خبردار! آپ کو جرمانہ ہو سکتا ہے

ذیشان محمد بیگ  اتوار 16 دسمبر 2018
 بظاہر معمولی دکھائی دینے والی حرکتوں پر لاگوحیران کن قوانین کی کہانی۔ فوٹو: فائل

 بظاہر معمولی دکھائی دینے والی حرکتوں پر لاگوحیران کن قوانین کی کہانی۔ فوٹو: فائل

مہذب معاشرے وجود میں آنے کے بعد انسان نے شہری زندگی کو محفوظ و مامون رکھنے کے لیے قوانین کا اجراء کیا تاکہ نظم و نقص کو برقرار رکھا جاسکے اور کوئی بھی کسی دوسرے کا حق غصب کرنے اور اس کو قوت و اختیار کے زور پر ایذاء پہنچانے سے گریز کرے اور کوئی اگر پھر بھی باز نہ آئے تو اس کو قانون کے شکنجے میں لاکر سماجی انصاف کی راہ ہموار کی جائے تاکہ امن و سکون میسر رہے، لیکن جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ ہماری یہ دنیا عجیب و غریب واقعات اور جگہوں سے بھری ہوئی ہے جواس کو متنوع شکل میں مزین کرکے اس کی خوبصورتی کو چار چاند لگا دیتے ہیں۔

اسی طرح دنیا کے مختلف ممالک اور خطوں میں کچھ ایسے رسوم و رواج اور قوانین بھی پائے جانے ہیں جو شاہد دیکھنے، سننے یا پڑھنے میں تو غیر معمولی نظر آئیں مگر یقینا ان کو ان کی افادیت ہی کی بدولت ان کو لاگو کیا گیا ہے۔ اگر آپ دنیا کی سیر کا پروگرام بنا رہے ہیں تو ان قوانین کو مدنظر رکھیں تاکہ نادانستگی میں ان کی خلاف ورزی کے باعث آپ کے سفری تخمینے آپ کے اندازے سے زیادہ اور آپ کے اخراجات آپ کی بساط سے باہر نہ ہوجائیں۔

-1 اٹلی کے نہری شاہراؤں کے سبب شہرت رکھنے والے مشہور شہر ’’وینس‘‘ (Venice) کی سیاحت کے دوران اگر آپ چہل قدمی کرتے کرتے کچھ تھکن محسوس کررہے ہیں اور چند لمحے کسی تفریحی مقام پر بیٹھ کر سستانے کا ارادہ رکھتے ہیں تو ہرگز یہ خیال دل میں نہ لائیے کیوں کہ ایسا کرنے کی صورت میں پولیس، مقامی قوانین کی رو سے آپ کو پکڑ کر 588 ڈالرز کا جرمانہ کرنے کی مجاز ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ شہر سیاحوں کی بے تحاشہ آمد کے باعث بہت زیادہ پرہجوم ہوگیا ہے اور سرکاری حکام شدت کے ساتھ اس مسئلے کے حل کے لیے کوشاں ہیں۔ یہ قانون بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے تاکہ رش والی جگہوں کو رکاوٹوں سے بچایا اور رواں دواں رکھا جا سکے۔ اگر آپ کا تھوڑی دیر آرام کرنے کا موڈ ہو تو بہتر ہے کہ کسی کیفے یا ریسٹورینٹ وغیرہ کا رخ کریں اور چائے کافی سے لطف اندوز ہوں۔

-2 جیسا کہ امریکیوں پر یہ الزام ہے کہ وہ اپنی بے حد مصروف زندگی کی وجہ سے کھانا پینا بھی چلتے پھرتے ہی کھا لیتے ہیں، تو اگر آپ اٹلی ہی کے ایک اور معروف سیاحتی شہر ’’فلورنس‘‘ (Florence) میں موجود ہیں تو برائے مہربانی امریکیوں کی اس عادت کو دوہرانے سے اجتناب ہی بہتر ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ ’’فلورنس‘‘ کی گلیوں میں مخصوص کیے گئے مقامات پر سرعام کھانا پینا جرم ہے اور اس کا جرمانہ 570 ڈالرز ہے۔اس جرمانے سے بچنے کا طریقہ یہی ہے کہ آپ مہذب انسانوں کی طرح کسی کیفے یا ریسٹورینٹ میں آرام سے بیٹھ کر کھانا تناول کریں۔

