لیگ کے مسلح جتھے تب تک لاکھوں کی تعداد میں پاکستانیوں کوشہید کرچکے تھے۔ پروفیسر شرمیلا بوس جو ایک ہندو بنگالی بھارتی قلمکار ہیں، ان کے مطابق صرف کوہِ نور جُوٹ مل میں پھانسی گھاٹ بنا کر ہزاروں پاکستانیوں کو قتل کیا گیا۔ قطب الدین عزیزکی کتاب Death and Tears کے مطابق مشرقی پاکستان کے ایک سو دس شہروں میں لاکھوں بہاریوں کو عوامی لیگ کے مسلح غنڈوں نے ہندوستانی اسلحے کی مدد سے قتل کیا۔ اس قتل عام کو حکومت وقت نے مغربی پاکستان کے لوگوں سے چھپایا تاکہ وہاں لوگ مغربی پاکستان میں بنگالیوں کوانتقاماً قتل نہ کردیں۔ حالات اس حد تک خراب تھے کہ مجیب نے تمام بنگالی دکانداروں کو پاکستانی فوجیوں کو سامان خورد و نوش دینے سے منع کیا ہوا تھا۔ پاکستانی فوجیوں کے بچوں کو بازار سے دودھ تک نہ دیا جاتا تھا۔

مکتی باہنی کے دہشت گردوں نے ہزاروں بہاری عورتوں کی آبروریزی کی اور الزام پاکستانی فوج پر لگا دیا۔

حالات سے بے بس ہو کر جب جنرل نیازی، گورنر مالک کے پاس گئے، جو بنگالی تھے تو، بقول بریگیڈیر صدیق سالک، گورنر نے ایوانِ صدر میں تار بھیجا کہ اگر حکومت پاکستان حالات کو قابو میں لانا چاہتی ہے تو کیا میں (اس بارے مایں) بااختیار فیصلہ کر سکتا ہوں؟ تو جواب ملا کہ کر سکتے ہیں، مگر یہ صرف دو متحارب فوجوں کے درمیان کوئی معاملہ ہوگا، اس کو حکومتِ پاکستان کی حتمی رائے نہ سمجھا جائے۔
خیر گورنر مالک نے جنگ بندی کےلیے اقوامِ متحدہ کے نمائندے پال مارک ہنری کے ذریعے ایک مراسلہ بھجوایا۔ وہاں اقوامِ متحدہ والوں نے یہ مراسلہ امریکی کو پکڑا دیا جس نے وہ بھٹو کو دے دیا، جس نے 15 دسمبر کو پولینڈ کی قرارداد کو سلامتی کونسل میں پھاڑ کر پاکستان کی آخری اُمید کو بھی تار تار کر دیا۔

قطب الدین عزیز کی کتاب ''Death and Tears'' کے مطابق جب بنگلہ دیش بنا تو وہاں کی حکومت کی درخواست پر برطانیہ سے آئی ہوئی ڈاکٹروں کی ٹیم نے عوامی لیگ کے اس الزام کی تحقیق کی کہ کہ تین لاکھ بنگالی عورتوں کی آبرو ریزی کی گئی۔ اس تحقیق کے نتیجے میں صرف ایک سو عورتوں نے رپورٹ درج کروائی لیکن خود برطانوی ڈاکٹروں کو بھی ان پر شک تھا کہ کہیں وہ لوگ مکتی باہنی کی نہ ہوں، یعنی یہ الزام عوامی لیگ کا ڈھونگ تھا۔

مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی بنیادی وجہ انگریزوں سے مرعوب نظام حکومت تھا۔ اگر لبرل زندگی گزارنی ہوتی تو شاید ہمیں پاکستان بنانے کی ضرورت بھی نہ تھی۔ انگریز نے تو بذریعہ جہاد پاکستان بنانے کی اجازت ہی نہ دی۔ علامہ اقبالؒ کے افکار کی روشنی میں ایک دیانتدار وکیل محمدعلی جناحؒ نے سیاسی جدوجہد کے ذریعے اکیلے پاکستان ہمیں لے کر دے دیا۔ اگر ہم پاکستان میں رسولِ عربیﷺ اور خلفائے راشدین والا پہلے 100 سال والا اسلامی نظامِ حکومت نافذ کردیتے اور عربی زبان کو پاکستان کی واحد قومی زبان کے طور پر رائج کردیتے تو پاکستان آج مسلم دنیا میں نہ صرف لیڈر بن کر اُبھرتا بلکہ باقی مسلم ممالک اسی طرح سے پاکستان کی پیروی کرتے۔

مگر ہم نے اینگلو امریکن بلاک کی سازش میں آکر، کافروں سے مرعوب جمہوری نظام حکومت اپنالیا۔ طرح طرح کی سیاسی جماعتیں ملک مخالف زبانیں، بھانت بھانت کی بولیاں بولنے لگیں، جنہوں نے ہمارے ملک کی وحدت کا بیڑا غرق کردیا۔ بجائے اس کے کہ ہم اﷲ اور رسولِ عربیﷺ کے رشتے پر ناز کرتے، ہم نے ہندو کی طرح مٹی مٹی کرنا شروع کر دیا۔

