- ایرانی صدر کا دورہ کراچی، کل صبح 8 بجے تک موبائل سروس معطل رہے گی
- ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کراچی پہنچ گئے، مزار قائد پر حاضری
- مثبت معاشی اشاریوں کے باوجود اسٹاک مارکیٹ میں مندی کا رجحان
- اسلام آبادہائیکورٹ کے فل کورٹ اجلاس میں خط لکھنے والے 6 ججوں کی بھی شرکت
- اقوام متحدہ کے ادارے پر حماس کی مدد کا اسرائیلی الزام جھوٹا نکلا
- نشے میں دھت مسافر نے ایئرہوسٹس پر مکے برسا دیئے؛ ویڈیو وائرل
- سعودیہ سے دیر لوئر آئی خاتون 22 سالہ نوجوان کے ساتھ لاپتا، تلاش شروع
- بیوی کی ناک اور کان کاٹنے والا سفاک ملزم ساتھی سمیت گرفتار
- پنجاب میں پہلے سے بیلٹ باکس بھرے ہوئے تھے، چیئرمین پی ٹی آئی
- ٹریفک وارڈنز لاہور نے ایمانداری کی ایک اور مثال قائم کر دی
- مسجد اقصی میں دنبے کی قربانی کی کوشش پر 13 یہودی گرفتار
- پنجاب کے ضمنی انتخابات میں پولیس نے مداخلت کی، عمران خان
- 190 ملین پاؤنڈز کیس؛ وکلا کی جرح مکمل، مزید 6 گواہوں کے بیان قلمبند
- حکومت تمام اخراجات ادھار لے کر پورا کررہی ہے، احسن اقبال
- لاپتا افراد کا معاملہ بہت پرانا ہے یہ عدالتی حکم پر راتوں رات حل نہیں ہوسکتا، وزرا
- ملائیشیا میں فوجی ہیلی کاپٹرز آپس میں ٹکرا گئے؛ 10 اہلکار ہلاک
- عالمی اور مقامی مارکیٹ میں سونے کی قیمت میں آج بھی بڑی کمی
- قومی ٹیم میں بیٹرز کی پوزیشن معمہ بن گئی
- نیشنل ایکشن پلان 2014 پر عملدرآمد کیلیے سپریم کورٹ میں درخواست دائر
- پختونخوا کابینہ میں بجٹ منظوری کیخلاف درخواست پر ایڈووکیٹ جنرل کو نوٹس
نادان دوست
دنیا بھر کی زبانوں میں اس موضوع پر موجود مقولوں اور محاوروں کو جمع کرلیا جائے تو ایک بات سب میں مشترک نکلے گی کہ دانا دشمن نادان دوست سے بہتر ہوتا ہے لیکن اگر ایسا نہ بھی ہو تب بھی نادان دوست کی طرف سے ملنے والے امکانات اپنی جگہ پر قائم رہتے ہیں۔ میں نے گزشتہ چند کالموں میں عمران خان کی ترجیحات اور اُن کی ترتیب کے معاملات میں درپیش مسائل کا ذکر قدرے تواتر سے کیا ہے لیکن اب اندازہ ہوتا ہے کہ سب سے زیادہ نقصان اُس کو چند نادان دوستوں کی وجہ سے پہنچ رہا ہے۔
گزشتہ ایک برس میں اتنے مسائل، حالات اور اُس کے سیاسی مخالفین نے پیدا نہیں کیے تھے اس کے ان more loyal to the king than the king himself یعنی شاہ سے زیادہ شاہ کے وفاداروں نے اُس کے اردگرد بکھیرے ہیں، ایک تو بدقسمتی سے اُس کی اپنی صفوں میں اُس کی اپنی ذات سمیت بہت کم لوگوں کو حکومت کے روزمرہ کاروبار دُوررس پالیسی سازی کا تجربہ تھا جس کی وجہ سے اُسے اہم عہدوں پر ایسے لوگوں کو لگانا پڑا جن کی انتظامی صلاحیت تو شائد کسی حد تک تسلی بخش تھی لیکن اُن کا اُس مشن اور ویژن سے کوئی تعلق نہیں تھا جن کا نعرہ لگا کر اُس کی پارٹی اقتدار میں آئی تھی۔
یہ ایک ایسی ناخوشگوار حقیقت ہے جس کی وجہ سے اُس کے کردہ اور ناکردہ کئی ’’سمجھوتوں‘‘ پر اُسے رعایتی نمبر دیے جاسکتے ہیں مگر اس بات پر ’’سمجھوتہ‘‘ ناممکن کی حد تک مشکل ہے کہ اُن کی دوستی اور قربت کے نام پر جو لوگ اُس کے لیے مسلسل مشکلات کھڑی کرتے چلے جارہے ہیں وہ اُن کو روکنے میں بہت حد تک ناکام رہا ہے اور یہ کہ اُس کے وہ دوست جو انتہائی برے وقتوں میں بھی اس کے ساتھ رہے ہیں اس احساس کے ساتھ پیچھے ہٹتے چلے جارہے ہیں کہ اُن کے مشوروں کو وہ اہمیت نہیں دی جارہی جو انھیں ملنی چاہیے تھی بلکہ اُن کے مقابلے میں ایسے لوگوں کو زیادہ اہمیت دی جارہی ہے جو نہ صرف بعد میں شامل ہوئے بلکہ جن کی وفاداری بھی کوئی بہت زیادہ قابلِ اعتبار نہیں۔
