- عماد کو پہلے ٹی20 میں پلئینگ الیون کیوں شامل نہیں کیا؟ سابق کرکٹرز کی تنقید
- 9 مئی کیسز؛ فواد چوہدری کی 14 مقدمات میں عبوری ضمانت منظور
- بیوی کو آگ لگا کر قتل کرنے والا اشتہاری ملزم بہن اور بہنوئی سمیت گرفتار
- پی ٹی آئی حکومت نے دہشتگردوں کو واپس ملک میں آباد کیا، وفاقی وزیر قانون
- وزیر داخلہ کا کچے کے علاقے میں مشترکہ آپریشن کرنے کا فیصلہ
- فلسطین کواقوام متحدہ کی مکمل رکنیت دینے کا وقت آ گیا ہے، پاکستان
- مصباح الحق نے غیرملکی کوچز کی حمایت کردی
- پنجاب؛ کسانوں سے گندم سستی خرید کر گوداموں میں ذخیرہ کیے جانے کا انکشاف
- اسموگ تدارک کیس: ڈپٹی ڈائریکٹر ماحولیات لاہور، ڈپٹی ڈائریکٹر شیخوپورہ کو فوری تبدیل کرنیکا حکم
- سابق آسٹریلوی کرکٹر امریکی ٹیم کو ہیڈکوچ مقرر
- ہائی کورٹس کے چیف جسٹسز کے صوابدیدی اختیارات سپریم کورٹ میں چیلنج
- راولپنڈٰی میں بیک وقت 6 بچوں کی پیدائش
- سعودی معاون وزیر دفاع کی آرمی چیف سے ملاقات، باہمی دلچسپی کے امور پر گفتگو
- پختونخوا؛ دریاؤں میں سیلابی صورتحال، مقامی لوگوں اور انتظامیہ کو الرٹ جاری
- بھارت میں عام انتخابات کے پہلے مرحلے کا آغاز،21 ریاستوں میں ووٹنگ
- پاکستانی مصنوعات خریدیں، معیشت کو مستحکم بنائیں
- تیسری عالمی جنگ کا خطرہ نہیں، اسرائیل ایران پر براہ راست حملے کی ہمت نہیں کریگا، ایکسپریس فورم
- اصحابِ صُفّہ
- شجر کاری تحفظ انسانیت کی ضمانت
- پہلا ٹی20؛ بابراعظم، شاہین کی ایک دوسرے سے گلے ملنے کی ویڈیو وائرل
کراچی ، ترقی کے خوش آئند اعلانات، ثمرات کب ملیں گے؟
لیجیے جناب! پاکستان تحریک انصاف کی وفاقی حکومت اور سندھ میں پیپلزپارٹی کی صوبائی حکومت نے اپنے اپنے بجٹ پیش کردیے۔ ان میں ظاہری طور پر عوام کے فائدے کیلیے، علاقوں کی ترقی وخوشحالی کے لیے بہت سے منصوبوں کو مکمل کرنے کا اعلان کیا گیا ہے جب کہ جاری منصوبوں کے علاوہ نئے منصوبے بھی شروع کرنے کی نوید سنائی گئی ہے۔
یہ اور بات ہے کہ وفاقی حکومت کے بجٹ کو شہر اقتدار میں موجود حزب اختلاف اچھا نہیں سمجھ رہی جب کہ سندھ صوبے کے لیے پیش کردہ بجٹ پر صوبے کی اپوزیشن جماعتوں کو شدید تحفظات ہیں۔ وفاقی بجٹ ہو یا سندھ کا صوبائی بجٹ ، دونوں میں شہرکراچی کے حوالے سے بھی بڑے بڑے منصوبوں کا اعلان کیا گیا ہے اور ان کے لیے خطیر رقوم مختص کی گئی ہیں ۔
یہ منصوبے سننے میں بہت شاندار اور اچھے نظر آرہے ہیں اور لوگوں کی رائے بھی یہ ہے کہ اگر شہرِ قائد کے ترقیاتی منصوبے مکمل ہو جائیں تو نہ صرف عوام کی بہت سی مشکلات کم ہوجائیں گی بلکہ شہرکا امیج بھی مزید اچھا ہو جائے گا۔ کراچی شہر کو دیکھا جائے تو اس وقت تقریباً نصف سے زائد شہر ترقیاتی کاموں کی وجہ سے اُدھڑا پڑا ہے، یہ جملہ گو کہ کچھ سخت لگ رہا ہے لیکن تلخ حقیقت بھی یہ ہے کہ شہر کے مختلف علاقے کئی سال سے مختلف نوعیت کے ترقیاتی کاموں کی وجہ سے متاثر ہیں، کہیں سڑکیں بند ہیں تو کہیں ملبے کا ڈھیر نظر آتا ہے۔