-3 ہر وقت سیاحوں سے کھچا کھچ بھرے رہنے والے ہالینڈ کے شہر ’’ایمسٹرڈیم‘‘ (Amsterdam) کو بھی یہی مسئلہ درپیش ہے کہ وہاں کی گلیاں اور بازار لوگوں کے ہجوم سے چھلکتے رہتے ہیں۔ اسی لیے وہاں یہ قانون لاگو ہے کہ اگر کسی گلی کے شروع میں آویزاں ٹریفک لائٹ کی طرز کی لگی ہوئی بتیوں میں سے سرخ رنگ کی بتی روشن ہو تو اس کا مطلب ہے کہ اس گلی میں رش کی وجہ سے فی الحال داخلہ ممنوع ہے تاہم سبز بتی کا مطلب داخلے کی اجازت اور نارنجی کا مطلب ہے کہ آپ اپنے رسک پر اندر داخل ہوسکتے ہیں۔ اس قانون کی خلاف ورزی پر کوئی مخصوص جرمانہ تو متعین نہیں لیکن موقع پر موجود پولیس اپنی صوابدید پر کوئی بھی جرمانہ عائد کرسکتی ہے۔ نیز اس کے ساتھ ساتھ ان جگہوں یعنی عوامی مقامات پر نشے کی حالت میں آنے پر 109 ڈالرز جبکہ گندگی پھیلانے پر 160 ڈالرز کا جرمانہ بھی ہوسکتا ہے۔ اس لیے محتاط رہیے۔

-4 بحر روم میں واقع دوسرا بڑا جزیرہ، اٹلی کا ’’سارڈینیا‘‘ (Sardinia) ہے جو ایک معروف تفریحی مقام ہے اور سیاح یہاں پر بڑی تعداد میں آتے ہیں۔ جیسا کہ عام طور پر لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ جب ساحل سمندر پر جائیں تو وہاں سے سیپیاں، گھونگے، خوبصورت پتھر اور یہاں تک کہ تھوڑی سی ریت بھی نشانی کے طور پر گھر لے آتے ہیں۔ مگر خیال رہے کہ ’’سارڈینیا‘‘ میں آپ ایسا سوچیے گا بھی نہیں کیوں کہ اگر آپ ایسا کرتے ہوئے پکڑے گئے تو آپ کو یہ نشانیاں مہنگی پڑجائیں گی۔ ’’سارڈینیا‘‘ کے ساحل سے ریت یا ایسی ہی دیگر چیزیں اکٹھی کرنے پر 580 تا 3,482 ڈالرز تک کا جرمانہ ہوسکتا ہے جو ظاہر ہے کہ آپ کی تفریحی بجٹ کو تہہ و بالا کردے گا۔

-5 ’’کورن وال‘‘ (Cornwall) انگلستان کا ایک ساحلی شہر ہے۔ یہاں آنے والے سیاحوں کی زیادہ تعداد کا مقصد اس کے ایک ساحل ’’کریکنگٹن‘‘ (Crackington) کا دورہ کرنا ہوتا ہے جو ’’پارش‘‘ (Parish) نامی گرجا کے ایک راہب ’’سینٹ گینز‘‘ (St. Gennys) سے منسوب ہے اور سیاحوں کی جنت کہلاتا ہے۔ سیاح یہاں کسی چیز کو بھی نہیں چھیڑتے کیونکہ یہاں سے پتھروں کا ہٹانا، سمندری پانی سے ساحلی کٹاؤ کا سبب بن سکتا ہے۔ یہاں باقاعدہ نوٹس بورڈز کے ذریعے لوگوں کو انتباہ کیا گیا ہے کہ وہ یہاں سے پتھر نہ سمیٹیں۔ اس عمل کا جرمانہ 1,283 ڈالر ہے۔ ایک سیاح جو یہاں سے چند پتھر اکٹھے کر کے واپس اپنے گھر جاچکا تھا، کو تلاش کرکے اس جرم میں سینکڑوں میل کی دوری پر واقع اس کے گھر سے ساحلی پتھر واپس لاکر ساحل پر ڈالنے کی سزا بھی مل چکی ہے۔