پرانے اور کسی نظریئے پر اتفاق رکھنے والے بنیادی دوستوں میں ایک اجتماعی رویہ عام طور پر دیکھنے میں آتا ہے کہ وہ اپنی بات لگی لپٹی رکھے بغیر کرنے کے عادی ہوتے ہیں اور اگر اُن کے مقابلے میں کسی اور کی رائے کو زیادہ اہمیت دی جائے تو وہ عام طور پر اسے حقیقت کے بجائے جذباتیت کے ترازو پر تولنے لگ جاتے ہیں۔ دوسری طرف لیڈر کے ساتھ بھی یہ معاملہ ہوتا ہے کہ جب وہ تھیوری سے نکل کر ’’عملی‘‘ کے میدان میں آتا ہے تو اُسے تنقید سے زیادہ تائید اچھی لگنے لگتی ہے جس کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ اُس بہت تھوڑے وقت میں ڈھیر سارے فیصلے کرنے ہوتے ہیں اور یوں اُس کے پاس تفصیل سے بحث کرنے یا سننے کا وقت نہیں ہوتا اور وہ اپنے خیال میں بہت سے سمجھوتے ’’عارضی‘‘ اور معاملات کی بڑی تصویرمیں دوراندیشانہ سمجھ کر کرتا ہے جب کہ اُس کے کچھ اصلی لیکن قدرے جذباتی دوست اسے اپنے وژن سے گریز اور بدعہدی تصور کرتے ہیں اور یوں آہستہ آہستہ بدگمانیوں کا ایک غبار سا چاروں طرف پھیل جاتا ہے جب کہ ’’حقیقت ‘‘ میں صورت حال اتنی پیچیدہ اور گمراہ کن نہیں ہوتی جتنی دکھائی دیتی ہے لیکن ہوتا یہ ہے کہ اس غلط فہمی سے پیدا شدہ خلا میں وہ نادان دوست زیادہ نمایاں اوربا اثر ہوتے جاتے ہیں جن کا واحد شوق ایک ایسی کارکردگی کا مظاہرہ ہوتا ہے جس میں گہرائی کم اور چمک یا شور نسبتاً بہت زیادہ ہوتاہے ۔
اتفاق سے گزشتہ ایک ہفتے میں یہ دونوں باتیں ایک ساتھ اور بہت واضح ہوکر سامنے آئی ہیں میری مراد ایک ٹی وی چینل پر طالب علمی کے دنوں کے دوست اور ساتھی اور نامور وکیل خاور خان کا وہ انٹرویو ہے جس میں انھوں نے عمران خان اور پی ٹی آئی سے اپنے قدیم اور مستحکم رشتے میں پڑنے والی دراڑوں کے بارے میں بات کی ہے جب کہ انھی دنوں میں سینئر صحافی اور دانشور پروفیسر عرفان صدیقی کی انتہائی برے اور قابلِ اعتراض انداز میں گرفتاری اور اس کے بعد عوامی دباؤ پر دی جانے والی رہائی کا قصہ ہے جس نے یقینا حکومتِ وقت کو ایک مشکل اور دفاعی صورت میں ڈال دیا ہے کہ اب اُس کے سمیت میڈیا، سیاسی مخالفین اور عوام الناس سب مل کر اُس ’’نادان دوست کی تلاش میں ہیں جو اس ساری ناخوشگوار صورت کا اصل متحرک ہے اور تادم تحریر جس کی نشاندہی بھی نہیں ہوسکی۔ میاں نواز شریف اینڈ فیملی سے لے کر رانا ثنااللہ تک کے خلاف بنائے گئے تمام مقدموں میں کوئی نہ کوئی ایک ایسا قانونی پہلو ضرور تھا۔
جس کی بنیاد پر آپ یہ دعویٰ کرسکتے ہیں کہ یہ سب کچھ کسی سیاسی انتقام کا حصہ نہیں بلکہ احتساب کے محکمے آزادانہ طور پر اپنا کام کررہے ہیں لیکن ایک اٹھہترسالہ اُستاد ، دانشور اور نامور صحافی کو جس طرح کے کیس میں پکڑا گیا ہے اُس کی واحد وجہ اُس کی میاں نواز شریف سے ذاتی وابستگی اور قربت کے سوا اور کچھ نظر نہیں آتی، سو جس کسی کے بھی حکم اور ایماء پر یہ ساری افسوسناک کارروائی ہوئی اُسکے لیے ’’نادان دوست‘‘ نسبتاً بہت نرم اور رعایتی ترکیب ہے ۔
اس پچھلی دو حکومتوں کی عوام دشمن اور مجرمانہ لوٹ مار کی کہانیاں دن رات دہرائی جارہی ہیں اُن کے بیشتر کارناموں کے پیچھے بھی اسی طرح کے کچھ نادان دوست اپنی جاں نثاری اور وفاداری کے مظاہرے کر رہے تھے سو عمران خان کے لیے لازم ہے کہ وہ سب سے پہلے نہ صرف اس طرح کے مہربانوں سے جان چھڑائے بلکہ اپنے اُن دوستوں کو بھی زیادہ سے زیادہ اپنے ساتھ رکھے جن کی ناراضی اور دوری کی اصل وجہ اُن کی اپنے لیڈر ،قوم اور پارٹی سے دلی محبت ، کمٹ منٹ اور وہ ’’دانش‘‘ ہے جو نئے مسائل کو پیدا کرنے کے بجائے موجود اور دیرینہ مسائل کو حل کرنے کے لیے اپنی خدمات صرف اس لیے پیش کرتی ہے کہ اُس کی روشنی سے معاشرے کے تمام گوشے منور اور روشن ہوں اور خیرکی بارش اپنے من پسند افراد کے بجائے سب پر ایک ہی طرح سے ہو۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