اس کے علاوہ کچرے کے ڈھیر، گندے پانی کا جگہ جگہ جمع ہونا ، ٹریفک کی خلاف ورزیوں کی صورت میں مختلف مقامات پر ٹریفک جام ہونا ، پانی اور بجلی کی عدم فراہمی پر پریشان حال لوگوں کے احتجاج کی وجہ سے حالات کشیدہ ہونا بھی روزمرہ کا معمول ہے جو لوگوں کی پریشانیوں میں اضافہ کررہا ہے۔ وفاقی اور صوبائی بجٹ کے بعد شہریوں کو جہاں یہ امید ہے کہ اب صورتحال کچھ بہتر ہوگی وہاں اُن کی ارباب اقتدار سے یہ التجا بھی ہے کہ بے شک نئے منصوبوں کو فوری طور پر شروع نہ کیا جائے لیکن کئی برسوں اور مہینوں سے جاری ترقیاتی کاموں کو جلد ازجلد پایہ تکمیل تک پہنچادیا جائے۔
وفاقی بجٹ میں کراچی کے 9 ترقیاتی منصوبوں کے لیے45.5 ارب روپے کی خطیر رقم مختص کی گئی ہے جب کہ سندھ کے بجٹ میں شہر قائد کے لیے 40 ارب روپے کے پیکیج کا اعلان ہوا ہے۔ اس کے علاوہ دیگر عالمی اداروں اورکمپنیوں کی جانب سے بھی شہرکی تعمیر و ترقی کے منصوبے پائپ لائن میں ہیں۔ سندھ حکومت کے بجٹ کی دستاویز میں بتایا گیا ہے کہ عالمی اداروں کے تعاون سے آیندہ 5 سال میں شہر کراچی مزید 226 ارب روپے کی سرمایہ کاری کی جائے گی۔’’کراچی والا ‘‘ ہونے کے ناتے ہمیں وزیر اعظم عمران خان کی وفاقی حکومت اور وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ کی سربراہی میں سندھ حکومت سے صرف یہ کہنا ہے کہ جن منصوبوں کا اعلان کیا گیا ہے، اُن کا شکریہ لیکن ضروری ہے کہ پہلے قلیل مدتی منصوبوں کو جلد از جلد مکمل کیا جائے۔
شہر میں پینے کے صاف پانی کی فراہمی، ہر علاقے میں بجلی اور گیس کی بلا تعطل ترسیل ، جگہ جگہ پڑے کچرے کے ڈھیروں کی صفائی، نکاسی آب کے نظام کو بہتر بنانا اور ٹرانسپورٹ کے ابتر نظام کو جدید اور موثر کرنا کوئی آسان کام نہیں لیکن ناممکن بھی نہیں ہے۔ بہت سے منصوبے کئی سال سے جاری ہیں لیکن مختلف وجوہ کی بنا پر مکمل ہونے کا نام نہیں لے رہے۔ اس طرف توجہ دینا وفاقی اور صوبائی دونوں حکومتوں کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔
یہ بھی ایک المناک حقیقت ہے کہ اسلام آباد اور کراچی سے آنیوالے بجٹ غریبوں کے آنسو بھی پونچھنے کے قابل نہیں۔ لاکھوں اورکروڑوں روپے کے اعلانات، اعداد وشمارکا گورکھ دھندہ کاغذات کی حد تک تو بہت اچھا کہا جاسکتا ہے لیکن حقیقی معنوں میں انھیں ہم اُس وقت اچھا سمجھیں گے جب غریب و متوسط طبقے کے مسائل کے حل کا آغاز ہو جائے۔ سندھ کے بجٹ میں ٹرانسپورٹ کے شعبے کے لیے 5 ارب روپے سے زائد کی رقم مختص کی گئی ہے جس کا بڑا حصہ کراچی میں ٹرانسپورٹ کی سہولتوں میں اضافے، اُن میں بہتری اور دیگر انفرا اسٹرکچر کی بہتری پر خرچ ہونا ہے۔