-6 آج کل ساری دنیا میں ماحولیاتی آلودگی ایک بہت بڑا مسئلہ بن چکی ہے جس کی وجہ سے بے وقت موسمیاتی تغیر و تبدل سے لے کر دیگر دوسرے بہت سے معاملات انسانوں کی پریشانی کا باعث بنے ہوئے ہیں اور دن بدن ان میں اضافہ ہی ہوتا چلا جارہا ہے۔ اس عفریت سے بچنے کے لیے عالمی سطح پر بہت سی کوششیں جاری و ساری ہیں جن میں سے ایک گندگی کے پھیلاؤ کو روکنا بھی شامل ہے۔ ’’ہانگ کانگ‘‘ کا نام تو تقریباً سب نے ہی سن رکھا ہے۔ وہاں بھی سیاحوں کی کافی زیادہ آمدورفت رہتی ہے۔ ہانگ کانگ کی انتظامیہ نے وہاں گندگی پھیلانے پر 1500 ڈالرز جرمانہ عائد کررکھا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ جرمانہ محض برگر کا ایک ’’ریپر‘‘ (Wrapper) سڑک پر پھینکنے پر بھی لگ جاتا ہے اور آپ یہ عذر بھی پیش نہیں کرسکتے کہ آپ کو مقامی زبان نہیں آتی اس لیے آپ نے کہیں بھی ایسا نوٹس نہیں پڑھا کیونکہ وہاں کی انتظامیہ نے اسی لیے جگہ جگہ اشارتی نشانات کے ذریعے بھی اس قانون کے بارے میں ہدایات چسپاں کی ہوئی ہیں۔ اچھی بات تو یہ ہے کہ ہم اپنی زمین کو آلائشوں سے پاک کرنے کے نیک کام میں ان لوگوں کا ہاتھ بٹائیں جو یہ عظیم مقصد عملی طور پر لے کر چل رہے ہیں۔

-7 کچھ لوگ یا اقوام اپنے رسوم و رواج پر سختی سے کار بند رہنا پسند کرتے ہیں۔ یہ کسی حد تک اچھی بات بھی ہے۔ انگریزوں کا شمار بھی انہیں قدامت پند قوموں میں کیا جاتا ہے۔ تاہم بدلتی دنیا کے کچھ نہ کچھ رنگ ایسے معاشروں میں بھی سرایت کر ہی جاتے ہیں۔ جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا کہ زیادہ تر امریکی اپنی مصروف زندگی کی وجہ سے کھانا بھی چلتے پھرتے ہی کھاتے ہیں تاکہ وقت کی بچت ہوجائے۔ گو یہ عادت صحت کے لحاظ سے کافی خراب ہے۔ اب دنیا کے دوسرے ممالک کی طرح فاسٹ فوڈ کے متوالے انگلستان میں بھی دوران ڈرائیونگ مشروبات اور فاسٹ فوڈ اشیاء کا استعمال کرنے لگے ہیں جس کی حوصلہ شکنی کے لیے آخر کار حکومت نے ایسا کرنے والے پر 128 ڈالرز کا جرمانہ عائد کردیا ہے اور مزید یہ کہ اگر آپ پر تین بار یہ جرمانہ لگ جائے تو پھر آپ کو زیادہ بڑی سزا کا سامنا بھی کرا پڑھ سکتا ہے۔

-8 لمبی اور کشادہ شاہراہوں پر تیز ڈرائیونگ کا اپنا ہی مزا ہے۔ اس طرح ناصرف ایندھن کم خرچ ہوتا ہے اور فاصلے گھٹ جاتے ہیں بلکہ سفر کی تھکاوٹ بھی کم محسوس ہوتی ہے۔ اسی لیے دنیا بھر میں مختلف ممالک اپنے عوام کو بہتر سفری سہولتیں فراہم کرنے کے لیے موٹر ویز کا جال بچھائی ہیں۔ جرمنی میں ان سڑکوں کو ’’آٹو باہن‘‘ (Autobahn) کہتے ہیں۔ جن پر سفر کرنے والوں کے لیے رفتار کی حد 81 میل تک ہے بلکہ کئی کھلے علاقوں سے گزرتے ہوئے رفتار کی کوئی بھی قانونی حد مقرر نہیں، لیکن ظاہر ہے کہ اسی سڑکوں پر تیز رفتار ٹریفک کے بہاؤ کے تسلسل کو بلا رکاوٹ یقینی بنانے کے لیے چند خصوصی قوانین بھی بنائے جاتے ہیں۔ اگر آپ جرمنی کی سیر سے لطف اندوز ہورہے ہیں تو خیال رہے کہ آپ کی گاڑی کا ایندھن ختم نہ ہونے پائے کیونکہ اس صورت میں آپ باقی لوگوں کے لیے پریشانی کا سبب بن جائیں گے۔ جس پر آپ کو 34 ڈالرز جرمانے کے طور پر بھرنے پڑیں گے۔ اس لیے سفر پر روانہ ہونے سے پہلے اپنی گاڑی کا ایندھن والا ٹینک اچھی طرح چیک کرلیں۔