قائدِاعظمؒ کی وفات کے بعد اقتدار کے لالچ نے مجیب، یحییٰ، ایوب اور بھٹو طرح کے بدنیت آدمی پیدا کیے، جو ملک سے مخلص ہی نہ تھے۔ ایک قادیانی جج جسٹس منیر کہا کرتا تھا کہ یہ پاکستانی عجیب لوگ ہیں کہ حاکمیت یا تو اﷲ کی ہوتی ہے یا صرف عوام کی۔ ایک ہی وقت میں دونوں کی نہیں ہوتی۔ حالانکہ آئینِ پاکستان کہتا ہے کہ پاکستان میں کوئی بھی قانونِ قرآن و سنت کے خلاف نہیں بن سکتا۔ اگر 1971 میں یحییٰ ملک میں رسولِ عربیﷺ کا اسلام نافذ کر دیتا، جس میں کوئی فرقہ نہ تھا، کوئی سیاسی جماعت نہ تھی بلکہ تمام مسلمان اﷲ کی فوج تھے، تو بنگال کے لوگ ہمیشہ ہمیشہ کےلیے ﷲ اور رسول عربیﷺ کے عاجز بندے بن جاتے اور پاکستان کے وفادار شہری بن کر آج پاکستان کا جھنڈا لہرا رہے ہوتے؛ کیونکہ ہمیں اور بنگالیوں کو قومیت نہیں بلکہ اﷲ اور رسولِ عربیﷺ ہی باندھ سکتے تھے۔

مشرقی پاکستان میں لڑنا واقعی بہت مشکل تھا مگر اس طرح ہتھیار ڈال کر جنرل نیازی نے پاکستان کو دُنیا جہان میں رسوا کر دیا۔ یہ تو وہ فوج تھی کہ جنرل ایک اشارہ کرتا تو ساری کی ساری فوج جامِ شہادت نوش کر جاتی مگر ہتھیار نہ ڈالتی۔ جنرل کو چاہیے تھا کہ تمام کمانڈروں کو بلاتا اور کہتا یحییٰ اور بھٹو نے ہمارے ساتھ اہلِ کوفہ والا کردار ادا کیا ہے، امریکا نہیں آئے گا، ہمارا صرف ﷲ ہے۔ میں امام حسینؓ کی طرح چراغ بجھاتا ہوں، اگر کوئی فوجی مقامی طور پر نہ لڑنا چاہے تو میں اس سے ناراض نہ ہوں گا۔ مگر جو اﷲ اور رسولﷺ کے غلام بن کر میرے ساتھ اپنی جان دینا چاہیں تو میں آخری سانس تک ان کے ساتھ لڑوں گا۔

مزید یہ کہ جب پہلے دن سے پتا تھا کہ مشرقی پاکستان ہمارے ہاتھ سے نکل چکا تھا تو بہتر تھا کہ پاکستانی فوج کے وہاں سے براستہ چین یا برما نکلنے کا مناسب انتظام کیا جاتا۔ بہتر تھا کہ سب چٹاگانگ میں اکٹھے ہوجاتے اور وہاں سے برما نکل جاتے۔

آج بھی ہندوستان کے ہاتھ میں پاکستان کو دکھانے کےلیے ہتھیار ڈالنے والی تصویر کے علاوہ کچھ نہیں۔ مجیب نے یہ بھی الزام لگایا تھا کہ پاک فوج نے تیس لاکھ بنگالیوں کو قتل کیا۔ لیکن جب بنگلہ دیش کا سرکاری انکوائری کمیشن بیٹھا تو صرف تین ہزار لوگوں نے شکایت درج کروائی۔ اس سے ثابت ہوا کہ ان کا تعلق مکتی باہنی سے تھا، جنہوں نے معصوم نہتے پاکستانیوں کو قتل کیا تھا۔

ان تمام حقائق و واقعات سے یہ ثابت کرنا مقصود ہے کہ اگر درست فیصلہ کیا جاتا تو پاک فوج کے سپاہی اپنی جان دے دیتے مگر سبز ہلالی پرچم گرنے نہ دیتے اور ہندوستان کو آئندہ کبھی پاکستان کی طرف میلی نگاہ سے دیکھنے کی ہمت نہ پڑتی۔ پاکستانی سپاہیوں نے وہاں ملک کی خاطر ہر قربانی دی۔ تیس ہزار فوج نے چھ لاکھ مکتی باہنی اور ہندوستانی فوج کا جواں مردی سے کئی مہینوں تک مقابلہ کیا۔

قوموں کی زندگی میں مشکل آتی ہے مگر ہم پاکستانی آج بھی مایوس نہیں۔ بھارت نے تب ہم مسلمانوں کو آپس میں لڑایا۔ آج پھر اسی ایجنڈے پر ہے۔ انڈیا ہمارا کبھی دوست نہیں بن سکتا۔ اگر کسی کو شک ہے تو رسولِ عربیﷺ کی غزوۂ ہند کی احادیث دیکھ لے۔ وہ بدستور کشمیر پر ظلم کر رہا ہے۔ اگر ہندوستان کو پاکستان کی کسی چیز سے خوف ہے تو وہ 22 کروڑ پاکستانیوں کا جذبۂ جہاد ہے۔ ﷲ ہمیشہ پاکستان کا حامی و ناصر ہو، آمین۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

مقبول خبریں