فراہمی و نکاسی آب کے منصوبوں پر بھی خطیر رقم خرچ کرنے کا منصوبہ ہے لیکن عوام صرف یہ پوچھ رہے ہیں کہ یہ سب کب ہو گا؟ ہر سال بجٹ آتا ہے، بڑے بڑے ترقیاتی منصوبوں کے اعلانات کیے جاتے ہیں، کچھ علاقوں میں منصوبوں پر کام بھی شروع ہوجاتا ہے لیکن وہ منصوبے تعداد میں بہت کم ہیں جو وقت مقررہ پر پایہ تکمیل تک پہنچے ہوں۔ شہر بھر میں لاکھوں لوگ روزانہ شہر کے ایک سرے سے دوسرے سرے کا سفر کرتے ہیں اور گھنٹوں ٹریفک جام کی اذیت، ٹوٹی پھوٹی سڑکوں پر سفرکی مشقت اور خستہ حال پبلک ٹرانسپورٹ کے عذاب کو جھیلتے ہیں ۔ اس کے علاوہ گھر آتے ہوئے اور گھر سے جاتے ہوئے قلت آب، طویل لوڈشیڈنگ اور دیگر مسائل بھی ہر شہری کے ساتھ ساتھ چل رہے ہوتے ہیں ، ایسے میں ایئرکنڈیشنڈ کمروں اور ایوانوں میں مہنگے سوٹ پہن کر عوام کی خدمت اور سہولت کے لیے کیے گئے اعلانات اور وعدوں پر کون کیوں اور کیسے یقین کریگا۔
اس وقت حالت یہ ہے کہ ایک منصوبہ مکمل نہیںہوتا کہ دوسرے کا اعلان ہوجاتا ہے۔ منصوبے بے شک کم ہوں لیکن اگر وقت پر مکمل کرلیے جائیں تو کسی بھی شہر کے باسیوں کو پریشانی نہیں ہوگی۔کراچی ملک کا سب سے بڑا شہر ہے ، یہاں آبادی بھی بہت ہے اور مسائل بھی لاتعداد ہیں، اس لیے ضروری ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں اس کی بحالی کے کاموں پر سب سے پہلے توجہ دیں۔ میں نے پہلے بھی کہیں اپنی اس رائے کا ذکر کیا تھا کہ کراچی میں بالخصوص اور ملک بھر میں بالعموم اکثر ترقیاتی منصوبے سیاست کی نذر ہوکر ادھورے رہ جاتے ہیں یا اُن پر کام ہی شروع نہیں کیا جاتا۔ ملک کے حکمرانوں اور ’’عوامی نمائندوں ‘‘ کو اس ’’بیماری ‘‘ کا علاج خلوص دل، اجتماعی سوچ کے سہارے اور قومی مفاد میں ڈھونڈنا ہوگا۔کراچی سے لاکھوں لوگوں کا روزگار وابستہ ہے اور یہاں کی تجارتی سرگرمیوں کی چمک ملک بھر میں اجالا پھیلانے کا ذریعہ بنتی ہے۔
اس شہر کا اتنا تو حق ہے کہ یہاں کے رہنے والے پُرسکون انداز میں گھر سے کام کی جگہ اور وہاں سے واپس اپنے گھر آسکیں۔ شہر میں ٹرانسپورٹ کا نظام بہتر ہوجائے۔ بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ بیشک ہو لیکن وقت پر ہو۔ امن و امان کی صورتحال مزید اتنی اچھی ہوجائے کہ گھر سے نکلتے وقت کوئی دھڑکا نہ لگا ہے کہ پتہ نہیں خیریت سے گھر واپسی ہوگی بھی یا نہیں، اگر صاف پانی ہرگھر تک باقاعدگی سے پہنچے اور شہر کی گلیوں، راستوں، سڑکوں اور تفریحی مقامات کو صاف ستھرا رکھنے کے لیے بھی موثر انتظامات کیے جائیں تو شہری پلٹ کر بھی نہیں پوچھیں گے کہ کون حاکم ہے ؟ اور کیا کررہا ہے؟
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