-9 گالیاں دینا تو کسی بھی موقع یا جگہ پر معیوب ہی سمجھا جاتا ہے اور مہذب معاشروں میں گالیاں دینے والے کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا۔ ایسی عادات بد سے بچنے کے لیے بہت سی نصیحتیں بھی کی جاتی ہیں لیکن جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ ’’لاتوں کے بھوت، باتوں سے نہیں مانتے‘‘ تو اسی محاورے کے مصداق آسٹریلیا کے شہر ’’سڈنی‘‘ میں عوامی مقامات پر گالیاں دینے پر 500 ڈالرز تک کا جرمانہ دینا پڑتا ہے۔ ’’سڈنی‘‘ میں گھومتے پھرتے اگر آپ کو یہ احساس ہو کہ کوئی آدھ میل پیچھے آپ ایک غلط موڑ مڑ جانے کی وجہ سے اپنا راستہ کھوچکے ہیں یا کسی پرہجوم جگہ پر آپ اپنے بٹوے سے محروم ہوچکے ہیں، جس میں زاد راہ کے علاوہ آپ کے کچھ قیمتی کاغذات بھی موجود تھے تو براۂ کرم زیر لب بھی گالی دینے سے گریز کریں ورنہ اگر کسی پولیس والے نے سن لیا تو آپ کو یہ گالی مہنگی پڑجائے گی۔

-10 اگر کسی کو کہا جائے کہ اس نے دریا میں چھلانگ لگانی ہے اور گیلا بھی نہیں ہونا تو یقینا آپ ایسے شخص کو تعجب سے دیکھیں گے کہ کہیں اس کا دماغی توازن بگڑ تو نہیں گیا۔ مگر امریکی ریاست ’’الاسکا‘‘ جو تقریباً ساری کی ساری برف سے ڈھکی ہوئی ہے اور تو اور وہاں کے قدیم باشندے برف سے بنے ہوئے گھروں، جنہیں ’’ایگلو‘‘ کہتے ہیں، میں رہتے ہیں۔ انہیں سرد موسم سے مقابلہ کرنے اور آپ کو گرم رکھنے کے لیے بہت سے جتن کرنے پڑتے ہیں، جن میں شراب نوشی بھی شامل ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ’’الاسکا‘‘ میں کسی شراب خانے میں بیٹھ کر شراب نوشی کرنا ممنوع ہے۔ تاہم اس جرم کے انعقاد پر کیا جانے والا جرمانہ ابھی نامعلوم ہے۔ اس قانون کی ضرورت شاید اس لیے محسوس کی گئی تاکہ لوگ شراب خانے کے پر آسائش ماحول میں بیٹھ کر زیادہ پی کر اتنے مدہوش ہی نہ ہوجائیں کہ پھر گھر واپس جانا بھی ان کے لیے ایک کار دشوار ہوجائے اور شراب خانے والوں کی درد سری میں اضافے کا باعث بن جائے۔

-11 آج کل پاکستان میں موسم سرما کی آمد آمد ہے اور گرم مشروبات، خشک میواجات، بھنی ہوئی مچھلی اور باربی کیو سے لطف اندوز ہونے کا سلسلہ عروج کی طرف جارہا ہے۔ مچھلی ویسے بھی غذائیت کے اعتبار سے انسانی صحت کے لیے انتہائی مفید ہے۔ پر کیا آپ کو معلوم ہے کہ انگلستان میں مچھلیوں کا مشکوک انداز میں شکار اور ان کا ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانا وغیرہ غیر قانونی ہے۔ 1986ء کے ’’یونائٹڈ کنگڈم سالمن ایکٹ‘‘ کے حصہ سوئم کے سیکشن 32 کے تحت ’’اگر کوئی شخص مچھلیاں شکار کرنے، ساتھ لے کر جانے یا ذخیرہ کرنے میں قانونی تقاضوں کو ملحوظ خاطر نہیں رکھتا تو اس پر جرمانہ عائد کیا جائے گا۔‘‘ یہ قانون انگلستان کے کاؤنٹی ’’ویلز (Wales) اور ’’سکاٹ لینڈ‘‘ میں لاگو ہے جہاں تازہ پانی کی مچھلیوں اور ’’ٹراؤٹ‘‘ (Trout) وغیرہ جیسی اقسام کی مچھلیوں کی نسل کے تحفظ کے لیے اس قانون کا اجراء کیا گیا۔ اس لیے بہتر ہے کہ انگلستان میں خود مچھلی کا شکار کرکے اسے کھانے کی بجائے کسی مچھلی فروش کی دکان سے خرید لی جائے۔

آپ کو یاد ہی ہو گا کہ ابھی چند برس قبل یوٹیوب پر ایک پاکستانی کی ویڈیو بہت وائرل ہوئی تھی جو انگلستان میں یہ گا گا کر مچھلی بیچ رہا تھا۔

ون پاؤنڈ فِش۔۔۔

-12 سنگاپور عجیب قوانین کے حوالے سے سب ممالک پر بازی لے گیا کیونکہ وہاں نہ صرف چیونگم چبانے بلکہ ملک میں لانے پر بھی پابندی ہے۔ اب کوئی پوچھے کہ بھائی بھلا چیونگم جیسی بے ضرر چیز نے کیا خطا کردی؟ تاہم اس پر پابندی کا یقینا کوئی نہ کوئی ٹھوس سبب رہا ہوگا۔ سنگاپور میں چیونگم فروخت کرنے پر 100,000 ڈالرز جرمانہ ہے۔ جی ہاں، ایک لاکھ ڈالرز۔ اس لیے سنگاپور جاتے ہوئے اپنی چیونگم یہیں چھوڑ جائیں اور واپس آکر شوق فرمائیں ورنہ لینے کے دینے پڑسکتے ہیں۔ یہ قانون وہاں 1992ء میں لاگو کیا گیا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ جب لوگ اسے چبا کر پھینک دیتے ہیں تو یہ سڑکوں اور فٹ پاتھوں پر پڑی ناصرف گندگی کا باعث بنتی تھی اور بدنما بھی دکھائی دیتی تھی بلکہ لوگوں کے جوتوں کے ساتھ چپک کر مزید غلاظت پھیلانے میں اپنا کردار ادا کرتی تھی اور مہذب معاشرے اس طرح کی چیزوں سے اجتناب ہی کرتے ہیں۔ یہ ہمارے لیے سوچنے بھی کا مقام ہے۔

-13 مکمل سترپوشی مہذب لوگوں کا شعار ہے اور اپنی انہی خصوصیات کی وجہ سے انسان حیوانوں سے افضل ہے۔ تاہم دنیا میں ہر طرح کے لوگ پائے جاتے ہیں جو ایڈونچر یا کسی غلط عقیدے کی وجہ سے درجۂ انسانیت سے نیچے گرجاتے ہیں۔ اچھے معاشرے اس طرح کی برائیوں کے سدباب کے لیے کوشاں بھی رہتے ہیں اور اس ضمن میں جو بھی ضروری اقدامات اٹھانے پڑھیں ان سے دریغ نہیں کرتے۔ سوئٹزرلینڈ پوری دنیا میں سیاحت کے لیے خوبصورت ترین مقام مانا جاتا ہے۔ وہاں دیگر علاقوں کے علاہ اس کے مشہور سلسلے کوہ ’’الپس‘‘ (Alps) پر ’’ہائکنگ‘‘ (Hiking) کرنا بھی بہت سارے لوگوں کا مرغوب مشغلہ ہے۔ 2011ء میں چند واقعات کے رونما ہونے کے بعد وہاں کی حکومت نے اس مقام پر بے لباس اور عریاں ہونے کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے خلاف ورزی کی صورت میں 100 ڈالرز جرمانے کا اعلان کیا ہے۔

ظاہر ہے کہ بے لگام آزادی تو کسی کو بھی نہیں دی جاسکتی۔ کہا جاتا ہے کہ آپ کی آزادی وہاں ختم ہوجاتی ہے جہاں سے کسی دوسرے کی ناک شروع ہوجائے۔

ذیشان محمد بیگ
[email protected]

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